گزشتہ ایک ماہ سے دارلحکومت میں جاری سیاسی رسہ کشی نے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کررکھی ہےاور عوام پرائم ٹائم میں نام نہاد آزادی اور انقلاب کا سوپ سیریل سر جوڑے دیکھ رہی ہے۔ لوگ اس سیاسی ٹاکرے میں اس قدر منہمک ہیں کہ ملک میں ایک بار پھر سر اٹھاتے عسکریت پسندوں کی طرف کسی کی توجہ نہیں- شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد دہشتگردی کی کاروائیوں میں کمی آئی ہے گو کہ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ اب بھی شدّت سے جاری ہے، لیکن بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی ۔اس عارضی خاموشی نے پاکستانی شہریوں کو خوف و ہراس سے وقتی طور پر نجات تو دلا دی لیکن کیا واقعی ملک ممکنہ عسکریت پسندی کے خطرے سے نکل گیا ہے؟
پشاور میں دولت اسلامیہ کی جانب سے سے شہر اور اس کے مضافات میں ‘فتح ‘ نامی بارہ صفحاتی کتابچہ تقسیم کیا گیا ہے، اس کے علاوہ ملک سے بڑی تعداد میں غیر ملکی دہشتگردوں کی جہاد کے لئےشام کی طرف نقل مکانی سے بھی پاکستان میں اس تنظیم کے رابطوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے ملک میں شام اور عراق میں خلافت کا اعلان کرنے والی تنظیم دولت اسلامیہ کی موجودگی سمیت عسکریت پسندوں کی کارروائیوں سے متعلق مسلسل خبریں گردش کر رہی ہیں- پشاور میں دولت اسلامیہ کی جانب سے سے شہر اور اس کے مضافات میں ‘فتح ‘ نامی بارہ صفحاتی کتابچہ تقسیم کیا گیا ہے، اس کے علاوہ ملک سے بڑی تعداد میں غیر ملکی دہشتگردوں کی جہاد کے لئےشام کی طرف نقل مکانی سے بھی پاکستان میں اس تنظیم کے رابطوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
دولت اسلامی خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی ہے جس کے لیے مذکورہ گروہ نے امریکا سے یرغمالیوں کے بدلے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہےجس کا مقصد پاکستان میں انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ایک Splinter Group نے اسکی حمایت کا اعلان بھی کردیا ہے۔ دولت اسلامی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر برسوں سے امریکی پیشقدمی کی بنا پر زیرزمین رہنے پر مجبور القاعدہ بھی جنوبی ایشیا میں دوبارہفعال ہونے کی کوشش میں ہے۔ القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری نے جنوب ایشیائی شاخ کے قیام کا اعلان کیا ہے اور تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک عسکریت پسند مولانا عاصم عمرکو اس ونگ کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے۔ اپنے اس دعوے اور خود کو فعال ثابت کرنے کے لیے چھ ستمبر کے دن ڈاکیارڈ پرحملہ بھی کیا گیا جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کرلی ہے۔
افغانستان میں امریکی کارروائیوں کے بعد القائدہ کی سرگرمیاں محدود ہو گئی تھیں، دوسری جانب دولت اسلامی نے شام میں اپنی کامیابی کے بعد القائدہ کے سست رو طریقہ کار سے بیزار ہوکر اس سے علیحدگی اختیار کر کے عراق میں خلافت کا اعلان کر دیا۔ اب یہ دونوں انتہا پسند تنظیمیں جنوبی ایشیاء میں موجود مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتی ہیں، دونوں ہی کا مقصد خطّے میں اپنی مرضی کی خلافت قائم کرنا ہے۔شدت تنظیموں کے لئے عوامی سطح پر ہمدری،حمایت اور پہلے سے فعال تنظیموں اور ان کے نیٹ ورک کی موجودگی کے باعث ان تنظیموں کو پاکستان میں سازگار ماحول ملنے کے قوی خدشات ہیں۔ اگرچہ القاعدہ قیادت بوڑھی اور منتشر ہے اور اب اتنی فعال بھی نہیں، لیکن اس کے باوجود نیول ڈاکیارڈ میں ہونے والی تخریبی کاروائی میں ‘اندرونی عناصر’ کے ملوث ہونے کا انکشاف اس بات کا ثبوت ہے کہ القاعدہ کی جڑیں ملک میں اب بھی خاصی گہری ہیں جبکہ دولت اسلامی اپنی بہیمانہ کارروائیوں ، نظریاتی شدت اور وسیع وسائل کی بنا پر انتہا پسندوں میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔
دولت اسلامی خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی ہے جس کے لیے مذکورہ گروہ نے امریکا سے یرغمالیوں کے بدلے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہےجس کا مقصد پاکستان میں انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ایک Splinter Group نے اسکی حمایت کا اعلان بھی کردیا ہے۔ دولت اسلامی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر برسوں سے امریکی پیشقدمی کی بنا پر زیرزمین رہنے پر مجبور القاعدہ بھی جنوبی ایشیا میں دوبارہفعال ہونے کی کوشش میں ہے۔ القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری نے جنوب ایشیائی شاخ کے قیام کا اعلان کیا ہے اور تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک عسکریت پسند مولانا عاصم عمرکو اس ونگ کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے۔ اپنے اس دعوے اور خود کو فعال ثابت کرنے کے لیے چھ ستمبر کے دن ڈاکیارڈ پرحملہ بھی کیا گیا جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کرلی ہے۔
افغانستان میں امریکی کارروائیوں کے بعد القائدہ کی سرگرمیاں محدود ہو گئی تھیں، دوسری جانب دولت اسلامی نے شام میں اپنی کامیابی کے بعد القائدہ کے سست رو طریقہ کار سے بیزار ہوکر اس سے علیحدگی اختیار کر کے عراق میں خلافت کا اعلان کر دیا۔ اب یہ دونوں انتہا پسند تنظیمیں جنوبی ایشیاء میں موجود مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتی ہیں، دونوں ہی کا مقصد خطّے میں اپنی مرضی کی خلافت قائم کرنا ہے۔شدت تنظیموں کے لئے عوامی سطح پر ہمدری،حمایت اور پہلے سے فعال تنظیموں اور ان کے نیٹ ورک کی موجودگی کے باعث ان تنظیموں کو پاکستان میں سازگار ماحول ملنے کے قوی خدشات ہیں۔ اگرچہ القاعدہ قیادت بوڑھی اور منتشر ہے اور اب اتنی فعال بھی نہیں، لیکن اس کے باوجود نیول ڈاکیارڈ میں ہونے والی تخریبی کاروائی میں ‘اندرونی عناصر’ کے ملوث ہونے کا انکشاف اس بات کا ثبوت ہے کہ القاعدہ کی جڑیں ملک میں اب بھی خاصی گہری ہیں جبکہ دولت اسلامی اپنی بہیمانہ کارروائیوں ، نظریاتی شدت اور وسیع وسائل کی بنا پر انتہا پسندوں میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔
ضرب عضب کے نتیجے میں بےگھر ہونے والے آئی ڈی پیز اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والی عوام کی امداد میں وفاقی و صوبائی حکومت کی نااہلی نے شدت پسند گروہوں کو فلاحی تنظیموں کے بھیس میں بھرتیاں کرنے اور وعوامی ہمدردی حاصل کرنے کا موقع دیا ہے ۔
جنوبی ایشیا میں مسلم دنیا کا کوئی ایک تہائی حصّہ رہتا ہے- اس خطّے کی ابتر سیاسی و اقتصادی حالت نے ان عسکریت پسند تنظیموں کو اپنا اثرورسوخ پھیلانے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ سیاسی، اقتصادی اور سماجی ابتری والے ممالک انتہا پسند تنظیموں کے لیے آسان بھرتی اور حمایت حاصل کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ یہ تنظیمیں مصائب میں گھرے لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ضرب عضب کے نتیجے میں بےگھر ہونے والے آئی ڈی پیز اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والی عوام کی امداد میں وفاقی و صوبائی حکومت کی نااہلی نے شدت پسند گروہوں کو فلاحی تنظیموں کے بھیس میں بھرتیاں کرنے اور وعوامی ہمدردی حاصل کرنے کا موقع دیا ہے ۔ ماضی کی زیادہ تر جہادی تنظیمیں اس وقت بھی فلاحی تنظیموں کے بھیس میں کام کر رہی ہیں۔ یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے افراد کو محض چند لاکھ روپے معاوضہ ادا کر کے حکومت اپنی ذمہ داریوں سے گلوخلاصی نہیں کرا سکتی، مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد پر توجہ دینی ہو گی۔صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو عوام کی فلاح و بہبود کے فوری اور جامع اقدامات کرنا ہوں گے، قومی سلامتی سے متعلق نقطہ نظر کی تشکیل نو کرنا ہوگی اور شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیاں روکنے کے لئے موثر کاروائی کرنا ہوگی۔ انتہا پسندمذہبی نظریات بڑی تیزی کے ساتھ نہ صرف عوام بلکہ قومی اداروں میں بھی جگہ بنا چکے ہیں،عوامی سطح پر شدت پسندسوچ کے تدارک کے لئے نصاب کی تشکیل نو بھی ضروری ہے۔
اس آرٹیکل میں اگر برا نه منایا جائے تو انڈین اجینڈا آگے بڑهانے کا تاثر ملتا هے.ایسی تحریریں لکهنے والے یه کبهی نه بهولیں که وه اپنے حسین وجمیل لفظوں اور جملوں کے استعمال سے اپنے دل کے اندر چهپے جذبات کو بهی هم سے چهپا سکتے هیں.جب کوئی بهی انسان بات کرتا هے تو اس کے چهرے کے تاثر سے اسکی بات کی حقیقت کا پته چل جاتا هے اور اسی طرح کسی کی تحریر میں بهی اسکے لهجے زبان اس کے دل کے چهپے جذبات کی چغلی کها دیتی هے.
