مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور پچھلی صدی کی نامور شخصیات میں سے شاید ہی کوئی تھامس ایڈورڈ لارنس (لارنس آف عریبیہ) سے زیادہ پراسرار شہرت کا حامل ہو۔ لارنس آف عریبیہ کی حقیقی زندگی سے متعلق عمومی آگہی نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی وجہ ہے کہ لارنس کی شخصیت سے متعلق ڈیوڈ لین کی فلم کے سوا معلومات حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ عوامی سطح پر دستیاب نہیں۔
آثار قدیمہ ، لسانیات اورفنون لطیفہ کا ماہر، شاعر، ادیب اور جنگجو تھامس ایڈورڈ لارنس 16 اگست 1888کو سر تھامس چیپ مین کے ہاں انگلستان میں پیدا ہوا۔ لارنس کی ماں سارہ اس کے باپ کی قانونی بیوی نہیں تھی۔ گریجویشن کے بعد آثارِ قدیمہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لئے اسے مصر اور مشرق وسطیٰ میں وقت گزارنا پڑا۔ اپنے تحقیقی مقالہ "صلیبی جنگوں کے دوران قلعوں کا طرز تعمیر” کے لئے تحقیق کے دوران لارنس نے مسلم تاریخ ، عرب زبان و ادب اور عثمانی اور عرب سلطنتوں کی سیاسیات کا تفصیلی مطالعہ کیا۔
جنگ عظیم اول کے ابتدائی سالوں میں لارنس کو برطانوی فوج میں کمیشن ملا، سروس کے آغاز میں وہ جنرل آرچی بالڈ مرے کے ہیڈکوارٹر (قاہرہ)میں سٹاف افسر کے طور پر تعینات رہا، بعدازاں اسے ملٹری انٹیلی جنس کے عرب ڈیسک میں بھیج دیا گیا۔ عرب ڈیسک میں اس کی بنیادی ذمہ داری عرب قبائل کی سیاسی و عسکری صورتحال پر نظر رکھنا اور ترکوں کو جزیرہ عرب اور مشرقِ وسطیٰ میں توسیع سے روکنے کے لئے شہزادہ فیصل کو مشاورت فراہم کرنا تھی، لیکن جنگ ختم ہونے تک وسیع النظر اور تاریخ شناس نوجوان لارنس شہرت کی ان بلندیوں تک جا پہنچا جو اس جنگ میں شریک تجربہ کار ، عمر رسیدہ ، جغادری جرنیلوں کو بھی نصیب نہیں ہوئیں۔
کرنیل کے عہدے سے فوج چھوڑ کر سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہونے والا تھامس ایڈورڈ لارنس افکار کی دنیا کا ایسا باسی تھاجو جو متنازعہ ہونے کے باوجود بھی ایک وسیع النظردانشور اورمثالی سپاہی تھا۔
عرب ڈیسک میں کام کے دوران عرب ثقافت، زبان اور سیاست کے گہرے مطالعہ اور صحرا سے فطری لگاو کے بل بوتے پرلارنس نے عربوں میں قوم پرستی کا جذبہ ابھارااور انہیں جزیرہ عرب پر قابض ترکوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا۔ سیاسی سطح پر برطانوی مفادات کو فائدہ پہنچنے کے علاوہ لارنس کے ان اقدامات کی وجہ سےا س کا شمار جدید عرب سلطنتوں کے قیام کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے والے محسنوں میں بھی ہونے لگا۔عربوں کی اس حمایت کی وجہ اس کا یہ یقین تھا کہ "عرب عربوں کے لئے ہے۔”
1916میں قاہرہ ہیڈ کوارٹر کی اجازت کے بغیر برطانوی عسکری و مالی معاونت نہ ہونے کے باوجود بحیرہ احمر کی عسکری طور پر اہم ترک بندرگاہ "عقبہ”پر قبضہ لارنس کا پہلا بڑا کارنامہ تھا۔ لارنس اپنے خیمہ سے صرف 50 گھڑ سواروں کے ساتھ نکلا تھا اور عقبہ کے راستہ میں آنے والے عادہ ابو لے جیسے لالچی سرداروں اور منتشر عرب قبائل کو متحد کرنےکے بعد بندرگاہ پر قابض ہوا۔ قیادت ، دیگر اقوام کی نفسیات سے واقفیت اور ہم آہنگی کے اوصاف کے باعث ہی لارنس اس کم عمری میں عرب خطہ کی تاریخ بدلنے کے قابل ہوا۔قومیت اور عقیدہ سے قطع نظر لارن اپنے افکار تازہ اور عملیت پسندی کے باعث ہر دور کے نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہے۔
لارنس آف عریبیہ کی شاہ فیصل کے ساتھ ایک یادگار تصویر

لارنس آف عریبیہ کی شاہ فیصل کے ساتھ ایک یادگار تصویر

عقبہ کی تاریخ ساز فتح کے بعد لارنس نے عرب قبائیلیوں پر مشتمل سپاہ "عرب لیجن "(Arab Legion) کھڑی کی اور1918میں دمشق کی فتح تک مدینہ اور حجاز کے علاقوں میں ترک عسکری قوت کم کرنے کے لئے مسلسل گوریلا کاروائیاں کیں۔عرب لیجن کی مدد سے ترکی کو حجاز سے ملانے والی ریلوے لائن تباہ کرکےلارنس نے ترکوں کی انصرامی (Logistics)امداد کا شیرازہ بکھیر دیا۔گوریلا کاروائیوں کے دوران بارود کے استعمال کی وجہ سے اسے "شیخ ڈائنامائیٹ ” کہا جانے لگا۔
عربوں کے ساتھ مل کر گوریلا کاروائیوں کے زمانے میں” درآ”کے مقام پر جاسوسی کے ایک مشن کے دوران لارنس ترکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ گرفتاری کے بعد اسےشدید جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعدازاں مردہ سمجھ کر پھینک دیا گیا جہاںشریف مکہ کے بیٹے نے اس کی جان بچائی۔ اس واقعہ نے لارنس کو بری طرح متاثر کیا،گو کہ وہ ہمیشہ سے متلون مزاج تھا مگر اس واقعہ کے بعد وہ جذباتی عدم توازن کا اس حد تک شکار ہواکہ دمشق کی فتح کے بعداس نے عرب اور انگریز قیادت کے اختلافات کی وجہ سے واپس برطانیہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔
قاہرہ ہیڈ کوارٹر کی اجازت کے بغیر برطانوی عسکری و مالی معاونت نہ ہونے کے باوجود بحیرہ احمر کی عسکری طور پر اہم ترک بندرگاہ "عقبہ”پر قبضہ لارنس کا پہلا بڑا کارنامہ تھا۔ لارنس اپنے خیمہ سے صرف 50 گھڑ سواروں کے ساتھ نکلا تھا اور عقبہ کے راستہ میں آنے والے عادہ ابو لے جیسے لالچی سرداروں اور منتشر عرب قبائل کو متحد کرنےکے بعد بندرگاہ پر قابض ہوا۔
جنگ عظیم اول کے اختتام پر معاہدہ ورسیلز کی توہین آمیز شرائط پر دلبرداشتہ لارنس آف عریبیہ نے کرنل کے عہدے سے فوج چھوڑ دی اورکچھ عرصہ گم نامی اختیار کر لی،لیکن تب تک اس کی عسکری کاروائیوں کی بدولت عرب علاقے ترک تسلط سے آزاد ہو چکے تھے اور لارنس آف عریبیہ کا نام تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔
جزیرہ عرب کی آزادی پر لارنس کی مہم جوئی اختتام کو نہیں پہنچی بلکہ اس نے جان ہیوم راس کے نام سے فضائیہ میں سپاہی کے طور پرشمولیت اختیار کرلی۔ڈرگ روڈ(موجودہ فیصل بیس) اور ماڑی پور(موجودہ مسرور بیس) کراچی اور میران شاہ کے فضائی اڈوں پر تعیناتی کے دوران اس نے طیاروں کی ساخت اور ماڈل کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور چند تحقیقی و تخلیقی مقالے لکھے، لیکن فضائی حکام کی نظروں میں آنے کے بعد اسے برخاست کر دیا گیا۔وطن واپسی پر اس نے سرکاری طور پر اپنے دوست جارج برنارڈ شا سے متاثر ہو کر تھامس ایڈورڈ شارکا نام اختیار کیا اور فوجی رسالہ میں سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہو گیا۔1935میں فوج چھوڑنے کے صرف 2 ماہ بعد لارنس اپنے موٹر سائیکل سواری کے شوق کے ہاتھوں 19 مئی 1935 کو وفات پا گیا۔موٹر سائیکل سواروں کے لئے ہیلمٹ پہننے کی تجویزبھی لارنس کے حادثہ کے بعد اس کے معالج کی طرف سے دی گئی، کیوں کہ اس کی موت سر پر چوٹ آنے سے ہوئی۔
لارنس پراسرار سیمابی شخصیت کا حامل تھا اور فوج میں کسی مقام پر بھی موزوں نہیں تھا۔فوجی قواعد اور نظم و ضبط کبھی اس کی طبعیت کو راس نہیں آئے تاہم فنِ حرب اور جنگی تاریخ پر اس کا مطالعہ وسیع تھا۔ ذاتی زندگی میں لارنس ہم جنس پرست تھا اور کئی نوعمرعرب لڑکوں سے اس کی دوستی رہی،Seven Pillars of Wisdom میں ایک نظم بھی اس کے دوست سلیم احمد کے نام منسوب ہے ۔عرب علاقوں میں اپنے ہتھیار سے شاذ ہی کسی پر گولی چلانے والے تھامس لارنس کی کتاب “Seven Pillars of Wisdom”گوریلاجنگ کے لئے ایک معتبر صحیفہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ہومر کی Iliad کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔
لارنس کی شخصیت مسلم ممالک میں جاسوسی اور عربوں میں قومیت کا شعور بیدار کرنے اور انہیں ترکوں سے لڑانے کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں متنازعہ رہی ہے، لیکن تاریخ پر اس کے اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ کرنیل کے عہدے سے فوج چھوڑ کر سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہونے والا تھامس ایڈورڈ لارنس افکار کی دنیا کا ایسا باسی تھاجو جو متنازعہ ہونے کے باوجود بھی ایک وسیع النظردانشور اورمثالی سپاہی تھا۔

3 Responses

  1. محمد اسحٰق

    جناب، مانا کہ لارنس آف عریبیہ کسی لحاظ سے بہت معتبر ہو گا، لیکن کیا ہمارے اپنے ہیروز ختم ہو گئے ہیں؟

    خصوصاَ اس دور میں جب کہ ہماری نوجوان نسل ہماری تاریخ سے نابلد ہے، یا پھر ہم اپنے ہیروز کو بہت سستا سمجھنا شروع ہو گئے ہیں، کیا بہتر نہیں ہو گا کہ اپنے ہیروز پر توجہ دی جائے؟

    آپ نے خود لکھا کہ لارنس آف عریبیہ ہم جِنس پرست تھا، کیا ایسے کرداروں کو ہم کسی بھی صورت میں اپنے لیے مشعلِ راہ سمجھ سکتے ہیں؟ ایسا شخص کبھی بھی ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس محمد بِن قاسم، طارق بن زیاد، ٹیپو سلطان کی کمی نہیں۔

    جواب دیں
    • ولی خان دومڑ

      واہ کیا مثال دی ہے آپ نے ہمارے ہیروز کی ! طارق بن زیاد محمد بن قاسم ، لیکن آپ بہت دور نکل گئے ہیں ہمارے آج کے ہیروز بھی تو ہیں اسمہ بن لادن ، حافظ سعید خلیفہ امت البغدادی اجلم قصاب اب کس کس ہیرو کانام گواؤں آپ کو ؟ ہمیں ان کو بھی نہیں بھولنا چائیے

      جواب دیں
  2. ولی خان دومڑ

    کہتے ہیں کہ ایک عرصے تک لارنس میران شاہ ( وزیرستان ) میں پیرکی حثییت سے رہے اور وہاں کے لوگ جناب کی برکات سے فیض یاب ہوتے رہے

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: