موسیقی کے حرام ہونے پر استدلال کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اسے "لہو الحدیث” کہا گیا ہے. مسئلہ کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے اس امر کا جائزہ بھی لے لیا جائے۔
1سادہ سی بات ہے کہ اگر "لہو” ہر حال میں حرام ہی ہے تو خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کیسے ہوتا رہا بلکہ آپ ص نے باقاعدہ اس "لہو” کی تلقین بھی کی۔ دو روایات بطور نمونہ یہاں درج کی جا رہی ہیں، ترجمہ:
(الف) سیدہ عائشہ کے خاندان کی ایک لڑکی کی ایک انصاری سے نکاح اور رخصتی ہوئی تو رسول ﷺ نے فرمایا
یا عائشہ ما معکم من لہو
کہ اے عائشہ تم لوگوں کے ساتھ کوئی لہو نہ تھا؟ انصار کو تو لہو پسند ہے”
(بخاری)
یا عائشہ ما معکم من لہو
کہ اے عائشہ تم لوگوں کے ساتھ کوئی لہو نہ تھا؟ انصار کو تو لہو پسند ہے”
(بخاری)
دوسری روایات بھی ساتھ ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ نے حضور کے یوں فرمانے پر پھر ایک گانے والی کو بھی روانہ کر دیا۔
اس حدیث میں لہو کے ذکر کے ساتھ اس کا جواز بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔
(ب) دف کے آلات لہو میں سے ہونے پر کسی کو کوئی کلام نہیں اس لہو کے استعمال کو جلیل القدر فقہاء نے سنت قرار دیا اور امام مالک تو نکاح کے درست ہونے کی شرائط میں دف کا ذکر بھی کرتے ہیں جس نکاح میں لہو(دف) نہ ہو وہ اسے درست نہیں سمجھتے۔
2۔ قرآن مجید میں "لہو” کا لفظ چند اور موقعوں پر بھی استعمال ہوا ہے ان پر غور سے بھی مدعا مزید واضح ہو جاتا ہے۔
(الف) انما الحیوہ الدنیا لہو ولعب(36:47)
اس آیت میں حیات دنیا کو ہی "لہو” قرار دیا گیا۔ اب کوئی یہ کہنے کی حماقت نہیں کر سکتا کہ "دنیا لہو ہے، لہذا دنیا ہی حرام ہے” الا یہ کے وہ عقل سے بے گانہ اور شعور سے مکمل عاری ہو جائے۔
اس آیت میں حیات دنیا کو ہی "لہو” قرار دیا گیا۔ اب کوئی یہ کہنے کی حماقت نہیں کر سکتا کہ "دنیا لہو ہے، لہذا دنیا ہی حرام ہے” الا یہ کے وہ عقل سے بے گانہ اور شعور سے مکمل عاری ہو جائے۔
وذرالذین اتخذوادینهم لعبا و لہوا(70:6)
"ان لوگوں کو چھوڑ دیجیے جنہوں نے دین کو "لہو” بنا دیا”۔
یہاں بھی واضح ہے کہ "لہو” سے مراد کھیل تماشہ ہی ہے نہ کہ کچھ اور۔
"ان لوگوں کو چھوڑ دیجیے جنہوں نے دین کو "لہو” بنا دیا”۔
یہاں بھی واضح ہے کہ "لہو” سے مراد کھیل تماشہ ہی ہے نہ کہ کچھ اور۔
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر یوں آیا ہے
واذا راو تجارۃ او لھوا
یہاں "لہو” سے مراد تجارت ہے، چونکہ خطبہ جمعہ پر اسے ترجیح دے دی گئی تھی اسی وجہ سے لہو کے دائرہ میں شامل ہو گئی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ قرآن مجید میں تجارت کو مخصوص وجہ سے "لہو” قرار دے دینے سے تجارت ہی کے حرام ہونے پر استدلال کون احمق کر سکتا ہے؟
واذا راو تجارۃ او لھوا
یہاں "لہو” سے مراد تجارت ہے، چونکہ خطبہ جمعہ پر اسے ترجیح دے دی گئی تھی اسی وجہ سے لہو کے دائرہ میں شامل ہو گئی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ قرآن مجید میں تجارت کو مخصوص وجہ سے "لہو” قرار دے دینے سے تجارت ہی کے حرام ہونے پر استدلال کون احمق کر سکتا ہے؟
لہو کا مفہوم:
(الف) صاحب التعریفات لکھتے ہیں، ترجمہ:
"لہو سے مراد وہ چیز ہے جس سے لطف حاصل ہو اور وہ انسان کو غافل کر دے یہاں تک کے بندہ حد سے گزر جائے”
(اقرب الموارد)
"لہو سے مراد وہ چیز ہے جس سے لطف حاصل ہو اور وہ انسان کو غافل کر دے یہاں تک کے بندہ حد سے گزر جائے”
(اقرب الموارد)
(ب) علامہ عبدالغنی نابلسی حنفی
” لہو” کی وضاحت یوں کرتے ہیں، ترجمہ:
” لہو” کی وضاحت یوں کرتے ہیں، ترجمہ:
