Laaltain

ماما قدیر لاہور میں؛ نی سسیے جاگدی رہئیں

15 فروری، 2014
Picture of اسد فاطمی

اسد فاطمی

اسد فاطمی

mama-header4

زندہ دلوں کے شہر لاہور میں داخل ہونے سے پہلے، چلتن کے ویرانوں سے چل کر آئے ماما قدیر کو اتنا اندازہ تو ہونا ہی چاہیے تھا کہ بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی خبریں اتنی آسانی سے ذرائع پر بار نہیں پاتیں۔ ہم نے بھی کانوں کان سنا تھا اور اسے اہم خبر سمجھ کر خبریابی کو نکلے تھے۔ بڑی خبر ہوا کے تھپیڑوں پر بیٹھی خود آ کر کان ٹکورتی ہے، سو ہم اطمینان سے کان میں قلم اڑس کر علی الصبح نکلے تھے، لیکن دن بھر شہر میں جوتے چٹخاتے، فون گھماتے اور موٹر سائیکل پھٹپھٹاتے رہے، اور خبر تک نہیں ہوئی۔
ماما قدیر، بلوچستان سے غائب ہونے والے آٹھ ہزار لاپتہ شہریوں کا مقدمہ لے کر، چند دوسرے لاپتہ لوگوں کے کچھ بچے کھچے اقارب کے ساتھ 27 اکتوبر کو کوئٹہ سے پیدل چلے تھے، مارچ کے کوئی ایک سو نویں دن پنجاب کے دارالخلافے میں ان کی آمد کی شنید ہوئی ہے، پیروں کے خون رساتے آبلوں کا خیال نہ سہی، کم از کم تخت لاہور کے شایان تعظیم کا تقاضا یہی تھا کہ یہاں دبے پاؤں قدم دھرا جائے۔ ان آبلہ پاؤں کے تلووں کے آگے، ایک نمک پاشی جو میر چاکر اعظم کے مدفن، ضلع اوکاڑہ میں ہوئی تھی، پنجاب کے اس پہلے اہم استقبال کو محض ایک جان لیوا حادثہ کہا جا سکتا ہے، لیکن صوبائی دارالخلافے کے باخبر حلقوں نے ماما کی جھوٹی سچی ڈھارس بندھانے کی بجائے جس طرح سینہ زور بے اعتنائی سے کام لیا ہے، وہ پاکستان سے ناامید بلوچوں کی پیٹھ پر ایک نیا تازیانہ ہے۔
جمعرات کی شب تک زبانی ذریعوں سے ماما کی آمد کی جو معلومات مل پائی تھیں، ان کی بنیاد پر مجھے رپورٹنگ کے لیے صبح دس بجے پریس کلب لاہور پہنچنے کی ہدایت ہوئی، اور میں اپنے تئیں بروقت ہی پہنچا۔ کچھ دیر میں وہاں اہم نجی ٹی وی چینلوں کے سیٹلائٹ ٹرکوں کا تانتا بندھنا شروع ہوا تو بارے امید بندھی، لیکن انتظار کے طول میں پریس کلب کے اندر جا کر پوچھ تاچھ کر لی۔ اندر باہر موجود صحافیوں اور کلب عملے کےمکمل طور پر مجہول ردعمل پا کر ماما قدیر کی آمد کی خبر پر بالکل افوا کا گمان ہو رہا تھا۔ اب باہر قطار میں کھڑے بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کے سیٹلائٹ ٹرکوں میں جھانک جھانک کر پوچھنا شروع کیا تو کم و بیش سبھی سے یہی جواب ملا کہ انہیں اس طرح کی کوئی خبر “اسائن” نہیں کی گئی۔ ہمارے ایک ساتھی ٹی وی کے اہم چینلوں کا برابر پہرہ دینے کے بعد کئی گھنٹوں تک ہمیں یہی بتا پائے تھے کہ ٹی وی پر اب تک اس بابت کوئی ٹیکر، خبر یا اطلاع دیکھنے میں نہیں آئی۔ گیارہ بجے تک پورے پریس کلب کے پیش منظر پر نوگزی شلواروں میں ملبوس دو بلوچ نوجوانوں کے علاوہ اور کوئی نشان دکھنے میں نہیں آیا، جو بار بار فون ملاتے اور منتظر اور متجسس چہروں کے ساتھ بلوچی زبان میں پوچھ تاچھ کرتے نظر آ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ گورنر ہاؤس کے سامنے رکا ہوا ہے اور کچھ وقت میں پریس کلب پہنچے گا۔ تاہم گورنر ہاؤس پہنچ کر یہاں کچھ خلاف معمول نظر نہیں آیا۔ گورنر ہاؤس کے باوردی دربان بھی موزوں معلومات دینے سے قاصر رہے، کہیں سے پیغام ملا کہ مال روڈ، نہر کنارے جائیے، پھر پنجاب اسمبلی کے آگے، چیئرنگ کراس، خبر ملی شاید دیال سنگھ مینشن، نہیں، انسانی حقوق کمیشن کے دفتر پہونچیے، پھر اچانک ایک طرف سے نعرہ بلند ہوا کہ ٹھوکر نیاز بیگ!! ناصر باغ سے نہر کے پل تک مال روڈ کے متعدد پھیروں کے دوران، چیئرنگ کراس چوک پر میری ایک اور نوجوان سے ملاقات ہوئی جو طویل کھوج اور انتظار کے بعد مارچ میں شامل ہوئے بغیر واپس جارہا تھا۔۔۔ لاہور جیسے بے ہنگم پھیلے ہوئے شہر میں کسی خاص موقع پر نہ پہنچ پانے کو رابطوں اور نظم و ضبط یا وقت کے اندازے کی ناکامی قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن جہاں بلوچوں کے متبادل ذرائع ابلاغ کو حکومت نے ملک میں ہر ممکن حد تک مسدود کر رکھا ہو، قومی ذرائع ابلاغ کے مشمولات میں بلوچ مسئلہ ایک ممنوعہ پھل قرار پا چکا ہو، وہاں بلوچ موقف کی حامی سول سوسائٹی اور بچے کھچے ترقی پسند حلقے، جنہیں اب کے ماما قدیر کی لاہور میں میزبانی کا دعوی تھا، کے ہاں سے لانگ مارچ کی پذیرائی کے لیے ایک آگاہ، وسیع اور مربوط مہم کا کوئی عملی وجود دیکھنے میں نہیں آیا، نتیجۃ بلوچ لاپتہ افراد کے خاندان، اپنے لانگ مارچ میں اہل لاہور کی عوامی شمولیت سے مایوس نظر آئے ہیں اور اپنے شکریہ آمیز بیانوں میں بھی اپنے دل کا بھاری پن نہیں چھپا سکے۔
ماما جی! یہاں پنجاب کی سیاست کا مزاج الگ ہے۔ لانگ مارچ ایسے ہی بڑا اور تاریخی مارچ تھوڑی بن جاتا ہے؟!۔ لاپتہ اور مارے جانے والوں کی یادوں کے فریم ایک چھکڑے پرسجائے، کوئٹے سے کراچی، کراچی سے لاہور، پیدل چلتے، ویرانوں میں بیٹھ سستالینا اور حملوں حادثوں سے سے بچتے بچاتے، بھرے شہروں سے چپ چپیتے گزرتے جانا، یہ ہمارے ہاں لانگ مارچ نہیں ہوتا۔ لانگ مارچ، پراڈو کی قطاروں اور بلٹ پروف کنٹینروں سے بنتا ہے، نعروں، دھمکیوں اور چنگھاڑوں سے سجتا ہے۔ پارٹی اخراجات سے وقف شدہ سیکڑوں بسوں اور فری ٹرانسپورٹ کی فراہمی سے بنتا ہے، تاکہ مضافات کی اکتائی ہوئی “فیملیز” مفتا مفتی لاہور اور اسلام آباد کی بتیوں، مینار پاکستان اور شکر پڑیاں کی سیر اور “کاز کی خدمت” ایک ساتھ کر سکیں، یہاں تصویروں اور گم ہوئے پیاروں کی یادوں کے ٹھیلے کی طرف کوئی مڑ کر دیکھنے والا شاید ہی ملے۔ بڑے لانگ مارچوں میں بسکٹ مرونڈے کے چھابڑی ٹھیلے ساتھ چلا کرتے ہیں تاکہ شہر سے گزرنے والا کوئی بھی راہگیر دیکھتے ہی اندازہ لگا لے کہ شہر سے کوئی “بڑا کاروان” گزرا ہے، اور کارپوریشن والے بعد میں ہفتہ بھر تک بسکٹوں کے شاپروں اور قلفیوں کی تیلیوں کی “بُہاریاں” کر کر کے “گرد کارواں” کو سڑکوں میدانوں سے جھاڑتے رہیں۔ بڑے لانگ مارچوں میں آنکھیں چندھیاتے کیمرے، بھنبھناتے سیٹلائیٹ ٹرک ہوتے ہیں، “حسینیت بمقابلہ یزیدیت” کے خطیبانہ ششکے ہوتے ہیں، ماؤ زے تنگ کے لانگ مارچ کی پھوکٹ مثالیں ہوتی ہیں۔
ماما قدیر کے مارچ کے لاہور سے گزرنے کے تاریخی لمحے کو ملکی اردو میڈیا نے اگرچہ نہایت ناکافی جگہ اور وقت دیا ہے، تاہم بین الاقوامی ذرائع پر موزوں جگہ ملنے سے شاید کسی ایک پہلو کی تلافی ممکن ہو۔ لاپتہ افراد کے لیے مارچ کا معاملہ محض اتنا نہیں ہے کہ مارچ میں شریک دس سالہ حیدر علی اور اس کی دونوں بہنوں کے سر پر باپ کا سایہ لوٹانے، فرزانہ مجید کو اس کا بھائی ملانے، سمی بلوچ کے باپ کی بازیابی یا ماما قدیر کے مر چکے بیٹے کے جذباتی ذکر سے پنجابیوں کے لیے “جوش” کا پہلو نکالا جائے، جبکہ قومی دھارے میں بلوچستان کے لاپتہ افراد، اجتماعی قبروں کی دریافت سمیت کسی معاملے پر “ہوش” کی بات کی توفیق بھی اب تک کسی کو نہیں ہوئی۔ ہم سے چار دہائیاں پیچھے کی پیڑھیوں کو وہ دن ابھی اچھے سے یاد ہو گا جب وہ ریڈیو پاکستان پر کشمیر میں کئی میل تک فتحمندانہ پیش قدمی اور بھارت کے پچاس بھر لڑاکے مار گرانے کی بدھائیاں وصول کر رہے تھے، عین اسی وقت ریڈیو کا کان مروڑ کر بی بی سی ٹیون کیا گیا تو خبر ملی کہ ہماری مشرقی کمان ڈھاکہ پلٹن گراؤنڈ میں بنگالی صوبے سے دستبرداری کے پروانے پر دستخط کر رہی ہے۔ بلوچستان تیزی سے بدل رہا ہے لیکن اس کے پہاڑوں سے پھوٹنے والی ہر اہم خبر پتھروں کے بیچ گونجتی، سر پٹختی معدوم ہو جاتی ہے، یا لاپتہ کر دی جاتی ہے۔ چار دہائیاں پیچھے کی ہزیمت کو ہم نے لاڑکانے کے کھاتے میں ڈال کر نئی نسل کے آگے بڑی صفائی سے ہاتھ جھاڑ لیے ہیں، لیکن اب کے کوئی بھی ان چاہی خبر آن پڑی تو شاید بودے سے بودا جواز بھی ہم سے نہ بن پڑے۔
ماما قدیر ایک خاموش طوفان کی طرح آیا، جو شہر کے بیچوں بیچ سے گزر گیا ہے لیکن شہر کو کانوں کان خبرنہیں ہوئی۔ روہی تھل میں چرواہوں کی بولیاں اب بھی یہ پرانا سبق ڈوہڑوں، لوریوں میں تازہ کرتی ہیں کہ بلوچ ظالم پلٹ کر دیکھنے والوں میں سے نہیں ہیں، اب کے پھر خان بلوچ تخت لہور کی سسی کو اپنے خیمے میں سوتی چھوڑ کر پالانیں دھرے، اپنے راستے پر مہاریں ڈال چکا ہے۔ ماما قدیر اس وقت چٹیل راوی کو ہاکڑے کی طرح خشک ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوا، پل سے گزر کر شاہدرہ سے آگے نکل گیا ہے۔ اگلا پڑاؤ گوجرانوالہ ہے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *