“لیزلی! میں تمہارا خاکہ لکھنے لگا ہوں!”
میں نے کہا تو علی حیات خان چونکا، پھر اپنی کھِلتی باچھوں پہ ضبط کرتے ہوئے مصنوعی ناگواری سے میری طرف گھورنے لگا۔
“کیوں؟ دُنیا کے دیگر بے ہودہ اورفضول موضوعات ختم ہو گئے ہیں کہ اب مجھ پہ ‘سکھلائی’ کا ارادہ ہے؟ پہلے وہ اپنی گھوڑے اور گلہری کی محبت کی داستان تو مکمل کر لو!”
لیزلی، یعنی علی حیات مصنوعی سی کثرِ نفسی اور طنز کے لہجے میں بولا ۔
بلاشبہ وہ ایک ‘فضول’ موضوع بھی ہو سکتا ہے لیکن لیزلی خان میری باوردی زندگی کی ناکامیوں اور کم مائیگیوں کا ساتھی تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ ناکام انسان بھی قابلِ ذکر ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ لوگ عبرتوں کی ایک سستی کتاب ہوتے ہیں جس کے سفید صفحے فُٹ پاتھ پہ پڑےپڑے قارئین کے انتظار میں زرد ہو جاتے ہیں ۔ لیزلی حیات خان ان نوجوانوں میں سے تھا جو کہ ذرا سی محنت سے معاشرے کے تابندہ ذہن بن سکتے تھے لیکن وہ جنگ و جدل اور سپہ گری کے رومان میں گرفتار ہو کے خود کو ہمیشہ کیلئے بے کار پُرزہ بنا کر کونے میں پھینک دیتے ہیں۔ یعنی زمانہ طالب علمی کیڈٹ کالجوں کا جنون لئے ٹاٹ اسکولوں میں پڑھتے ہوئے گزار دیا اور پھر نوعمری قرونِ وسطیٰ کے شہسواروں کی سی مردانگی کا شوق لے کر اُن میدانوں میں بےتوقیر ہوتے ہوئے گزار دی جن میں فقط تلاشِ رزق کیلئے سگ دُوئی ہوا کرتی ہے، شہسواری نہیں! یوں ‘خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں’!!
علی حیات بتاتا تھا کہ اس کا ذہن اس کے بچپن سے ہی دو انتہاؤں کے درمیان متذبذب رہا۔ اپنے دادا مولوی غلام نبی خان مدنی مرحوم کا دینی ورثہ اس کے ایک جانب تھا جس میں خدمتِ دین، تصوف اور پیری مریدی کی ایک سادہ لیکن مستحکم سی روائیت تھی، دوسری طرف اپنے والد ، صوبیدارمیجر ریٹائرڈ قاری عبدالعلی خان ہیڈ کلرک اے سی سی، ٹی کے۔ون کا فوجی ورثہ تھا جس کی شان و شوکت اسے اتنا ہی مسحور کرتی تھی جتنا اُسے دادا کے ورثے کی طرف زبردستی مائل کیا جاتا تھا۔ قاری مرحوم کو ایک حادثہ فوج میں لے گیا تھا لیکن اُنہوں نے سن اڑتالیس سے سن بیاسی تک کا جو عرصہ فوج میں گزارا، علی حیات کے لئے وہ ایک بھرپور تشویق بنا۔
ہم پہلی دفعہ ملے تو وہ نیانیا عارضی لانس نائیک بنا تھا اور میں یونٹ میں نووارد سپاہی تھا ۔ وہ ہماری اس نیم لڑاکا پلٹن میں واحد بی ۔اے پاس سپاہی تھا۔ میں نے ڈویژن بیٹل اسکول میں ایف۔اے کی کلاسیں پڑھنا شروع کیں تو وہ میرا گہرا دوست بن گیا۔ پھر اس کے بعد لگ بھگ تمام باوردی زندگی ساتھ ہی گزری، ہم پیشہ تو تھے ہی، ہم مشرب و ہمراز بھی ہو گئے۔ وہ بتایا کرتا تھا کہ اس کے ابا اپنے فوج کی نوکری کے زمانے کے قصے سُناتے تو وہ کیسا مسحور سا ہو جاتا تھا۔ علی ان کی ڈھلتی عمر کی اولاد تھا جبکہ اُنہیں فوج سے ریٹائرڈ ہوئے بھی دو سال ہو چکے تھے۔ جہاں گھر کے دینی و مشرقی ماحول نے اسے بچپن میں عوج بن عنق، حئی بن یقظان، عمرو بن وہب بہلول، مُلا ابوالحسن دوپیازہ اور خواجہ بخارا نصرالدین کے کرداروں سے روشناس کروایا، وہاں وہ قیام کے بعد کے گورے اور پاکستانی فوجی کرداروں کے تذکروں سے بھی سحر ذدہ سا رہتا تھا۔ قاری عبدالعلی صاحب نے پنڈی میں ساتویں ڈویژن کے جی او سی جنرل ٹوٹن ہیم کے دفتر میں کلرکی کی تھی، جنرل افتخار خان مرحوم و مغفور کے اسٹاف میں کلرک رہے اور ان کے جی ون کرنل ڈیرک مل مین کے منظورِ نظر تھے۔ پہلے سپہ سالار کے اے ڈی سی میجر ٹیرنس گلینسی سے تو یارانے کا دعویٰ تھا انہیں۔وہ عمر بھر ان افسروں کے گُن گاتے رہے۔ لیزلی نے یہ گُن مجھے بھی گا کر سُنائے۔ وہ انگریز کی قومی صفات کا مداح تو تھا ہی، فوج میں آ کر جو اسے ملٹری ہسٹری کا چسکا پڑا تو کچھ ذیادہ ہی مداح ہو گیا۔بدنامِ زمانہ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس کو اپنا پیر و مُرشد بتاتا تھا۔انگریزی کئی نووارد لفٹینوں سے اچھی بول لیتا تھا اور اگرچہ اپنے نشست و برخاست اور کئی حرکات و سکنات سے اپنے لانس نائیک ہونے کا ثبوت پیش کرتا تھا تاہم تحریر اور تقریر کا غمومی انداز افسرانہ پایا تھا۔اس نے اکثر دوستوں کو بھی انگریزی کے عرفی نام دے رکھے تھے مثلاً دانیال کو ڈینی ، جاوید کو جو، اور اسی طرح ٹام، مائیک اور جیک وغیرہ۔۔۔ میجر شجاعت علی شاہ صاحب اُس پر بہت مہربان تھے اور اُنہوں نے ہی علی حیات کو لیزلی کا عُرفی نام دیا تھا۔ سردار صاحبان(جے سی اوز) سے بدتمیزی کے واقعات میں سزا یافتہ ہونے سے لے کر بغیر چھٹی غیر حاضر(اے ڈبلیو ایل) ہونے اور سپلائی اسٹور کا دروازہ توڑنے پر کوارٹر گارڈ میں بند ہونے تک، ہر بڑی دُرگھٹنا میں میجر شجاعت علی شاہ صاحب نے اُس کی کھال بچانے کی کوشش کی اور ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ لیزلی اپنی صلاحیتوں کا تعمیری استعمال کرے اور مثبت سمت میں ترقی کرے لیکن بے سود۔ وہ اہلِ دُنیا سے یکسر متضاد ذاویہ نظر لے کر دُنیا داری کے جھمیلوں میں پڑنے والا ایک احمق تھا ۔ پھر جہاں وہ دُنیا بھر کے ملٹری کلچر کا کافی مطالعہ رکھتا تھا، وہاں اپنے ہی رفقائے کار سے معمولی باتوں پر سینگ پھنسائے رکھنے کی وجہ سے پلٹن میں غیر مقبول رہا۔ جہاں اُس نے عالمی عسکری ادب کا مطالعہ بڑے شوق سے کر رکھا تھا وہاں اپنی پلٹن کے معمولات سے بے نیاز اور کام چوری کی حد تک لاپروا تھا۔ لیزلی نے بڑی قوموں کے فوجی مشاہیر کے سوانح پڑھ رکھے تھے اور اس کے فوجی بکسے میں میں نے فیلڈمارشل رومیل اور آکن لیک کی تصاویر چسپاں دیکھیں (جو اُس کی اپنی مصوری کے ‘نمونے’ تھے) لیکن وہ اپنی فوجی زندگی کے تمام پیشہ ورانہ امتحانات میں کمترین نمبروں سے پاس ہوا تھا اور کچھ میں تو فیل ہوا۔ ان اضداد سے مجھے اندازہ ہوا کہ سپہ گری کا جنون کی حد تک شوق بھی اس حقیقت کو نہیں بدل سکا تھا کہ رومانوی دُنیاؤں میں کھویا رہنے والا علی حیات اس پیشے کیلئے موزوں نہ تھا۔ لیزلی اس حقیقت سے ہمیشہ منکر رہا، سو بھاری قیمتیں چکاتا رہا۔
گورے گندمی رنگت، تیل کنگھی سے بے نیاز گھنے سیاہ بالوں اور پوری وردی میں چھے فُٹ قامت کا علی حیات خان پنجاب کے ایک زرخیز دیہاتی خطے سے تھا لیکن اُردو بڑی شستہ بولتاتھا اور فارسی بھی جانتا تھا(جو کہ شائد گھر کے مذہبی ماحول کی دین ہو۔ قاری عبدالعلی عمرِ آخر میں تشیع اختیار کرچکے تھے اور ایرانی ثقافت سے متاثر ہوگئے جس کا اثر علی پہ بھی پڑا ہوگا)۔ میٹرک کے بعد کچھ غربت کے ہاتھوں، کچھ اپنے لا اُبالی شوق سے بے قابو ہو کر مزید پڑھنے کے بجائے فوج میں سپاہی بھرتی ہو گیا۔ دراصل قاری صاحب کے مسلک بدلنے کے بعد بوجوہ پیری مریدی قائم نہ رہی جبکہ زمینداری کا سورج پہلے ہی ڈوب چکا تھا۔
لیزلی مجھے اکثر اپنی اول جلول شاعری بھی سُناتا تھا جس میں کوئی تاثیر یا گہرائی تو نہ ہوتی البتہ اندازہ ہوتا تھا کہ زبان پہ گرفت بہت سوں سے اچھی ہے۔ پیشہ ورانہ موضوعات پر مضمون نسبتاً اچھے لکھ لیتا تھا۔ آسٹرلٹز کی لڑائی پر ایک طویل مضمون لیزلی نے ایسا بھی لکھا جسے شائع کرنے سے پہلے اُس فوجی جریدے کے مدیر کرنیل صاحب نے کہا تھا کہ تمہارا یہ مضمون ایک میجر رینک کے لکھاری کا لکھا ہوا لگتا ہے، شاباش!!!
لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی تھا کہ ایک دو مواقع پر مجھے یہ واضح انکشاف ہوا کہ لیزلی بطورِ لڑاکا سپاہی ایک بُزدل آدمی ہے۔ دو ایک دفعہ یونٹ کی ذمہ داری کے علاقے (اے او آر) پر دہشت گردوں کے خود کش حملوں کے واقعات میں علی حیات کا طرزِ عمل قریب سے دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ شدید خوف ذدہ تھا۔ لیزلی میں شائد دلیری کی کوئی اور قسم ہو جو کسی اور پیشے میں ظاہر ہو سکتی تھی، وہ کسی رابرٹ میسن سے منسوب قول سُنایا کرتا تھا کہ ایک چوزا اور ایک عقاب ہر آدمی میں چھپا ہوتا ہے۔ وہ ہمراز ہونے کی وجہ سے مجھ سے اس پر شرمسار بھی رہتا تھا۔ وہ مجھے کہتا : “یار یہ جنگ نہیں، وحشت اور بربریت کی وہ انتہا ہے جس سے نپٹنا سپاہیوں کا نہیں، قسائیوں کا کام ہے۔ یہ کیا جنگ ہوئی کہ تلوار تھامنے یا بندوق اُٹھانے سے بھی پہلے ہماری آنتیں سڑک پر بکھری پڑی ہوں اور بھیجا دیوار پہ چپکا ہو۔ وہ بھی میدان جنگ میں نہیں، سڑکوں چوراہوں پر۔۔۔ نہیں یار! میں نئی صدی کی جنگوں کا سپاہی نہیں ہوں!!” میں نے ایک بار اُس کے پاس جنیوا کنونشن کا جنگی قیدیوں کے حقوق پر مبنی کتابچہ دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی۔ اس نے جواب میں بڑے تقدس مآبانہ انداز میں کہا کہ یہ ہر فوجی کے پاس ہونا چاہیئے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے یاد آیا کہ ہم نے چند دن پہلے دوسری جنگِ عظیم پر بنی ایک فلم دیکھی تھی جس میں ہیرو، کرنل نکلسن (الیک گینیز) کے پاس ہمہ وقت جنیوا کنونشن کا جنگی قیدیوں کے حقوق والا کتابچہ ہوتا ہے۔ میں خموشی سے مسکرا دیا جس کا لیزلی نے بہت بُرا مانا۔ لیزلی کے پاس اس کے فوجی بکسے میں ایک تلوار پڑی تھی جس پہ اُس نے اپنا آرمی نمبر، نام اور یونٹ انگریزی میں کندہ کروا رکھے تھے۔ وہ اکثر اس کے دستے کو مضبوطی سے پکڑ کر مجھے کہتا: “تجھے کیا پتہ لونڈے! تلواروں اور مسکوٹوں کے زمانے کی فوج کا کیا کلچر تھا۔ جنرل اکبر خان مرحوم کے زمانے کی فوج ، جنہوں نے کیرئیر کی پہلی لڑائی گھوڑے پر، تلوار سے میسوپوٹیمیا میں لڑی اور آخری لڑائی میں انفنٹری اور توپخانے کے جدید عناصر ڈیپلائی کئے، کشمیر والی جنگ میں!”
پھروہ اپنی تلوار کے بلیڈ پر انگلی پھیر کر اس انگلی کو اپنے ماتھے پر رکھتاا ور کہتا: “یار مجھے ڈوئل کا زخم اپنے ماتھے یا چہرے پر کھانے کا بڑا شوق ہے، جس کا نشان عمر بھر رہے”۔ پھر وہ الیکسانڈر پوشکن کا قصہ سُناتا جو کہ روسی رسالہ فوج کا افسر تھا ، افسانہ نگار بھی تھا اور اپنی محبوبہ (سابق بیوی) کے بھائی لیفٹیننٹ (جس کا مشکل سا روسی نام لیزلی ہی ادا کرسکتا تھا) کے ہاتھوں ڈوئل میں مرا۔ لیزلی نے ایک بار بحری توپ خانے کے ایک این سی او کو ڈوئل کا چیلنج بھی کیا لیکن ذرا قانونی حدود میں۔۔۔ یعنی وہ دونوں پستول سے پانچ پانچ گولیاں ایک تیسرے ہدف پر داغیں گے، جس کا ایک نشانہ بھی خطا گیا، وہ ‘کینٹین کورٹ مارشل’ کا سزاوار ہو گا یعنی سب حاضرین کو ‘ٹی بریک’ کروائے گا۔ وجہ یہ تھی کہ اُس این سی او نے لیزلی کی ذات کے کسی فوجی پہلو پر انگشت نمائی کی تھی۔ ‘ڈوئل’ میں استعمال ہونے والے دوسری جنگِ عظیم کے زمانے کے پسٹل کارل والتھر کے بارے میں لیزلی کو اپنے حریف سے ذیادہ معلومات تھیں۔ تاہم لیزلی خان یہ ڈوئل ہار کر لوٹا تو بڑا پژمردہ تھا اور خود کو پوشکن کی قبیل سے شمار کررہا تھا۔ وہ اپنی عمومی دلچسپی کے برعکس اگر کبھی ہمارے ساتھ شہر کے گھٹیا ہوٹلوں میں قورمےاور بریانیاں کھانے آ نکلتا تو وہاں بھی ویٹروں کو متوجہ کرنے کیلئے کلاسیک انگریز افسروں کی طرح ‘‘کوئی ہے؟؟” کا آوازہ لگاتا تھا۔۔۔
گئی صدیوں کے ‘جوانمردوں’ کی طرح لیزلی گھڑسواری کا شائق بھی تھا، حُسن پرست بھی اور دُخترِ”زَر” کو مُنہ نہ لگانے والا ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ دُختر موصوف نے اُسے کبھی مُنہ نہ لگایا (اسی وجہ سے دُخترِ رَز سے بھی ایک عرصہ دُور رہا)۔ اب گھڑ سواری کا شائق ہونا الگ بات ہے اور اچھا شہسوار ہونا ذرا الگ بات ہے۔لیزلی خان بہت ہی اناڑی سوار تھا اور ایک دفعہ تو میں نے اُسے سرپٹ دوڑتے گھوڑے سے بُری طرح گرتے دیکھا جس میں اُس کازندہ بچ جانا اُس کی خوش قسمتی سے ذیادہ گھوڑے کی عقلمندی سے ہی ممکن ہوا۔ حُسن پرست اتنا کہ ہر عورت میں حُسن تلاش کر لیا کرتا تھا اور پھر بہت کم وقت میں ہی سچی محبت میں بھی مبتلا ہو جاتا ۔ ان گنت زُلفوں کا اسیر ہوا ، بیسیوں سے اظہارِ محبت بھی کیا لیکن یہ جذبات کہیں مستجاب نہ ہوئے۔ لیزلی محبت میں ناکامی اور رُسوائی کا اتنا عادی ہو چکا تھا کہ اسی میں اسے لطف آنے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ درجنوں یک طرفہ محبتوں کے بعد جب ایک دم اُسکی ایک پہلی پہلی محبوبہ شریکِ حیات بن کر آدھمکی تو لیزلی کو خوشی سے ذیادہ مایوسی ہوئی۔ خیر یہ بعد کی بات ہے۔
پلٹن کی کینٹین اور گیریژن کی لائبریری میں میں نے لیزلی کے ساتھ بہت وقت گزارا۔ اس نے دُنیا کی ہر غیر اہم چیز کا مطالعہ کررکھا ہوگا اور وہ ہر کتاب میں سے غیر اہم معلومات کے مختصر شذرے (نوٹ) بناتا تھا۔ شائد وہ ایسا بھی انفرادیت کے شوق میں کرتا تھالیکن جو بھی وجہ ہو، اس کی دلچسپیاں نہ صرف سب سے مختلف تھیں بلکہ باہم متضاد بھی تھیں۔ میں نے ایک دفعہ اُسے لڑاکا طیاروں کے بارے میں لکھی ایک ہینڈ بُک کے مطالعے میں گم سُم پایا جبکہ پسِ منظر میں اس نے موسیقی بھی چلا رکھی تھی، وہ بھی سعدی شیرازی کی ایک غزل۔ ہوابازی کا شدید شوق تھا اُسے لیکن ایک سبک پروازی (گلائیڈنگ) کے کلب کا چند روز ممبر ہی رہ سکا اور اس شوق میں ایک بار زخمی بھی ہوا اور کئی دن شوقیہ لنگڑا کر چلتا رہا۔ شعر اور افسانوی ادب کا شوق پالتے پالتے اُسے کُتے پالنے کا شوق بھی چڑھا۔ پُرانی موٹر سائیکلوں کا جو سودا سوار ہوا تو وہ اس کی دائمی تنگدستی کی وجہ سے قدم بھر بھی نہ چل سکا۔ اسی تلون نے اُسے کسی ہُنر میں کمال حاصل کرنے دیا نہ اپنے پیشے میں کامیاب ہونے دیا۔ فوج میں بھی ایوی ایشن کور سے نکال باہر کر کے ہمارے یونٹ میں بھیجا گیا تھا۔
لیزلی پلٹن میں ایک حرفِ غلط تھا ، لہٰذہ جب بھی فارمیشن نے کسی ناگوار فریضے کے لئے یونٹ سے سپاہی مانگے ، پہلے اُسی کو پیش کیا گیا۔ کچھ وہ ‘قسمت کا دھنی’ بھی تھا۔ جرنیل کے معائنے کے دوران اگر پوری گارڈ آف آنر میں سلامی کے تھپییڑے سے کسی ایک سپاہی کی رائفل سے میگزین نکل کر گرنا ہوتی تو وہ علی حیات ہی کی رائفل ہوتی۔ سی او صاحب جس دن غُصے میں راہ چلتے کسی سپاہی کا ٹرن آؤٹ چیک کرنے کیلئے رُک جاتے تو پاس سے گزرنے والا سپاہی علی حیات ہی ہوتا۔ اس کے ٹرن آؤٹ میں نہ چاہتے ہوئے بھی کئی قابلِ دست اندازیِ صاحب جرائم نکل آتے مثلاً اُسکی انتہائی خوبصورتی سے سر پر جمائی گئی ٹوپی اکثر بیج سے محروم ہوتی۔ اُجلی وردی لیزلی خان کو بہت سجتی تھی لیکن یہ حادثہ کم ہی ہوتا ۔یعنی یہ کہ وہ اُجلی وردی پہنے۔ چونکہ وہ مختلف رجمنٹوں کی تواریخ پڑھتا رہتا تھا لہٰذا ان میں سے کسی نہ کسی کا امتیازی نشان بھی شوقیہ اپنی وردی پہ لگا ہی لیتا جس پر سی او صاحب کا خون کھولنا فطری امر تھا۔ فوجی بوٹ پالش کرنے کے فن میں وہ طاق تھا (جو اُس نے بقول اُس کے اپنے، دس بلوچ رجمنٹ کے ایک اُستاد سے سیکھا تھا) لیکن اس فن کے اظہار کیلئے اُس نے کم کم ہی کبھی وقت نکالا۔بالوں کی فوجی قطع کے سوا اپنے حُلیے میں کسی چیز کو وہ سنجیدہ نہیں لیتا تھا جبکہ چیک کرنے والوں کو یہ چیزیں کافی ‘سنجیدہ’ کردیتی تھیں۔ لیزلی حیات خاں کا قول تھا کہ جس سپاہی کو ہر سال میں ایک دفع پٹھوُ اور نوکری میں ایک دفعہ کوارٹر گارڈ کی قید نہیں ہوئی، وہ نامکمل سپاہی ہے۔ اس لحاظ سے وہی ہمارے یونٹ کا واحد مکمل سپاہی تھا۔
جنرل کیانی کی کمانداری کے زمانے میں بطورِ افسر فوج میں کمیشن پانے کی عمر کی بالائی حد میں ہم سپاہیوں کیلئے نرمی کر دی گئی تو علی حیات کوگویا اپنا مقصدِ حیات مل گیا، سو اُس نے بھی درخواست دے دی۔ بصد مشکل انٹر سروسز سلیکشن بورڈ کوہاٹ تک پہنچا۔ ان دنوں مجھے علی حیات کی خدا پرستی کا پتہ چلا کہ وہ بندے اور رب کے درمیان دُعا کے رشتے پر کتنا یقین رکھتا ہے۔ سلیکشن بورڈ کے امتحان میں بیٹھنے اور مترد ہونے کے بعد بھی اُس کی نمازوں کا خشوع و خضوع اور دعاؤں کی شدت ویسی ہی رہی۔ تاہم جب دوسری اور آخری بار اسے اس امتحان میں بیٹھنے کا موقع ملا تو یہ زہدوورع کی شدت کم تو نہ ہوئی تھی البتہ ظاہر نہ ہوتی تھی ۔ اب کے بار میں بھی اُس کے ہمراہ اُمیدوار تھا اور حُسنِ اتفاق کہ امتحان کے تمام مراحل میں ہم ایک ہی گروہ میں رہے۔ گروہی مباحثے کے وقت نگرانی اور نفسیاتی امتحان پر مامور کپتان صاحبہ کے حُسن و جمال کو دیکھ کر لیزلی خاں صاحب کا دل پچھاڑیں کھانے لگا تو مباحثے مباحثے میں خان موصوف اُن سادہ کپڑوں میں ملبوس کپتان صاحبہ کی نذر غالؔب کا یہ شعر کر کے ہی اُٹھے:
چھوڑی اسد نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے!
کپتان صاحبہ نے دلنواز سی مسکراہٹ کے ساتھ نظریں جُھکا لیں اور ممتحن والی فائل میں کچھ لکھا۔لیزلی کے خیال میں شعر انہیں پسند آیا تھا، وہی ‘نوٹ’ کررہی تھیں۔
لیزلی حیات خاں حتمی طور پر کمیشن کیلئے مسترد ہونے کی خبر سُن کر بے حد دلگرفتہ ہوا۔ کئی دن تک تو اس کی نمازوں میں خشوع و خضوع بڑھ گیا۔ اور مزاج میں رقت سی آگئی، تصوف کی طرف میلان بڑھ گیا۔ مجھے تو یوں لگا کہ تیاگی ہی ہو جائے گا لیکن یہ لہر بھی آکے چلی ہی گئی۔ پلٹن کی زندگی میں اب وہ گھٹن محسوس کرنے لگا تھا۔ میجر شجاعت علی شاہ صاحب کا تبادلہ آئی ایس پی آر کے کسی ذیلی دفتر میں ہوا تو اسے بھی ساتھ لے گئے لیکن وہاں بھی اُس کے غیر مستقل مزاج میں پُر سُکون رہنا مقدور نہ تھا۔ کمیشن کے بورڈ سے مسترد ہونے کے بعد اُسے نوعمر لفٹینوں اور کپتانوں کی ہر بات ڈانٹ ڈپٹ لگنے لگی اور میجروں ،کرنیلوں کی نرم گوئی بھی ترحم نظر آنے لگی جس پہ اُسےہمیشہ سے ذیادہ توہین محسوس ہونا فطری امر تھا۔اب اُسے بارک کی صفائی اور گھاس کی کھدائی، جنگی قیدیوں کی سی مشقت نظر آتی۔ سچ تو یہ ہے کہ افسروں سے ذیادہ خود سپاہی دوستوں نے اُس کی قدم قدم پہ جو گت بنائی، وہ ذیادہ تکلیف دہ تھی۔ بے توقیری کی انتہا تب ہوئی جب لوگوں نے اُسے طنزیہ کیپٹن لیزلی کہنا شروع کر دیا اور یہ لقب آج تک اُس کے نام کے ساتھ چپکا ہے۔ البتہ آئی ایس پی آر میں تقرری کے دوران لیزلی نے سنٹرل کمانڈ لائبریری سے کافی استفادہ کیا کہ اس نوکری میں مطالعے کی فرصت ذیادہ تھی۔ اب کی بار اشتراکیت، مزاحمتی ادب، مذہب اور الحاد کا مطالعہ بھی اُس نے بالالتزام کیا۔ اکثر ملاقات ہوتی تو بتاتا کہ فلاں کتاب پڑھی تھی، آج کل غور و فکر کررہا ہوں۔ پڑھنا بھی اس کا کیا تھا، خُدا جانے کتنی کتابیں تو ابتدائی اور وسطی ابواب میں ہی اُکتا کر چھوڑ دیں البتہ اسے کتب اور مصنفوں کے نام خوب یاد رہتے تھے جن کا رعب گفتگو میں جھاڑنے کا فن ا س پر ختم تھا۔اسے فوج کی گذشتہ ہسٹری کے چیدہ چیدہ گوشوں کے علم کا استعمال کر کے بوڑھے کرنیلوں کو متاثر کرنے اور اُن سے دوستیاں گانٹھنے کا ڈھنگ بھی خوب آتا تھا۔ تین سے چار ایسے پُرانے کرنیلوں کے نام (جن میں ایک انگریز پیرِ فرتوت بھی شامل ہیں)تو میں بھی جانتا ہوں جو اس کے نام نہاد ’علم و دانش‘ کی وجہ سے اس پر خُوب مہربان تھے۔ پلٹن کا نائی اُسے روزانہ آتے جاتے ہوئے مودب ہو کر سلیوٹ کرتا تھا اور تین سال اس ’پروٹوکول‘ کے عوض لیزلی کی جیب سے چائے پیتا رہا۔
آخری بار باوردی ملاقات ہوئی تو تب بھی وہ کافی بیزار اور کمیشن پانے میں ناکامی پر ازحد ملول تھا۔
“لونڈے! میں فوج چھوڑنے لگا ہوں! یہاں اب میرا مستقبل نہیں ہے!” وہ بولا تو مجھے حیرت سی ہوئی۔
“لیکن تُم تو سرتاپا فوجی کلچر میں گندھے ہو لیزلی! بے ترتیب اور بددماغ ہونا کوئی بڑی خامی نہیں لیکن لیزلی تُم ہو اسی ماحول کے آدمی!” میں حیران تھا۔ مجھے یاد آرہا تھا کہ لیزلی خان اپنی فوجی زندگی میں شاذونادر ہی سِوِل کپڑوں میں نظر آتا تھا۔
“یار سِوِل زندگی میں کیا کرو گے؟ تُم ایک مِس فِٹ اور ناکام آدمی ہو! یہ فوجی کلچر ہی ہے جہاں چھوٹے ذہنوں اور کم قابلیت کے لوگوں کو بھی اپنے تئیں سُپر مین سمجھنے کے ہزار بہانے ہاتھ آجاتے ہیں۔ سویلین زندگی بڑی بے رحم ہے، وہاں سخت مقابلے ہیں، کہیں منافقتیں ہیں اور کہیں چالاکیاں ہیں، تمہارا گاؤدی سا فوجی ذہن نہیں سمجھ پائے گا کچھ بھی۔۔۔”
میں دیر تک اسےسمجھاتا رہا کہ اپنے اس رادے سے باز آجائے لیکن لیزلی نہ مانا۔ وہ خود احتسابی کا دل و دماغ تو رکھتا تھا لیکن خود کو بدلنے کے بجائے اپنے ماحول سے اُلجھنے کی بُری عادت نے اسے ایک اڑیل ٹٹُو بنا دیا تھا۔ فقط اس لئے کہ اس کے نزدیک اس اڑیل پنے کو فوجی اوصاف میں ایک اونچامقام حاصل تھا۔
“میں نے اس ماحول سے جو احساسِ کمتری پانا تھا، پالیا! پاگل ہو کے تو جارہا ہوں یہاں سے! یہاں میں اُن، بقولِ تمہارے، چھوٹے ذہنوں اور کمتر قابلیت کے لوگوں سے بھی مات کھا چکا ہوں، پیچھے رہ چکا ہوں” لیزلی نے اپنے شانے پر انگلی رکھی جو کہ لفٹینی نہ ملنے کا اشارا تھا اور پھر بازو پہ انگوٹھا رکھا تو میں نے تاڑا کہ وہ لانس نائیک کا عارضی عہدہ بھی اس کے بازوُ سے اُتر چکا تھا۔
“اور ہاں! یہ وہ ابا جان اور سر فرینک میسروی کے زمانے کی فوج نہیں ہے جس پر ماضی کی گرد نے اصل خاکی رنگ چڑھا دیا ہے!”
وہ دیر تک اپنا غصہ نکالتا رہا۔ ہم ایک ڈیڑھ سال بعد مل رہے تھے۔ اِس یونٹ میں آتے ہی ہمارے ’کیپٹن لیزلی‘ کا عارضی لانس نائیک کا عہدہ اتار دیا گیا تھا جبکہ مستقل لانس نائیک بننے کیلئے اُس کا مطلوبہ میعار پورا نہ تھا۔ وہ پھر سے سپاہی تھا۔ ہم گیریژن کے گالف کورس کے ایک کونے میں گھاس پر بیٹھے تھے۔ کورس کسی وجہ سے استعمال میں نہ تھا اور دُور دُور تک کوئی شخص موجود نہ تھا۔ لیزلی نے اپنے فوجی جیکٹ کی جیب سے گھٹیا وہسکی کی ایک پائنٹ نکالی او ر دو گھونٹ لے کر ڈھکن بند کردیا۔
“لونڈے! تُو نہیں جانتا کہ میں زندگی میں دو چیزوں پر بھروسہ کر کے سخت ناکام ہوا ہوں!” اس نے بوتل واپس چھپاتے ہوئے کہا۔ یہ تبدیلی اس میں اب واقع ہوئی تھی، پہلے نہ تھی۔
“ایک تو دعاؤں پہ! یعنی جب ناکامی سامنے نظر آرہی ہو یا کامیابی کی کوئی اُمید نہ ہو، تب دُعا میں گر جانا۔۔۔ حالانکہ یہی وقت آخری کوشش کا ہوتا ہے!” شائد لیزلی اب الحاد کی طرف مائل ہو گیا تھا۔
“دوسرا اپنے خوابوں پہ!!!”میں چونکا۔ وہ تو خوابوں میں زندہ رہا کرتا تھا !
“خواب سوئے ہوئے آدمی کا بے لگام تخیل ہوتے ہیں، اُن کے پیچھے بھاگنا حماقت ہے۔ میں ایک عظیم الشان فوجی افسر بنوں گا، یہ میرا خواب تھا، یہ میرا خیال نہیں تھا شائد۔یہ میری قابلیتوں کی روشنی میں فطرت کا منشأ نہیں تھا، یہ کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ جو خواب مارٹن لوتھر کنگ کا تھا یا تمہارے اقبال کا، وہ خواب نہیں تھے، وہ خیال تھے، وہ ارادے تھے، سمجھے ناں؟”
میں پی کر باتیں کرنے والوں پہ یقین نہیں کرتا، کیا معلوم لیزلی ٹھیک کہہ رہا تھا۔
“لونڈے! خوابوں کے پیچھے مت بھاگنا کبھی! بالخصوص جن خوابوں کا تعلق رُومان سے ہو۔ اِس دور میں شویلری یعنی شہسواری، حُسن پرستی، نام و نسب، آن بان، خودداری، نجابت اور سپاہیانہ نخوت، یہ سب چیزیں افسانوی ہیں اور ایک جگہ پر اکٹھی نہیں ہو سکتیں! سپہ گری کا پیشہ ان اوصاف سے لازم و ملزوم نہیں بھی ہوتا، بلکہ کوئی بھی پیشہ!” پھر وہ دیر تک افسوس کرتا رہا کہ وہ لڑکپنے کے رومان کی انگلی پکڑ کر کیوں فوج میں چلا آیا تھا اور اپنی اُن خوبیوں کا ماتم کرتا رہا جو اس تمام عرصے کی سختی، ناکامیوں اور بے توقیری میں اس کی ذات میں پیدا نہ ہو سکیں۔ یا پھر گُھٹ کے مر گئیں۔
اس ملاقات کے بعد ہم ایک عرصے تک نہ مل سکے۔ خُدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ مجھے ایک کورٹ مارشل کا سامنا کر کے ہمیشہ کیلئے گھر لوٹنا پڑا تو انہی دنوں لیزلی خاں بھی با عزت طور پر ڈسچارج لے کر تیس برس کی عمر میں ہی فوج چھوڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب وہ اکثر میرے گاؤں سے گزرتا ہے تو دیر تک گاؤں کی سڑک کے کنارے بیٹھا مجھ سے گپیں ہانکتا ہے اور زندگی، خُدا، مذہب ، حُسن و عشق اور کائنات کے بارے میں کئی اُلٹے سیدھے نظریات پیش کرتا رہتا ہے جو کہ کچھ نہ کچھ درست بھی ہوں گے لیکن بادی النظر میں مجھے اُن سے اُس کے شوقِ مطالعہ کے تگڑے سے تاثر کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اب اس کے ہاتھ میں کبھی کبھار کتاب بھی ہوا کرتی ہے لیکن ذیادہ تر سودے سلف کے تھیلے، نوکری کے اشتہاروں والے اخبار، دواؤں کے لفافے یا لکڑی لوہے کے کوئی کل پُرزے شہر سے گھر لاتے ہوئے اس کے پاس ہوتے ہیں۔
لیزلی نے فوج سے حاصل ہونے والی تھوڑی سی رقم اپنی پوسٹ گریجوایٹ ڈگری پہ لگا دی (اگرچہ ڈگری کے دوران وہ چند روز ہی کالج گیا) باقی چند پیسوں سے اپنی منگنی کے جوڑے، دُلہن کے امام ضامن، مٹھائی کے ڈبے اور ایک تحفے کا انتظام کیا۔ سِوِل زندگی میں لیزلی نے کئی نوکریوں کیلئے درخواستیں دیں لیکن اکثر جگہوں پر عمر کی بالائی حد عبور کر جانے کی وجہ سے مسترد ہوا یا پھر متعلقہ تجربہ نہ ہونے کی بنأ پر۔ فوجی زندگی کا تجربہ اکثر جگہوں پر غیر متعلقہ تجربہ تھا۔ دو ایک جگہوں پر نوکری تو مل گئی لیکن لیزلی وہاں اپنی جگہ نہ بنا سکا جس کی وجہ یہ تھی کہ اُس نے یہ کام سیکھا ہی نہیں تھا۔ فوری فیصلہ کرنے کی اہلیت اور حُکم چلانے کا اعتماد اُس کے اندر کے لانس نائیک نے کبھی اُس میں پیدا ہی نہ ہونے دیا۔ دوسری وجہ سویلین زندگی کے تیز رفتار کلچر کو اپنانے کے بجائے اپنے جامد فوجی کلچر پہ قائم رہنا۔کچھ اس کے بخت نے بھی ایسا جمود پکڑا کہ دو چار سال نیشنل گارڈز میں بطورِ رضاکار افسر کمیشن پانے کی کوششوں میں بھی مارا مارا پھرا لیکن سابق فوجی ہونے اور اضافی تعلیمی قابلیت کے باوجود فوج نے گویا اُسے پہچاننے سےہی انکار کر دیا، گو اس میں کوئی قانون بھی مانع نہ تھا۔ البتہ ایک دفعہ جب وردی اور چوڑے بیلٹ کی یاد نے بے قرار کیا تو لاہور چھاؤنی جا کر نیشنل گارڈز ہی کی ایک مجاہد پلٹن میں سپاہی بھرتی ہوگیا۔ ایجوٹنٹ نے کہا کہ دو ماہ کی تربیت لینا ہوگی، تو لیزلی خاں کی فوجی انا جاگ اُٹھی۔
“ان کم سِن رنگروٹوں کے ساتھ مجھے دو ماہ ٹریننگ کروانے کا مطلب ہے کہ آپ میری دس سالہ فوجی خدمات کو خاطر میں ہی نہیں لا رہے؟؟؟” لیزلی کے اس جواب پر ایجوٹنٹ نے اسے فوراً چھاؤنی سے دفع ہو جانے کا حُکم دے دیا۔ لیزلی سے اس واقعے کے بعد بھی سویلین زندگی میں جی لگانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہو سکی۔
آجکل کچھ یوں ہے کہ فوج کے دنوں میں تنخواہ لیتے ہوئے پیسے گِن کر پورے کرنے کو غیر فوجی حرکت سمجھنے والا لیزلی خان اب جہاں بھی نوکری کرتا ہے، ایک ایک روپئے پر جان دیتا ہے (لیکن روپیہ بچانا اُسے آج بھی نہیں آتا)، فوج کی وردی میں اپنی ہر غلطی کا اعتراف کرکے پٹھوُ اور کوارٹر گارڈ کی سزا خوشی خوشی لینے والا لیزلی خان اب نوکری بچانے کیلئے طرح طرح کے جھوٹ بھی بکتا ہے (لیکن پھر بھی ماتحتی ہی جھیلتا ہے) اور فوجی وردی میں خواتین کے احترام اور تحفظ کو مردانگی کی اولین شرط سمجھنے والا لیزلی خان اب اپنی بیوی کو دو وقت کی روٹی بھی اُس توقیر کے ساتھ مہیّا نہیں کرپاتا جس لاڈ سے وہ مائیکے میں کھاتی تھی ۔ علی حیات خان زندگی کی دوڑ میں اپنے فوجی اور سویلین، دونوں طرح کے ہم عمروں سے پیچھے رہ چکا ہے اور اس وجہ سے ‘سیلف پِٹی’ کا جو عارضہ اُسے لاحق ہوا ہے وہ ایک تعلیم یافتہ آدمی کی شخصیت کا سب سے بڑا ناسور ہے۔۔۔ اور رائیگانی کے احساس سے بُرا احساس کوئی نہیں ہے۔
ماضی میں فوجی کلچر کو اپنا مذہب گرداننے والا لیزلی حیات خان اب گاؤں کے نو خیز جوانوں کو نصیحت کرتا ہے:
“لونڈو!! اگر قابل اور لائق لوگ ہو اور دماغ کی بتی روشن ہے اور طبیعت میں تلون، تو اپنی جوانی فوج کو نہ دینا! لڑنے والے لوگ مستقل مزاج لیکن نیم خواندہ ہوتے ہیں۔ تُم کام کے لوگ بنو! اِس قوم کو قابل اُستادوں، شریف ڈاکٹروں، سچے صحافیوں اور دردِ دل رکھنے والے سماجی کارکنوں کی ضرورت سپاہیوں کی نسبت کہیں ذیادہ ہے!!!”
یہ کہنے کے بعد وہ گھر آتا ہے، بکسے سے اپنی وردی نکالتا ہے اور اپنے کمرے میں بند، اُسے پہن کر آئینے کے سامنے کھڑا دیر تک خود سے انگریزی میں باتیں کرتا رہتا ہے جنہیں آج تک کسی نے نہیں سُنا۔۔۔
تبصرے
رُلا دیا زکی نے یہ خاکہ لکھ کے۔ سوچ رہا ہوں زندگی سے بڑی پہیلی بھی کوئی نہیں ہوگی، یہ تو اچھے اچھوں کے ساتھ بھی اچھا نہیں کرتی۔