اس موصوف کو شدت پسندی کی برائی تو نظر آئی مگر ستاسٹه سال سے ان کرپٹ سیاستدانوں،ججوں،
جرنیلوں اور سب سے بڑه کر جرنلسٹوں کی انتها پسندی اور کرپشن نظر نهیں آئی.اس موصوف کو بم دهماکوں میں مرتے بے گناه تو نظر آئے جو یقیناََ شهادت کا درجه پاکر همیشه همیشه کے لیے امن وامان کی وادیوں میں اتر آگئے اور همیشه کے لیے کامیاب هو گئے.مگر اسموصوف کو اجتمائی خودکشیاں نظر نهیں آتیں جن بیچارے لوگوں کی ان کرپٹ مافیا کے دنیا بهی جهنم بنائے رکهی اور آخرت کو بهی جهنم بنا دیا.
رهی بات اسکی اسلام پسندوں سے اتنی بیزاری کی تو موصوف کو اتنا علم هونا چاهیے که یه ملک همارے آباواجداد نے اسلام کے لیے بنایا تها اگر موصوف کو یه پسند نهیں تو جهاں چاهیں هجرت فرما لیں همیں کوئی اعتراض نهیں هو گا کیوں که اسلام میں کوئی زبردستی نهیں.
اگر موصوف کو ان کے اسلام پر اعتراض هے تو موصوف ذرا اپنا اسلام تو پیش کریں شاید همیں ان کا اسلام پسند آجائے.
کتنے افسوس کی بات هے که جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تها اس میں شروع سے هی ظلم و جبر کا نظام رائج هے اور ان جیسے نامنهاد قلم کاروں کی قلموں میں ایسی سیاهی نهیں که جو یه لکه سکے که یه ملک هم نے طاغوتی نظام کے لیے تو حاصل نهیں کیا تها بلکه اسلام کے لیے حاصل کیا تها.اگر کوئی اس میں اسلام نافذ کرتا تو یه نوبت نه آتی.هماری قوم تو اتنی اچهی ،سادا اور بهولی هے اس کا اندازه اس بات سے لگائیں که مرحوم ضیا الحق نے صرف اسلام کے نام پر هی تقریباََ سال حکمرانی کی اگر کوئی صحیح معنوں میں اسلام نافذ کر دیتا تو آپ سمجه سکتے هیں.
همارے مسائل کا حل اس میں نهیں که هم ایک دوسرے پر تنقید کریں اور خود هاته پر هاته دهرے بیٹهے رهیں.بلکه همارے مسائل کا حل اس میں هے که هم اپنے گناهوں سے توبه تائب هو کر اپنی اپنی جگه پر خدمتِ اسلام میں جُٹ جائیں شاید الله تعالی هم پر رحم فرما دے.
millitary opration should not just focus on media values and specific targets ,rather it must work deep root to sort out organisations that work anti state,like there must be transperency and accountability on the agendas of NGOs ,social services , enterpreneour firms and even some multilateral corporations along with religious madrasas and islamic working offices all over the country.on the other hand , state must now focus on development of urbanization ,we r living in global era and especially its 2015 (21st century is 15 years old now .it is mature), removing of slums living,idps and other migrated people from cities like islamabad must not b part of govt policy.these strategies can lead to the emergence of elements within society.finally, if all these thing happens then state itself inviting non state organisations that will ultimately snach and robber the people of its territory at any cost.