"اچھی آواز کا مختلف قسم کے باجوں پر سننا ایسی چیز نہیں جسے مطلقاً حرام قرار دیا جائے۔ جن احادیث میں غناء کی حرمت مطلقاً وارد ہوئی ہے وہ بھی دوسری روایات کی روشنی میں مقید ہی ہیں۔ مذاہب اربعہ کے فقہاءکی عبارات بھی مقید ہی ہیں، جو مطلق ذکر ہوئی ان سے بھی مراد مقید ہی ہے، دین کی تفصیلات سے جو کچھ سمجھا جا سکتا ہے وہ یہی ہے.سمجھ دار کے لیے اشارہ کافی ہے اور بے عقل جاہل تو شارع کے مقصود کو ہزار طرح کی عبارتوں سے بھی نہیں سمجھتا غرض موسیقی کا مسئلہ (حرام)لہو کی قید سے مشروط ہے، باجوں کی حرمت کا فتوی اسی وقت صحیح ہو گا جب اس میں لہو(حرام) کی شرط پائی جائے۔ آگے چل کرلہو حرام کی تشریح میں علامہ لکھتے ہیں،
یہاں "لہو” سے مراد یہ ہے کہ اس کی وجہ سے طاعت الہی کی طرف سے بے توجہی ہو یا فرائض و واجبات فراموش ہو جائیں یا حرام و مکروہات میں رغبت ہو جائے۔ ان تمام باتوں کا اندازہ ہر شخص اپنے دل سے کر سکتا ہے۔ دوسرا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق جزا ملے گی”(ایضاح الدلالات ص 18)
اسی بحث میں علامہ کا کہنا ہے کہ "کوئی جاہل ہی یہ رائے رکھ سکتا ہے کہ آلات موسیق کبھی لہوحرام کے سوا استعمال ہو ہی نہیں سکتے،”
جدید دور میں فن موسیقی کے ارتقاء نے اسے دل لگی کے علاوہ امراض کے علاج اور کئی اور اعلی مقاصد کے لیے بھی کار آمد بنا دیا ہے،
لہو حلال و حرام پر علامہ کی یہ وضاحت مزید تفصیلات کی ضرورت نہیں چھوڑتی
3۔ بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق سیدہ عائشہ فرماتی ہیں
"میرے پاس دو لڑکیاں "بعاث” کے گیت گا رہی تھیں حضور بھی تشریف فرما تھے بستر پر لیٹ کر دوسری طرف کروٹ کیے ہوئے۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر داخل ہوئے مجھے ڈانٹ کر کہا حضور کے سامنے یہ شیطانی گانے؟
حضور نے ابوبکر سے فرمایا ان کو چھوڑ دو” سیدنا ابوبکر کی ذوقی کراہت اور اسے سیطانی گانے قرار دینے کے باوجود رسالت مآب ص نے حلال لہو کا مشغلہ جاری رہنے دیا۔
"میرے پاس دو لڑکیاں "بعاث” کے گیت گا رہی تھیں حضور بھی تشریف فرما تھے بستر پر لیٹ کر دوسری طرف کروٹ کیے ہوئے۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر داخل ہوئے مجھے ڈانٹ کر کہا حضور کے سامنے یہ شیطانی گانے؟
حضور نے ابوبکر سے فرمایا ان کو چھوڑ دو” سیدنا ابوبکر کی ذوقی کراہت اور اسے سیطانی گانے قرار دینے کے باوجود رسالت مآب ص نے حلال لہو کا مشغلہ جاری رہنے دیا۔
4۔ علامہ ابن البر لکھتے ہیں، لوگ سیدنا عمر کے ساتھ حج پر روانہ ہوئے اور ان سے فرمائش کی کہ ضرار کے اشعار ترنم سے سنوائیے چنانچہ سیدنا عمر نے ابو عبداللہ (خوات) کو کہا کہ
اس کے اشعار سنائے چنانچہ یہ (حلال)لہو کا مشغلہ رات بھر جاری رہا صبح ہونے لگی تو سیدنا عمر نے فرمایا:
خوات اپنی زبان بند کرو اب صبح ہو چکی۔ (استیعاب ج 1 ص 170)
سیدنا عمر کی دینی امور میں شدت کے باوجود رات بھر "حلال لہو” کا مشغلہ اہل تدبر کے لیے اپنے اندر بے شمار سبق رکھتا ہے۔
اس کے اشعار سنائے چنانچہ یہ (حلال)لہو کا مشغلہ رات بھر جاری رہا صبح ہونے لگی تو سیدنا عمر نے فرمایا:
خوات اپنی زبان بند کرو اب صبح ہو چکی۔ (استیعاب ج 1 ص 170)
سیدنا عمر کی دینی امور میں شدت کے باوجود رات بھر "حلال لہو” کا مشغلہ اہل تدبر کے لیے اپنے اندر بے شمار سبق رکھتا ہے۔
5المختصر لہو کھیل تماشے کو کہا جاتا ہے اگر یہ محض دل بہلانے تفریح یا غم دور کرنے یا کسی اور مباح مقصد کے لیے ہو تو نا صرف جائز بلکہ بعض علماء کی تصریح کے مطابق سنت بھی ہے۔ اگر لہو حرام پر مشتمل ہو جائے یا حرام کی طرف لے جانے والا ہو تو بلاشبہ حرام ہی ہے۔ کس کو کون سا لہو کس حرام میں لے جائے گا اس کا فیصلہ موسیقی سننے والا خود کر سکتا ہے۔ آیت میں تفسیری اقوال کی روشنی میں آلات موسیقی کو لہو کہہ کر مذمت کی گئی تو اس کا مفہوم آیت کے الفاظ ہی سے واضح ہے کہ یہ اس موقع کا ذکر ہے جب اس لہو سے لوگوں کو خدا کی راہ سے بہکانے کا مقصد حاصل کیا جاتا تھا، اس ناجائز اور حرام مقصد کے لیے آلات موسیقی ہوں یا کچھ اور اس سب کا استعمال حرام ہی ہو گا. قرآن میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا گیا۔ لہو کے لفظ سے موسیقی کو مطلق حرام ثابت کرنا عقل و نقل کی رو سے کسی طرح درست نہیں۔
Leave a Reply