Laaltain

مائے نی میں کنوں آکھاں

12 فروری، 2013

(Translation of ‘Misery: To Whom shall I tell my Grief’)

(انطون چیخوف)

شام کا جھٹپٹا پھیل رہا تھا۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گالے سڑک کنارے لگے کھمبوں کے گرد چکر کھا کھا کر نیچے گر رہے تھے اور گھروں کی چھتوں، گھوڑوں کی پیٹھوں، لوگوں کے شانوں، ٹوپیوں اور پگڑیوں پر برف کی سفید تہہ جماتے جاتے تھے۔ اس بار مری میں ہمیشہ سے ذیادہ برفباری ہوئی۔ بوڑھا گامو کوچوان کسی بھوت کی طرح سر تا پا سفید ہو چکا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے یکے پر اس قدر دوہرا ہو کر بے حس و حرکت بیٹھا تھا کہ اس سے زیادہ خود کو دوہرا کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ اس پر برف کی تہہ چڑھتی جا رہی تھی مگر وہ اس سے لاتعلق نظر آتا تھا۔ اس کی چھوٹی سی گھوڑی بھی برف پڑنے سے سفید نظر آ رہی تھی اور کسی سوچ میں ڈوبییوں ساکت و جامد کھڑی تھی گویا گھوڑے کا مومی کھلونا ہو۔ شایدر دوڑتے بھاگتے لوگوں سے بھرے شہراور شوروغل کے درمیان اُسے گاؤں کے کھیتوں کی دلفریب پگڈنڈیاں بہت یاد آ رہی تھیں۔

گامو کوچوان اپنے اڈے سے کافی دیر کا نکلا ہوا تھا اور ابھی تک اسے کوئی سواری نہیں ملی تھی اور اب تو شام ہو رہی تھی۔ سڑکوں کے کنارے روشنی کے کھمبوں پر بجلی کے قمقمے روشن ہو رہے تھے۔

“یکے والا ڈاک بنگلہ جانا مانگٹا؟” بوڑھے گامو نے اچانک کسی کو پکارتے سنا۔ اس نے برف سے ڈھکی پلکوں کو دھیرے سے اٹھا کر دیکھا، ایک گورا صاحب فوجی وردی میں ملبوس سر پر ہیٹ پہنے کھڑا تھا۔ “ٹم سوٹا ہے کیا؟ ڈاک بنگلہ جائے گا؟”۔ گورے فوجی نے ڈانٹنے کے انداز سے بات دہرائی۔ گامو نے اپنا سکون اور سکوت توڑ کر گھوڑی کی لگام کھینچی اور برف کی قاشیں گھوڑی کے بدن سے پھسل کر نیچے جا گریں۔ گورا صاحب یکے پر سوار ہو گیا۔ گامو نے بگلے کی طرح گردن اٹھائی، سیدھا ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھا اور چابک گھمایا۔ گھوڑی نے بھی گردن اٹھائی اور بے دلی سے چلنا شروع کر دیا۔ “کہاں مر رہے ہو خبیث! اپنی راہ چلو!”۔ سڑک پر پیدل چلنے والا کوئی راہ گیر چلایا۔ ساتھ ہی صاحب بہادر بولا: “کہاں مرٹا؟ بائیں جانیب چلو ٹم!”۔ گامو نے خاموشی سے گھوڑی کی باگیں کھینچیں، اسی اثنا میں پہلو سے کسی اور تانگے والے نے گالیاں بکنا شروع کر دیں اور پھر کوئی دوسرا راہ گیر بڑبڑایا، جس کی قمیض سے گھوڑی کی ناک چھو گئی تھی۔ گامو اپنی نشست پر بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ “یہ الو کا پٹا ٹم سے مقابلہ کرٹا دیکھو۔۔”۔ گورے صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ لیکن گاموں کے دل و دماغ میں کوئی اور بات گردش کر رہی تھی۔ وہ اپنے گرد و نواح سے لاپروا تھا۔ اس نے چہرہ گھما کر ایک نظر پیچھے بیٹھے انگریز فوجی افسر کو دیکھا، کچھ کہنے کے لیے ہونٹ ہلائے لیکن کوئی بات تھی جو اس کی زبان پر آ کر پلٹ گئی۔ “ٹم کچھ کہنا مانگٹا؟”۔ صاحب بہادر نے بھنویں سکیڑ کر گامو سے سوال کر دیا۔ گامو کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ کر غائب ہو گئی۔ اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بمشکل کہا: “صاحب جی۔۔۔ وہ اسی ہفتے میرا۔۔۔ بیٹا۔۔۔ مر گیا ہے جی!”۔ “ہوں۔۔ کیسے مرا؟” انگریز نے سنجیدگی سے پوچھا۔ گامو پیچھے کو مڑا اور انگریز کو بتانے لگا: “اللہ کو پتہ جی، کیا ہوا! بخار تھا، پھر تین دن ڈاکٹر اللہ بخش صاحب کے ہاں رکا پڑا رہا، پھر مر گیا، جو مرضی اوپر والے کی”۔ “پیچھے ہٹو، مردود!” اندھیرے سے پھر ایک آواز آئی، “پاگل ہو گئے ہو باؤلے بڈھے؟ دیکھ کے چلو!”۔ نجانے پھر یکہ کس پر چڑھ دوڑا تھا۔ “راہ دیکھ کر چلو بابا، جلدی کرو، ہم کو دیر ہو جائے گی”۔ انگریز فوجی نے ہولے سے کہا اور اپنی نشست پر نیم دراز ہو گیا۔ گامو پھر سے سیدھا ہو بیٹھا، چابک گھمایا اور یکہ چلانے لگا۔ کئی بار اس نے مڑ کر دیکھا اور چاہا کہ گورے صاحب سے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جڑ جائے جہاں سے کٹ گیا تھا لیکن صاحب بہادر آنکھیں میچے سیٹ پر نیم دراز پڑا تھا۔ گورے صاحب کو ڈاک بنگلے اتار کر گامو نے یکہ ایک سستے سے ہوٹل کے سامنے جا کر کھڑا کیا اور ایک بار پھر یکے پر اسی طرح بے حس و حرکت بیٹھ گیا۔ اور برف نے اسے اور اس کی گھوڑی کو ایک بار پھر مومی مجسمہ بنا دیا۔

خدا جانے کتنی دیر گزر چکی تھی جب تین مشٹنڈے نوجوان یکے کی طرف بڑھے۔ ایک کبڑا اور ٹھگنا سا اور دو لمبے گجر نوجوان تھے جو ایک دوسرے کو بھاری بھرکم گالیاں بکتے، جوتے پٹختے غالبا ڈھابے سے نکل رہے تھے۔ “لاری اڈّے جاؤ گے؟” کبڑے نے بدتمیزی سے پوچھا۔ “ہم تین ہیں، دو روپے دیں گے”۔ گامو نے گھوڑی کی باگ کھینچی۔ لڑکوں نے کرایہ تو بہت کم کہا تھا لیکن گامو کے پیش نظر کرایہ نہیں ، تین سواریاں تھیں۔ تینوں نوجوان ایک دوسرے کو دھکیلتے گالیاں بکتے یکے پر بیٹھ گئے۔ “چلو چاچا!”۔ اس کے پیچھے بیٹھے کبڑے نے قریب ہو کر کہا۔ “ارے واہ!” کبڑا، جو پی کر زیادہ ہی بکے جا رہا تھا، بولا: “یہ پگڑی جو تو نے پہنی ہے کوچوان چاچا، اس سے میلی پگڑی تجھے پورے مری میں نہیں ملی کیا؟”۔ “ہی ہی۔۔ اجی شیخی کیا بگھاریں۔۔ غریب آدمی ہیں”۔ گامو مصنوعی سی ہنسی ہنس کر بولا۔ “ہاں، شاباش۔ شیخی نہیں بگھارتے۔ جلدی چلاؤ یکہ۔۔ کیا ساری راہ ایسے ہی چلو گے؟ جماؤں ایک دھول؟!” کبڑا بکنے لگا۔ “یار میرے تو سر میں درد ہونے لگا ہے”۔ لمبا گجر نوجوان گویا ہوا “کل میں نے اور بخشو نے ولایتی کی چار بوتلیں چڑھا لیں بھئی”۔ “مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تو اتنی لمبی کیوں ہانکتا ہے گنواروں کی طرح”۔ دوسرے لمبے نوجوان نے تیوری چڑھا کر کہا: “نئیں یار، جھوٹ نہیں بولتا۔۔ مولا قسم!” پہلا جوان بولا۔ “سچ ہے۔ بالکل ایسے جیسے۔۔کھٹمل کھانستا ہے۔۔ ہاہاہا” دوسرے نے کہا اور تینوں نوجوان قہقہے لگا کر ہنس پڑے اور گامو بھی کھسیانی ہنسی ہنسا۔ “ابے بڈھے !” کبڑا چلایا۔ ایسے چلاتے ہیں یکہ؟! چابک لو اور لگاؤ اس گھوڑے کے۔۔۔” کبڑے کے ڈانٹنے کے بعد ایک بار پھر گامو کی توجہ یکے کی طرف ہوئی۔ وہ اپنے پیچھے بیٹھے کبڑے کی بک بک سنتا رہا، راہ گیروں کے کوسنے بھی وقفے وقفے سے اسے سننے کو مل رہے تھے اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر بھی اس کی توجہ اپنی تنہائی سے ہٹی تھی۔ اس دوران لمبے گجر نوجوانوں نے کسی لونڈیا کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ “میرا بیٹا۔۔ اسی ہفتے۔۔ مرا ہے”۔ گامو نے کافی انتظار کے بعد ان کی گفتگو کے ایک وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ “ہاں۔ ہم سب نے ایک دن مرنا ہے”۔ کبڑا کھانستے ہوئے بولا۔ “لیکن تو جلدی چل، جلدی!۔۔ دوستو! اس طرح رینگ رینگ کر چلنے سے تو ہم آج پہنچنے سے رہے”۔ کبڑے نے کہا۔ “ہاں اس کی ہمت بڑھاؤ ذرا۔ ایک جماؤ نا گدی پر۔۔” لمبا نوجوان بولا۔ “او بڈھی بیماری! میں سیدھا کر دوں گا تجھے۔ سن رہا ہے ناں؟!” کبڑا بولا۔ گامو خفیف سا ہنسا۔ “ہاں صاحب، سنتا ہوں۔ مولا آپ کو سکھی رکھے۔” “کوچوان چاچا۔ تم شادی شدہ ہو؟”۔ لمبے نوجوان نے پوچھا تو گامو ہنس پڑا۔ “میری شادی تو اب قبرستان میں پہنچ کر ہی ہو گی۔۔ اب دیکھو جی، میرا بیٹا مر گیا ہے اور میں زندہ ہوں۔ کیسی اڈھب سی بات ہے۔ موت کو ذرا بھی ڈھنگ نہ تھا، پہلے مجھ پر آتی۔۔” پھر گامو ان نوجوانوں کی طرف گھوما تا کہ وہ انہیں اپنے بیٹے کے مرنے کا قصہ تفصیل سے سنائے لیکن اسی لمحے کبڑا بولا: “لو جی۔ آ گیا لاری اڈّا”۔ وہ تینوں کرائے کے دام چکا کر چلے گئے اور گامو انہیں دیکھتا رہ گیا۔ وہ ایک بار پھر اکیلا تھا اور جس بے چارگی کے درد سے وقتی طور پر اس کی توجہ ہٹ چکی تھی، وہ درد ایک بار پھر پوری شدت سے جاگ اٹھا۔ گامو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے سڑک کی دوسری جانب آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ ان میں ایسا کون تھا، کوئی ایک جو اس کی بپتا سن لیتا۔ لیکن لوگوں کا ہجوم تھا جو اس کی حالت سے بے خبر اپنے اپنے راستے پر رواں تھا۔ اس وقت اس کی بے چارگی کا یہ عالم تھا کہ اگر اس کا دل پھٹ جاتا اور درد کے سیلاب بن کر بہہ نکلتا تو گامو کو یقین تھا کہ پورا ہندوستان بہا لے جاتا لیکن خدا جانے کہاں ٹھہرا تھا یہ درد۔

اسی لمحے گامو نے ایک قلی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تھیلا تھا۔ گامو نے اس سے بات کرنے کا بہانہ تراشا۔ “دوست، کیا وقت ہو گا ابھی؟” گامو نے قلی سے پوچھا۔ “دس بجنے والا ہو گا، تم یہاں کاہے کو کھڑا ہے، چلتا بن!” قلی نے پان چباتے ہوئے کہا۔ گامو چند قدم آگے بڑھ گیا۔ وہ ایک بار پھر تنہائی کے رحم و کرم پر تھا۔ اسے خیال آیا کہ لوگوں سے کیا کہنا۔ واپس اڈے کو چلنا چاہیے۔ اب اسے سر درد بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ گامو نے باگ پکڑی اور اڈے کی راہ لی۔

تانگے والوں کے اڈے پر ایک ٹین کی چھت کے نیچے ایک چولھا ہلکی آنچ پہ جل رہا تھا اور سارے کوچوان اس کے گرد چوبی بنچوں پر لیٹے بیٹھے خراٹے لے رہے تھے۔ گامو بھی درمیان میں جگہ پا کر بیٹھ گیا۔ “میں نے آج کچھ بھی کمائی نہیں کی۔۔” گاموسوچنے لگا۔ “کچھ اپنے کھانے کے لیے خرید سکا نہ اپنی گھوڑی کے لیے۔۔ شاید اداسی کی یہی وجہ ہے۔۔ جس شخص کے پاس اپنے کھانے کے لیے کچھ ہو، گھوڑے کے لیے بھی ہو اور اپنا کام بخوبی کر لیتا ہو۔۔ وہ سکون میں رہتا ہے”۔ گامو کے ذہن میں خیالات آنے لگے۔اسی لمحے ایک نوجوان کوچوان نیند سے اٹھا اور ادھ کھلی آنکھوں سے پانی کے مٹکے کی طرف بڑھا۔ “پانی پیو گے؟”گامو نے اس سے پوچھا۔ “ہونھ؟”۔ “میرا بیٹا اسی ہفتے مرا ہے، سن رہے ہو؟۔۔ ہاں۔ اسی ہفتے، ڈاکٹر اللہ بخش صاحب کے شفا خانے پر۔۔ نرالے کام ہیں اوپر والے کے۔۔” ساتھ ہی گامو نے اس خبر کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے غور سے نوجوان کی طرف دیکھا تو وہ پانی پی کر ایک بار پھر آنکھیں بند کر چکا تھا۔ گامو چپ ہو گیا۔ جس طرح سے اس نوجوان کو پانی کی پیاس تھی، اسی طرح گامو کو بھی اپنی بپتا سنانے کی حسرت تھی۔ وہ تو پانی پی کر سو رہا لیکن گامو پھر تنہا تھا۔ اس کے لڑکے کو مرے ایک ہفتہ ہونے کو تھا اور گامو نے کسی کو ہنوز اپنے بیٹے کی موت کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتایا تھا۔ وہ پوری تفصیل سے کسی کو بتانا چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بیمار کیسے پڑا، وہ کس قدر تکلیف میں تھا۔ پھر مرتے وقت اس نے کیا کہا، پھر وہ کیسے مر گیا۔۔ گامو بتانا چاہتا تھا کہ اس کی آخری رسم کیسے ادا ہوئی، پھر گامو اپنے بیٹے کے کپڑے اٹھا لانے کے لیے کیسے ڈاکٹر اللہ بخش کے کلینک پر گیا۔ گاؤں میں گامو کی ایک بچی بھی تھی۔۔ شبنم جسے وہ شبو کہا کرتا تھا۔ وہ اس بارے میں بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس کی بات سننے والادکھ سے یقیناًرو پڑتا اور کسی عورت سے بیان کرنا تو اور بھی بہتر تھا کہ یہ بھلی مانس مخلوق ایسی بات پر پہلا لفظ سنتے ہی رو رو کر برا حال کر لیتی ہے۔

ذرا باہر جا کر گھوڑی کو دیکھوں، گامو کو خیال آیا تو اس نے چادر اوڑھی اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اپنی گھوڑی کے پاس آ کر وہ چارے کے بارے میں سوچنے لگا۔ موسم کے بارے میں سوچنے لگا لیکن تنہائی میں اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہ سوچ سکا۔ کسی دوسرے سے اس کا تذکرہ کرنا تو بوڑھے گاموکے بس میں تھا لیکن اس کے بارے میں سوچنا اور اس کی تصویر اپنے خیالات کی تختی پر بنانا اس کے لیے ازحد درد ناک تھا۔

“تم جگالی کر رہی ہو؟” گامو نے اپنی گھوڑی کی آنکھوں کی چمک میں جھانکتے ہوئے کہا۔ “ہاں شاباش دیکھو ہم نے آج کچھ نہیں کمایا۔ ہم دونوں آج گھاس کھائیں گے۔۔ دیکھو میں کافی بوڑھا ہو گیا ہوں اور یکہ چلانے کے قابل نہیں رہا۔۔۔ میرا بیٹا زندہ ہوتا تو وہ میری جگہ یکہ چلاتا۔ وہ اصل کوچوان تھا۔۔ اسے زندہ رہنا چاہیے تھا۔۔” گامو ایک لمحے کو خاموش ہو کر پھر گویا ہوا: “میرے بیٹے نے مجھے الوداع کہا اور وہ چلا گیا۔۔ کوئی بات ہی نہ تھی اور وہ چلا گیا۔۔۔ دیکھو، تم ایک لمحے کو فرض کرو کہ تمہارا ایک بچھیرا ہوتا، تمہارا بچہ۔۔ اور تم اس کی ماں ہوتیں۔۔ اور پھر وہی چھوٹا بچھیرا۔۔ تمہارا بچہ چلا جاتا یا مر جاتا، تم کتنا دکھی ہوتیں۔۔ ہوتیں ناں؟” گامو کہے جا رہا تھا۔ گھوڑی نے جگالی کی۔ گامو کی بات سنی اور ایک گرم سانس اپنے مالک کے ہاتھ پر چھوڑ دی۔ پھر گامو کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلااور اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اپنی درد دل کی ساری بپتا سنا ڈالی۔

(ترجمہ: ذکی نقوی)

(Published in The Laaltain – Issue 6)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *