مترجم: ظاہر کریم
یہ وہ وقت نہیں کہ جب ماضی کی مایوسیوں اور غلطیوں کو مستقبل پر حاوی ہونے دیا جائے۔ آج آگے بڑھنے کے لیے موزوں لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اس سوال کا جواب کہ بلوچ کون ہیں؟ ان کے تاریخی پس منظر اور ورثے کے حوالے سے دینے کی بحث بے کار ہے۔ برطانوی راج سے آج تک اس خطے میں سب سے زیادہ قہر بلوچوں پر ہی ڈھائے گئے ہیں۔ نوآبادیاتی دور کے یہ مصائب ان پر برطانوی کالونی کے طور پر بھی روا رکھے گئے اور بعد ازاں پاکستان کے زیرتسلط آنے کے بعد بھی یہی نوآبادیاتی نظم برقرار رہا۔ کون اس کا ذمہ دارہے اور کسے قصوروار ٹھہرایا جائے یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت بلوچستان میں کوئی نظم و نسق اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کوئی بنیادی ڈھانچہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا، اور کم و بیش یہی صورت حال آج بھی ہے۔
انگریز دور سے ہی بلوچوں کو ترقی کے عمل سے محروم رکھا گیا ہے، ترقی سے محرومی کا یہ عمل صدیوں پر محیط ہے۔ نتیجتاً قیامِ پاکستان کے وقت بلوچستان میں کوئی نظم و نسق اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کوئی بنیادی ڈھانچہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا، اور کم و بیش یہی صورت حال آج بھی ہے۔ یونیورسٹیاں تو دور کی بات کوئی تعلیمی ادارہ موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ عوام کی شرح خواندگی (اس وقت) نہایت غیر تسلی بخش تھی۔ انگریزوں کے زمانے میں فوج اور افسر شاہی میں بلوچوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اسی پس منظر میں بلوچستان پاکستان کا حصہ بنا۔ ان حالات میں پاکستان میں شمولیت کے بعد پیش آنے والے مصائب اس وقت کی صورت حال کا فطری اور لازمی نتیجہ ہیں۔
گزشتہ 68سالوں میں بلوچوں کے لئے کچھ نہیں بدلا، کیونکہ وہ خود کو پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کے ساتھ مربوط نہیں کر سکے۔ ایک بار پھر یہ جاننا ضروری ہے کہ اس بارے میں بھی یہ بحث بے سود ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ وقت جو کچھ ہوا اس پہ رونے کا وقت نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ یہ وقت نہیں کہ ماضی کی کوتاہیوں کو مستقبل کا تعین کرنے کا موقع دیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غلطیوں کا اعتراف کرکے وہ حاصل کیا جائے جو اب تک حاصل نہیں کیا جا سکا۔
بلوچستان میں رہنے والے بلوچوں سے متعلق مستند اعدادوشمار دستیاب نہیں۔ بہرطور بلوچوں کی تعداد رقبے کے اعتبار سے کم ہے۔ مبینہ طور پر بلوچ ایک جانب افغان مہاجرین کی وجہ سے اور دوسری طرف پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کے بعد آباد کاروں کی آمد سے پیدا ہونے والی آبادیاتی تبدیلی کے ہاتھوں سیاسی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بلوچوں کو ، ابھی یا کبھی نہیں کی صورتحال کا سامنا ہے، اور اپنی بقاء کے لئے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہے۔
ایک جانب بلوچ افغان مہاجرین کی وجہ سے اور دوسری طرف پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کے بعد آباد کاروں کی آمد سے پیدا ہونے والی آبادیاتی تبدیلی کے ہاتھوں سیاسی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ بلوچ اب عملیت پسند اور حقیقت پسند طرز فکر اور طرز عمل اختیار کریں۔ موجودہ صورت حال کے تناظر میں اس عملیت پسندی کی تعریف کئی طرح سے کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے شدید اختلاف رائے پیدا ہونے کا بھی امکان ہے، لیکن اس کے سوا کوئی اور معقول راستہ (چارہ) نہیں۔ یہاں عملیت پسند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں حقیقت اور تبدیلی کو مانتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیئے۔ انہیں ملک کی موجودہ انتظامی اور وفاقی ڈھانچے میں رہتے ہوئے اپنی تعلیمی قابلیت اور سیاسی شعور میں اضافہ کرنا ہو گا تاکہ وہ اپنے سیاسی حقوق کا تحفظ یقینی بنا سکیں۔
اس بحث میں ایک اور اہم پہلو موجودہ بلوچ جدوجہد کے اہداف کی نوعیت کا تعین ہے۔ موجودہ صورت حال میں ناقابل حصول اہداف کا تعاقب نہ صرف جدوجہد کرنے والے افراد بلکہ پوری قوم کے نقصان کا باعث ہو گا۔ اس لئے دانائی اسی میں ہے کہ ایسی ناقابل حصول منزل کا راستہ چھوڑ کر اور ان حقوق کے لئے جدوجہد کی جائے جن کا حصول عملاً ممکن ہے۔ بلوچ جدوجہد اگر اپنا نظریاتی قبلہ تبدیل کر لے تو اسلام آباد کے لیے بلوچوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔
علاوہ ازیں، گزشتہ ایک دہائی یا اس سے زائد عرصے کے دوران بلوچ نوجوانوں نے جن وجوہ کی بناء پر شدت پسند قوم پرستی اختیار کی وہ اپنی جگہ درست نہیں۔ ان وجوہ پر بحث کی جا سکتی ہے جن کی بناء پر بلوچ نوجوان یہ رویہ اپنانے پر مجبور ہوئے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ انتہا پسندانہ طرز عمل ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ بہت سے قیمتی انسان جو اس معاشرے کے لیے سودمند ثابت ہو سکتے تھے اسی انتہا پسندی کے نتیجے میں مارے گئے۔
دانائی اسی میں ہے کہ ایسی ناقابل حصول منزل کا راستہ چھوڑ کر اور ان حقوق کے لئے جدوجہد کی جائے جن کا حصول عملاً ممکن ہے۔
ماضی کے غلطیوں سے سیکھ کرانہیں آئندہ دہرانے سے بچنے کا یہ ایک شاندار موقع ہے۔ یہ وقت کمزوریوں کو طاقت میں بدلنے اور اس قوت کو پورے معاشرے کی خوشحالی کے لیے بروئے کار لانے کا ہے۔ بلوچ گزشتہ سات دہائیوں سے مصیبت زدہ ہیں اور ابھی تک پسماندہ ہیں۔ لیکن ان مصائب کے ہاتھوں وہ معاشی و سماجی اعتبار سے بہت باشعور ہو چکے ہیں اور اس شعور کو وہ اپنی طاقت بنا سکتے ہیں۔ وہ اس طاقت کے ذریعے ماضی میں روا رکھے جانے والے ظلم اور زیادتی سے آنے والے وقتوں میں خود کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
قدرت نے انہیں بے پناہ وسائل اور جغرافیائی طور پر اہم زمین سے نوازا ہے۔ بلوچستان کے جغرافیے کی سیاسی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بلوچستان مسخر و غیر مسخر معدنی وسائل کے خزانوں سے مالا مال ہے، جو اسے دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک بناتا ہے۔ اگر بلوچ اپنے حقوق کے حصول کے لئے صحیح راستہ اختیار کریں تو کوئی بھی انہیں قدرت کے ان عطیات سے محروم نہیں کر سکتا۔
بلوچوں کی جانب سے اپنی جدوجہد کے لیے صحیح سمت اختیار کرنے کے بعد دیگر تصفیہ طلب امور کا حل دشوار نہیں ہو گا۔ اس کے بعد عام بلوچ کے استحصال پر پلنے والی بلوچ اشرافیہ کے قبائلی ظلم و ستم اور معاشی بدعنوانی سے نجات زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔
حقیقت پسندی کے برعکس اگر مثالیت پسند بلوچ فکر اختیار کی گئی تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ اس صورت میں بلوچوں کو ایک طرف جغرافیائی تبدیلی اور مذہبی انتہا پسندی جیسے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا تو دوسری طرف بلوچ اشرافیہ عام بلوچوں کے استحصال سے اپنی جیبیں بھرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
One Response
Good article