ماماقدیر کو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں بلائے جانے پر ملکی خفیہ اداروں کا دباو اور مذاکرے کی منسوخی پاکستانی تعلیمی اداروں میں آزادی اظہاررائے کے حوالے سے موجود دہرے معیار کی نشاندہی کے لیے کافی ہے۔ پاکستانی تعلیمی اداروں میں جہاں ایک جانب فرقہ پرست علماء، جہادپسند تجزیہ نگار اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے رہنما مدعو کیے جاتے ہیں وہیں انسانی حقوق کے کارکنان، بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے رہنماوں اور ریاستی اداروں کی کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں ملالہ کی کتاب کی رونمائی کی اجازت نہ ملنا، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیلی ثقافت کا سٹال ہٹایا جانا، سندھ یونیورسٹی میں ہولی کی تقریبات سے روکنا اور ماما قدیر کے مذاکرے کی منسوخی پاکستان بھر کے نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں جاری سنسر شپ کی چند ادنی ٰ مثالیں ہیں۔
پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی نظر میں بظاہر تعلیمی اداروں میں کالعدم جہادی گروہوں اور فرقہ پرست قدامت پسند مذہبی علماء کی کھلے عام سرگرمیوں کے برعکس ماماقدیر کا طالب علموں سے رابطہ کہیں زیادہ سنگین خطرہ ہے
پاکستانی جامعات میں زید حامد، حمید گل اوراوریا مقبول جان جیسے جہادپسندوں کی تقاریر کوئی نئی بات نہیں۔ بارہا زید حامد پاکستانی جامعات میں سرینگر کی آزادی، لال قلعہ پر پاکستانی پرچم لہرانے اور اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے پاکستانی فوج کی مدح سرائی اور حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ بیسیوں مرتبہ ہمارے تدریسی اداروں میں اوریا مقبول جان ایک عالمگیر خلافت کے قیام، اسرائیل اور امریکہ کی تباہی اور احادیث کی روشنی میں سیاہ علم بلند کیے مجاہدین کی آمد کی نوید دے چکے ہیں۔ نوے کی دہائی میں سرکاری تعلیمی اداروں میں جہادی تنظیموں کے کارکنان کی آمدورفت، چندہ مہم اور مجاہدین کی بھرتی عام سی بات تھی۔پاکستانی تعلیمی اداروں میں مقررین اور مہمانان کو مدعو کرتے وقت ریاست، فوج، حکومت اور مذہب پر قابض حکم ران طبقے کے مفادات اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں سے اجتناب برتتے ہوئے محض ان افراد کو مدعو کیا جاتا ہے جوریاستی،فوجی ، عوامی اور مذہبی اکثریت اور بااثر طبقے کے لیے قابل قبول ہوں۔
پاکستانی درس گاہوں میں جہاد کی تبلیغ، عسکریت پسندی کی ستائش اور تکفیریت کی ترویج کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے کسی سرکاری محکمے، کسی خفیہ ادارے اور کسی سیکیورٹی اہلکار سے پوچھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی۔ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی نظر میں بظاہر تعلیمی اداروں میں کالعدم جہادی گروہوں اور فرقہ پرست قدامت پسند مذہبی علماء کی کھلے عام سرگرمیوں کے برعکس ماماقدیر کا طالب علموں سے رابطہ کہیں زیادہ سنگین خطرہ ہے؛ شاید عسکری ادارے ریاستی دہشت گردی اور ریاستی جبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کو قومی جرم سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں دہشت گرد بیانیے کی ترویج پر کسی قسم کی روک ٹوک دکھائی نہیں دیتی لیکن قوم پرست اور جمہوریت پسند سیاسی رہنماوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ ریاستی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے بلوچ اور سندھی طالب علم اپنے جائز مطالبات کے حق میں بھی تعلیمی اداروں میں کسی تقریب کااہتمام نہیں کر سکتے لیکن دوسری طرف ملک بھر میں ریاستی اداروں کی پروردہ مذہبی اور جہادی طلبہ تنظیموں کو متعارف کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی ادارے ضیاالحق کی امریت کی طرز پر آج بھی الشباب، جمعیت طلبہ اسلام اور جماعت الدعوۃ جیسی مخصوص مذہبی جہادی نظریات کی حامل تنظیموں کی سرپرستی کے ذریعے قوم پرست اور ترقی پسند طلبہ کی آواز کو دبا رہے ہیں۔ پاکستانی درس گاہوں میں عمومی سطحی مفروضوں اور سازشی نظریات سے ہٹ کر معقول، تنقیدی، ترقی پسند اور حقیقت پسندانہ شعور مفقود ہونے کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ اختلاف رائے کی بجائے ریاستی بیانیے کی تکرار اور تنقید کی بجائے تقلید کا درس دیا جارہا ہے۔
پاکستانی درس گاہوں میں جہاد کی تبلیغ، عسکریت پسندی کی ستائش اور تکفیریت کی ترویج کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے کسی سرکاری محکمے، کسی خفیہ ادارے اور کسی سیکیورٹی اہلکار سے پوچھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی۔ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی نظر میں بظاہر تعلیمی اداروں میں کالعدم جہادی گروہوں اور فرقہ پرست قدامت پسند مذہبی علماء کی کھلے عام سرگرمیوں کے برعکس ماماقدیر کا طالب علموں سے رابطہ کہیں زیادہ سنگین خطرہ ہے؛ شاید عسکری ادارے ریاستی دہشت گردی اور ریاستی جبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کو قومی جرم سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں دہشت گرد بیانیے کی ترویج پر کسی قسم کی روک ٹوک دکھائی نہیں دیتی لیکن قوم پرست اور جمہوریت پسند سیاسی رہنماوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ ریاستی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے بلوچ اور سندھی طالب علم اپنے جائز مطالبات کے حق میں بھی تعلیمی اداروں میں کسی تقریب کااہتمام نہیں کر سکتے لیکن دوسری طرف ملک بھر میں ریاستی اداروں کی پروردہ مذہبی اور جہادی طلبہ تنظیموں کو متعارف کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی ادارے ضیاالحق کی امریت کی طرز پر آج بھی الشباب، جمعیت طلبہ اسلام اور جماعت الدعوۃ جیسی مخصوص مذہبی جہادی نظریات کی حامل تنظیموں کی سرپرستی کے ذریعے قوم پرست اور ترقی پسند طلبہ کی آواز کو دبا رہے ہیں۔ پاکستانی درس گاہوں میں عمومی سطحی مفروضوں اور سازشی نظریات سے ہٹ کر معقول، تنقیدی، ترقی پسند اور حقیقت پسندانہ شعور مفقود ہونے کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ اختلاف رائے کی بجائے ریاستی بیانیے کی تکرار اور تنقید کی بجائے تقلید کا درس دیا جارہا ہے۔
نظریہ پاکستان، قومی سلامتی، مذہب اور شرم و حیا کے تحفظ کے نام پر پاکستانی درسگاہوں کو تبلیغی مدارس میں تبدیل کرنے سے پاکستان علمی پستی اور فکری تنزلی کے پست ترین مقام کی جانب مائل بہ زوال ہے۔
گزشتہ دودہائیوں کے دوران تعلیمی اداروں میں تبلیغی کلچر بھی تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ ہر فرقے، تنظیم اور جماعت کے مبلغین بلاروک ٹوک پاکستانی جامعات کا رخ کرتے ہیں اور اپنے فرقے کے مطابق تبلیغ کے ذریعے مذہبی شدت پسندی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ پاکستان میں تمام مذاہب کو یکساں آزادی کا حق دینے کی بجائے جہاں ایک طرف اقلیتی فرقوں، احمدیوں اور غیر مسلموں کو تبلیغ کی اجازت نہیں دی جاتی وہیں مولانا طارق جمیل جیسے مبلغین کی آمد اور تبلیغ کے انتظامات سرکاری سطح پر کیے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں تکثیریت کی نفی کرتے ہوئے ریاستی اداروں سے منظور شدہ مذہبی اور جہادی بیانیے کی تبلیغ کا عمل نہ صرف معیار تعلیم پر اثر انداز ہورہا ہے بلکہ علم کی تخلیق اور ترقی کے لیے درکار فکری آزادی، اختلاف رائے اور آزادی اظہار رائے جیسے بنیادی عناصر کی دستیابی میں روکاوٹ بھی بن رہا ہے۔

تعلیمی اداروں میں مدعو کیے جانے والے مقررین اور مہمانان گرامی کا مختصر جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ریاست ، حکومت اور ریاستی ادارے محض اکثریتی اور بااثر طبقات کے مذہب، فرقے اور نقطہ نظر کی ترویج میں مصروف ہیں۔ سرکاری اور نجی اداروں میں ریاست، معاشرے اور اکثریت کے لیے قابل قبول نقاط نظر کے علاوہ کسی اختلافی آواز کی کوئی گنجائش نہیں۔ نظریہ پاکستان، قومی سلامتی، مذہب اور شرم و حیا کے تحفظ کے نام پر پاکستانی درسگاہوں کو تبلیغی مدارس میں تبدیل کرنے سے پاکستان علمی پستی اور فکری تنزلی کے پست ترین مقام کی جانب مائل بہ زوال ہے۔
ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ پاکستانیت، اسلام، نظریہ پاکستان اور سلامتی کی کوئی ایک تعریف سب کے لیے درست اور کوئی ایک نقطہ نظر سب کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ تعلیمی اداروں کا فریضہ کسی ایک فرقے اور جہاد کے مبلغین کی سرپرستی کرنا نہیں بلکہ تمام مکاتب فکر، سماجی پس منظر اور رحجانات کے حامل طبقات کو باہم تبادلہ خیال کے لیے آزادانہ ماحول فراہم کرنا ہے۔

تعلیمی اداروں میں مدعو کیے جانے والے مقررین اور مہمانان گرامی کا مختصر جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ریاست ، حکومت اور ریاستی ادارے محض اکثریتی اور بااثر طبقات کے مذہب، فرقے اور نقطہ نظر کی ترویج میں مصروف ہیں۔ سرکاری اور نجی اداروں میں ریاست، معاشرے اور اکثریت کے لیے قابل قبول نقاط نظر کے علاوہ کسی اختلافی آواز کی کوئی گنجائش نہیں۔ نظریہ پاکستان، قومی سلامتی، مذہب اور شرم و حیا کے تحفظ کے نام پر پاکستانی درسگاہوں کو تبلیغی مدارس میں تبدیل کرنے سے پاکستان علمی پستی اور فکری تنزلی کے پست ترین مقام کی جانب مائل بہ زوال ہے۔
ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ پاکستانیت، اسلام، نظریہ پاکستان اور سلامتی کی کوئی ایک تعریف سب کے لیے درست اور کوئی ایک نقطہ نظر سب کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ تعلیمی اداروں کا فریضہ کسی ایک فرقے اور جہاد کے مبلغین کی سرپرستی کرنا نہیں بلکہ تمام مکاتب فکر، سماجی پس منظر اور رحجانات کے حامل طبقات کو باہم تبادلہ خیال کے لیے آزادانہ ماحول فراہم کرنا ہے۔
Leave a Reply