"Pakistan ethnic map” by ArnoldPlaton, .svg based on this map (from UTexas under Public Domain "Courtesy of the University of Texas Libraries, The University of Texas at Austin.”) – Own work. Licensed under Public domain via Wikimedia Commons.
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”fa-exchange” style=”3″]
ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے رکن پارلیمان ماروی میمن کی اس قرارداد پر بحث کرنے سے انکار دیا ہے جس میں پاکستان کی علاقائی زبانوں کو سرکاری طور پر قومی زبانیں تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بھی مختلف بنیادی نوعیت کی بہتریوں کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اٹھائی جانے والی کئی تدبیریں، کسی ایک آدھ رکن پارلیمان کی انفرادی کاوش سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ حالیہ اقدام بحیثیت ادارہ، ہماری پارلیمان کے سیاسی تدبر اور قومی مسائل میں سنجیدگی کی سطح کا آئینہ دار ہے بھی ہے اور اس بات کا غماز بھی ہے کہ ریاستی ادارے اپنے تاریخی تجربوں سے سبق سیکھنے پر بالکل بھی آمادہ نہیں ہیں۔
پاکستان کے لسانی سیاسی حلقوں میں 6 فیصد شہریوں کی زبان، اردو کو اکیلی سرکاری زبان رکھنے کے حامی اس وقت ہو بہو وہی دلائل پیش کر رہے ہیں جو کوئی دو صدی قبل برطانوی نوآبادکاروں کے عہد میں پنجاب کی تعلیمی اور سرکاری زبان کے تعین کی بحثوں میں پیش کیے تھے۔
اٹھارہویں ترمیم میں بہت سے بنیادی اختیارات کی صوبوں کی طرف تنزیل کے بعد قومی اسمبلی کی طرف سے ایسے اقدام کو صریحاً آئینی وعدہ خلافی سمجھا جانا چاہیے۔ ایسے میں یوں لگ رہا ہے کہ قائد اعظم کی مختلف مواقع پر اردو کو قومی زبان بنانے کی تجویز، ملک کے عبوری دور کا ایک سمجھوتہ اور قومی تاریخ کا حصہ سمجھے جانے کی بجائے، الہامی حکم کا درجہ پانے جا رہی ہے۔ جبکہ زیر بحث مطالبے میں اردو سے قومی زبان کا درجہ چھیننے کی تجویز بھی شامل نہیں ہے۔ آزادی کے بعد اب جبکہ پاکستانیوں کی پانچ چھ نسلیں جوان ہو چکی ہیں اور چاروں صوبوں کے مقامی لوگ قومی دھارے کا حصہ بن چکے ہیں، اور اپنی اپنی زبانوں میں روزمرہ اور پیشہ ورانہ امور میں مقامی زبانوں کا استعمال غیر سرکاری طور پر پہلے سے ہی کر رہے ہیں۔ لیکن دفتری امور میں مادری زبان میں ابلاغ کی سرکاری طور پر بجائے حوصلہ افزائی کے، ہمیشہ حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
ادھر پڑوسی ملک بھارت میں 22 زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے جبکہ دوسرے پڑوسی افغانستان میں پشتو اور فارسی کو سرکاری قومی شناخت میں برابر کا حصہ دیا گیا ہے۔ پاکستان کے لسانی سیاسی حلقوں میں 6 فیصد شہریوں کی زبان، اردو کو اکیلی سرکاری زبان رکھنے کے حامی اس وقت ہو بہو وہی دلائل پیش کر رہے ہیں جو کوئی دو صدی قبل برطانوی نوآبادکاروں کے عہد میں پنجاب کی تعلیمی اور سرکاری زبان کے تعین کی بحثوں میں پیش کیے تھے۔ مقام افسوس ہے کہ ایک آزاد ملک کی آزاد پارلیمنٹ ابھی تک اسی نوآبادیاتی رنگ ڈھنگ سے چل رہی ہے، جس میں ‘حکمرانی’ حلیے کے ارکان کے لیے چائے بیڑی ڈھونے والے خدمتگاروں کے سر پر ثقافتی شکوہ کی علامت طرے دار پگڑیاں ابھی تک دھری ہوئی ہیں، اور ثقافتی طور پر خادم اور مخدوم کے رشتے اسی نوآبادیاتی علامتی نظام کے تحت اپنا کام کر رہے ہیں۔ پنجاب اس معاملے میں ایک تشویشناک مثال ہے جہاں صوبائی اسمبلی کے رکن فضل راہی کو محض اس بات پر اسپیکر نے اسمبلی سے بے دخل کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنی تقریر پنجابی میں کرنے کی جسارت فرمائی تھی۔
اگرچہ علاقائی زبانوں کو علمی، سیاسی اور پیشہ ورانہ ابلاغ کی زبانیں بنانے کی سبھی کوششیں اب تک صرف انفرادی یا معمولی ادارہ جاتی سطحوں پر ہوئی ہیں، لیکن ان سبھی ادبی یا لسانیاتی کوششوں کی روشنی میں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہماری مقامی زبانوں میں ایک جدید قوم کی زبانیں بننے کی پوری استعداد ہے۔ دوسری طرف اعلی سطحی اور وفاقی سطح پر اردو کے نفاذ کا نصف صدی پر محیط تجربہ کسی بھی طور پر انگریزی کے غیر ضروری استعمال کو پچھاڑنے میں ناکام نظر آیا ہے۔ دفتری دستور العمل اور علمی کاموں کے لیے وضع کی گئی اردو لغات اور اصطلاحاتی نظام ابھی تک لائبریریوں سے نکل کر قومی زندگی کا حصہ نہیں بن سکے۔
ادھر پڑوسی ملک بھارت میں 22 زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے جبکہ دوسرے پڑوسی افغانستان میں پشتو اور فارسی کو سرکاری قومی شناخت میں برابر کا حصہ دیا گیا ہے۔ پاکستان کے لسانی سیاسی حلقوں میں 6 فیصد شہریوں کی زبان، اردو کو اکیلی سرکاری زبان رکھنے کے حامی اس وقت ہو بہو وہی دلائل پیش کر رہے ہیں جو کوئی دو صدی قبل برطانوی نوآبادکاروں کے عہد میں پنجاب کی تعلیمی اور سرکاری زبان کے تعین کی بحثوں میں پیش کیے تھے۔ مقام افسوس ہے کہ ایک آزاد ملک کی آزاد پارلیمنٹ ابھی تک اسی نوآبادیاتی رنگ ڈھنگ سے چل رہی ہے، جس میں ‘حکمرانی’ حلیے کے ارکان کے لیے چائے بیڑی ڈھونے والے خدمتگاروں کے سر پر ثقافتی شکوہ کی علامت طرے دار پگڑیاں ابھی تک دھری ہوئی ہیں، اور ثقافتی طور پر خادم اور مخدوم کے رشتے اسی نوآبادیاتی علامتی نظام کے تحت اپنا کام کر رہے ہیں۔ پنجاب اس معاملے میں ایک تشویشناک مثال ہے جہاں صوبائی اسمبلی کے رکن فضل راہی کو محض اس بات پر اسپیکر نے اسمبلی سے بے دخل کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنی تقریر پنجابی میں کرنے کی جسارت فرمائی تھی۔
اگرچہ علاقائی زبانوں کو علمی، سیاسی اور پیشہ ورانہ ابلاغ کی زبانیں بنانے کی سبھی کوششیں اب تک صرف انفرادی یا معمولی ادارہ جاتی سطحوں پر ہوئی ہیں، لیکن ان سبھی ادبی یا لسانیاتی کوششوں کی روشنی میں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہماری مقامی زبانوں میں ایک جدید قوم کی زبانیں بننے کی پوری استعداد ہے۔ دوسری طرف اعلی سطحی اور وفاقی سطح پر اردو کے نفاذ کا نصف صدی پر محیط تجربہ کسی بھی طور پر انگریزی کے غیر ضروری استعمال کو پچھاڑنے میں ناکام نظر آیا ہے۔ دفتری دستور العمل اور علمی کاموں کے لیے وضع کی گئی اردو لغات اور اصطلاحاتی نظام ابھی تک لائبریریوں سے نکل کر قومی زندگی کا حصہ نہیں بن سکے۔
سبھی پاکستانی لوگوں کی مادری شناخت کو تسلیم کرنا سیاسی و انتظامی مصلحت کا تقاضا بھی ہے اور وقت کی آواز بھی۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد ناراض اور غیر ناراض صوبے، سبھی اس قابل ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ اپنے دیرینہ مطالبات اور مفادات حاصل کرنے کے لیے اپنے پارلیمانی نمائندوں پر جمہوری دباؤ ڈال سکیں۔ لیکن یہ نہایت بنیادی حقوق پانے کے لیے بھی عوامی سطح پر کسی قسم کی لہر مرکزی سیاسی دھارے میں نظر نہیں آ رہی۔ اب، جبکہ جمہوری ادارے اپنی اپنی پٹڑیوں پر جیسے تیسے پڑ چکے ہیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ "کیا ہم آزاد ہیں” کے سالانہ مذاکروں کی سمت اور زاویے درست کریں۔ پاکستانی اپنے روزمرہ اور قومی سطح کے ابلاغ اور ثقافتی پہچان وضع کرنے میں زندہ اور ترقی یافتہ اقوام عالم سے سبق سیکھیں اور سن 71ء جیسے سانحوں کے لسانی محرکات پر غور و فکر کریں۔ ایسے میں سبھی پاکستانی لوگوں کی مادری شناخت کو تسلیم کرنا سیاسی و انتظامی مصلحت کا تقاضا بھی ہے اور وقت کی آواز بھی۔ کیونکہ اس کے بعد ہم نے اقوام متحدہ کے مطابق آئندہ چند سالوں میں معدوم ہو جانے والی ڈھائی ہزار زبانوں میں سے ستائیس پاکستانی زبانوں کو بچانے کے لیے بھی کچھ کرنا ہے، لیکن شرط ہے کہ ایسی نیک شگون خبروں کے کچھ آثار بھی تو نظر آئیں۔
پاکستان وچ اردو میڈیم تے سندھی میڈیم سکول ہن پئے، سرائیکی میڈیم سکول وی بݨائے ونڄن۔ پشتو تے سندھی آپشنل لازمی مضمون ہن، سرائیکی کوں وی لازمی آپشنل کیتا ونڄے۔ نادرا انگریزی، اردو تے سندھی وچ شناختی کارڈ جاری کریندے، سرائیکی وچ وی شناختی کارڈ جاری کیتا ونڄے۔ ہر سرکاری تے نجی چینل تے اردو، بلوچی، پشتو، پنجابی،سرائیکی تے سندھی کوں برابر برابر ویلا ݙتا ونڄے۔