جسم میں جب جان نہ رہے،ہمت ساتھ چھوڑنے لگے جب جوانی ماضی کی حسین یاد بن کر بار بار ستائے،سانس لینے سے کئی درد جسم میں ابھر آئیں،چلنا دشوار ہو زندہ رہنا جب کسی اذیت سے کم نہ ہو۔۔۔۔بڑھاپا شائد زندگی کا وہ حصہ ہے کہ جب اپنےجنہیں کبھی اپنے ہاتھوں سے پالا ہوتا ہے وہ بھی رخ موڑ لیتے ہیں۔دوست کچھ اس جہاں کو چھوڑ گئے اور کچھ ایسی ہی کسمپرسی کی حالت میں نجانے کہاں ٹھوکریں کھا رہے ہوں۔دنیااس قدر بدل جاتی ہے کہ کچھ بھی تو اپنا نہیں لگتا۔بھوک،بیماری ،درد اور اس سے بڑھ کر اپنوں کی بے اعتنائیاں ،یہ زندگی ہے کہ جس میں موت دبوچنے سے پہلے بہت عرصہ ساتھ ساتھ چلتی ہے ایک خوف بن کر، ایک اذیت بن کر ۔
بڑھاپا ویسےتو کوئی عذاب نہیں مگر سماج اور معیشت جس ڈگر اور بنت پے ہیں وہاں ضعیف افراد کو بوجھ سمجھناعام ہے۔ معمر اور ضعیف افرادکے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں۔یہ ظلم شائد اتنے ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا ہے اور اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ظلم لگتا ہی نہیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس ظلم کی وجہ اپنے جگر کے ٹکڑے ہی ہوتے ہیں جوا نجانے میں ایسے رویوں کی آبیاری کر تے ہیں جن کابہت جلد وہ خود شکار ہونے والے ہیں۔یہ ظلم وہ کر رہے ہیں جنہیں ان کے بزرگوں نے اپنی خواہشات کا خراج دے کر پالا ہوتا ہے۔ مگر ان پرجوانی اور قوت کا اس قدر نشہ ہے کہ انہیں اپنے ضعیف ما ں باپ دکھائی ہی نہیں دیتے۔
عام طور پہ سماج میں بوڑھے شخص کی صحت اور زندگی کو بچوں اور نوجوانوں کی صحت اور زندگی سے کم تر اہمیت دی جاتی ہے۔
بڑھاپا آج سماج میں ایک ایسا روگ بن گیا ہے جہاں زندگی ضعیف لوگوں کو ایک پل گلے سے لگاتی ہے تو اگلے پل سوتیلی ماں کی طرح دھتکارکے جھٹک دیتی ہے۔عمر کےاس حصے میں انہیں صحت کے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بڑھاپے میں صحت کے مسائل فطری امر ہیں مگر اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ بزرگوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیا جائے۔عام طور پہ سماج میں بوڑھے شخص کی صحت اور زندگی کو بچوں اور نوجوانوں کی صحت اور زندگی سے کم تر اہمیت دی جاتی ہے۔ان کی خراب صحت کو فطری عمل سمجھ کر یا موت کی طرف ان کی پیش قدی سمجھ کر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے تنہائی سے بھری ان کی زندگی میں کانٹوں کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔اسپتالوں اور مراکز صحت کا ماحول بھی ان کے لیےآرام دہ نہیں ہوتا۔اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں سہولیا ت کا فقدان ہوتا ہے ،ایسے میں معمر لوگوں کے لیے خصوصی سہولیات کا خواب تو شائد کوئی دیوانہ ہی دیکھ سکے،اور خواب بھی وہ جس کی تعبیر کی کوئی سبیل بظاہر نظرنہیں آتی۔
صحت کے ساتھ ساتھ معاشی طور پہ بھی ان کا انحصار کسی سہارے پرہوتا ہے۔ موجودہ معاشی نظام تو انہیں بھی تڑپا تڑپا کے زندہ رکھے ہوئے ہے جو اس معیشت کا فعال حصہ ہیں تو ایسے میں معمر لوگ جو کام نہیں کر سکتے ان کے لیے یہ معیشت کیا خاک سہارا بنے گی۔ بڑھاپے میں ریٹائرمنٹ کے بعد جسمانی کم زوری اور صحت کی آنکھ مچولیاں کام کی اجازت نہیں دیتیں ایسے میں سرکاری ملازمین کو بس ایک پنشن کا سہارا ہی میسر ہوتا ہے۔ غیر روایتی معیشت میں کام کرنے والوں کو تو سالوں سال کام کرنے کے بعد پنشن یا گریجویٹی کاآسرا بھی نہیں ہوتا ۔ یہ ظلم ہم اپنی آنکھوں سےہر روز دیکھتے ہیں کہ وہ بے بسی کے عالم میں سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگنےپرمجبور ہیں۔جس سماج میں زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے معمر لوگوں کو بھیک مانگنی پڑے اسے مہذب کہتے ہوئے میری زبان لڑکھڑائے نہ تو کیا کرے؟
بڑھاپا شائد فطرت کے سب سے بڑے امتحانوں میں سے ایک امتحان ہے مگر افسوس کہ بہت ہی کم لوگ اس آزمائش سے گزرنے والوں کا سہارا بنتے ہیں۔
حکومتوں کی ترجیحات میں ایسے کمزور طبقات کہاں؟ان کو تو میٹرو اور اس جیسے بڑے بڑے منصوبوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔معاشرے میں بھی ان کی بہتری کے لئے کوئی منظم تحریک نہیں پائی جاتی،انفرادی طور پر بہرحال کچھ لوگ کام کر رہے ہیں جو یقیناَقابل ستائش ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کا رجحان بھی اس طرف انتہائی کم ہے۔ ہمارے ہاں معمر افراد کے لیے اقامت گاہیں بنانے کا رحجان بھی نہیں بلکہ اس حوالے سے معاشرے میں طرح طرح کے مغالطے پائے جاتے ہیں۔عام طور طور پر مغربی ممالک میں بوڑھوں کی اقامت گاہوں کے رجحانات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے اور بہت طنزیہ انداز میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ تو اپنے بزرگوں کو ‘اولڈہومز ‘میں بھجوادیتے ہیں۔یقیناَ وہ لوگ اپنے معمر لوگوں کو اولڈ ہومز میں داخل کروادیتے ہیں مگر ہماری طرح ان کو بھیک مانگنے کے لیے سڑکوں اور چوراہوں پر نہیں چھوڑتے۔
یاد رکھیں یہ لرزتی اور لڑکھڑاتی زندگیاں جنہوں نے ایک نسل کو پروان چڑھایا منتظر ہیں کہ آج کی نسل ان کا سہارا بنے۔یہ ان پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہےکہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے،ان کہ ناز اٹھائے جائیں،ان کی محنت کوسراہا جائے، اور انہیں بھرپور زندگی کا احساس دلایا جائے ۔بڑھاپا شائد فطرت کے سب سے بڑے امتحانوں میں سے ایک امتحان ہے مگر افسوس کہ بہت ہی کم لوگ اس آزمائش سے گزرنے والوں کا سہارا بنتے ہیں۔

Leave a Reply