"لطیف جوہر 21 روز سے بھوک ہڑتال پر ہے، کیوں کہ نعمان بلوچ لاپتہ ہے، ہم اس سے اظہار یکجہتی کے لئے بھوک ہڑتال پر ہیں” لاہور پریس کلب کے سامنے بدھ 14 مئی کو بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بلوچ طالب علم نے نام نہ بتانے کی شرط پر لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ بھوک ہڑتال کیمپ میں شریک طلبہ ۱۸ مارچ کو کوئٹہ سے اغوا ہونے والے بلوچ طلبہ رہنما زاہد بلوچ اور لیاری شرفا کمیٹی کے چیرمین لعل محمد بلوچ کے بیٹے نعمان بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین نے 15 ماہ سے لاپتہ نعمان بلوچ کے حق میں کراچی پریس کلب کے سامنے تامرگ بھوک ہڑتال کرنے والے لطیف جوہر سے اظہار یکجہتی کے لئے اس احتجاجی کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔
ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکاربلوچوں کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شریک لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں کے بلوچ طلبہ خوف زدہ تھے۔”اگر کوئی آواز اٹھائے تو اس کی لاش ملتی ہے یا وہ غائب ہو جاتا ہے، کچھ انتشار پسندوں کی وجہ سے پورے بلوچستان کی جان کو خطرہ رہتاہ ہے۔”مظاہرے میں شریک پنجاب یونیورسٹی کے ایک بلوچ طالب علم نے لالٹین سے بات کرتے ہوئے کہا۔” ہمیں جواب دیا جائے کہ اگر پاکستان ایک جمہوری حکومت ہے تو بلوچوں کی جمہوری جدوجہد پران کی جان کو خطرہ کیوں ہے۔ ہمارے صوبے میں نہ گیس ہے نہ پانی، کھانے کو روٹی تک نہیں ملتی ان حالات میں انسان باغی نہیں بنے گا تو اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔”
"بلوچ روز لاپتہ ہوتے ہیں، مرتے ہیں اس لئے کوئی خبر نہیں لگاتا”
مظاہرے میں شریک طلبہ ذرائع ابلاغ سے بھی ناراض تھے۔ کیمپ میں صبح سے شریک ایک نوجوان کا کہنا تھا۔”ماما قدیر اور لطیف جوہر کی کوئی بات نہیں کرتا۔ بلوچ روز ہی تو مرتے ہیں کہیں نہ کہیں سے لاشیں ملتی رہتی ہیں اس لئے اب کوئی ہماری بات نہیں کرتا، سب معمول کی بات بن گیا ہے۔”
میڈیا کوریج نہ ہونے کے باعث بلوچ طلبہ کے خیال میں پاکستان کے باقی صوبوں کے لوگ بلوچوں کے مسائل اور سیاسی جدوجہد سے ناواقف ہیں۔”پاکستان کے عوام غلط فہمی کا شکار ہیں کہ بلوچ علیحدہ ملک کا مطالبہ کرتے ہیں،یا ایران کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے ۔”
بلوچی سٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ احساسِ محرومی اور ناانصافی کی وجہ سے بلوچ بغاوت کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ مظاہرین نے پاکستانی حکومت اور اقوامِ متحدہ سے لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی اوربلوچ نسل کشی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکاربلوچوں کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شریک لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں کے بلوچ طلبہ خوف زدہ تھے۔”اگر کوئی آواز اٹھائے تو اس کی لاش ملتی ہے یا وہ غائب ہو جاتا ہے، کچھ انتشار پسندوں کی وجہ سے پورے بلوچستان کی جان کو خطرہ رہتاہ ہے۔”مظاہرے میں شریک پنجاب یونیورسٹی کے ایک بلوچ طالب علم نے لالٹین سے بات کرتے ہوئے کہا۔” ہمیں جواب دیا جائے کہ اگر پاکستان ایک جمہوری حکومت ہے تو بلوچوں کی جمہوری جدوجہد پران کی جان کو خطرہ کیوں ہے۔ ہمارے صوبے میں نہ گیس ہے نہ پانی، کھانے کو روٹی تک نہیں ملتی ان حالات میں انسان باغی نہیں بنے گا تو اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔”
"بلوچ روز لاپتہ ہوتے ہیں، مرتے ہیں اس لئے کوئی خبر نہیں لگاتا”
مظاہرے میں شریک طلبہ ذرائع ابلاغ سے بھی ناراض تھے۔ کیمپ میں صبح سے شریک ایک نوجوان کا کہنا تھا۔”ماما قدیر اور لطیف جوہر کی کوئی بات نہیں کرتا۔ بلوچ روز ہی تو مرتے ہیں کہیں نہ کہیں سے لاشیں ملتی رہتی ہیں اس لئے اب کوئی ہماری بات نہیں کرتا، سب معمول کی بات بن گیا ہے۔”
میڈیا کوریج نہ ہونے کے باعث بلوچ طلبہ کے خیال میں پاکستان کے باقی صوبوں کے لوگ بلوچوں کے مسائل اور سیاسی جدوجہد سے ناواقف ہیں۔”پاکستان کے عوام غلط فہمی کا شکار ہیں کہ بلوچ علیحدہ ملک کا مطالبہ کرتے ہیں،یا ایران کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے ۔”
بلوچی سٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ احساسِ محرومی اور ناانصافی کی وجہ سے بلوچ بغاوت کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ مظاہرین نے پاکستانی حکومت اور اقوامِ متحدہ سے لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی اوربلوچ نسل کشی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
Leave a Reply