زکی نقوی کا ناولٹ ‘قینچی چپل’ نظر سے گُزرا۔ چونکہ موصوف لکھاری میرے دیرینہ دوست اور کرم فرما ہیں لہذا انہیں ایک مصنف سے زیادہ ایک دوست کے طور پر دیکھتے رہنے میں یہ غفلت ہوئی کہ اُن کی یہ تحریر اتنی دیر سے پڑھنے کی توفیق ہوئی ورنہ صرفِ نظر ہوتی رہی۔
یہ ناولٹ مارچ 2014 میں مکمل ہوا اور ۲۰۱۶ میں مکمل اشاعت کے بعد مثبت اور منفی، دونو ں طرح کی تنقید کی زد میں بھی آیا اور ناقدین کا حلقہ بھی ‘لالٹین’ جریدے اور سہ ماہی ‘آج’ کے قارئین تک محدود تھا جس وجہ سے ہم، پاپولر فکشن پڑھنے والوں کی توجہ کے دائرے سے باہر رہا تاہم یہ اُردو کے عسکری ادب میں دو ایک وجوہات کی بنا پر قابلِ ذکر اضافہ ہے ۔ ایک مختصر ریویو، جو کہ زکی صاحب ہی کی اُردو دانی سے مددلے کر ہم نے ‘موزوں’ کرنے کی کوشش کی ہے، حاضرِ خدمت ہے۔

ہماری قومی تاریخ کی تمام جنگوں پر اُردو میں ادب پارے تخلیق ہوئے ہیں لیکن حالیہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ پر بہت کم ادب تخلیق ہوا جس کی وجوہ ہمارا موضوع نہیں ؛ یہ کہانی اسی جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔زکی نقوی نے اس جنگ کے ایک اہم موضوع کی طرف اشارا کیا ہے، اور وہ ہے ہماری صفوں میں مذہبی بنیاد پرستی کی طرف مائل لوگوں کا ہماری پوری ‘وار ایفرٹ’ پر اثر۔ زکی نقوی نے ایک اہم موضوع کا انتخاب کیا جو کہ سال ۲۰۱۲۔۲۰۱۳ کے سالوں میں اب سے ذیادہ توجہ طلب تھا ۔ اس کوشش میں اُنہوں نے کہانی کے تانے بانوں میں جہاں کچھ دلکش پھول ٹانکے ، وہیں کچھ مقاماتِ آہ وفغاں بھی چھوڑ دیئے۔ کہانی کا آغاز، اُتار چڑھاو اور اختتام اپنے اندر بھرپور اور دلچسپ سا ایک ڈرامائی پن لئے ہوئے ہے جو کہ فوجی فکشن کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے اور قاری کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے بلکہ چند مقامات پر تو مغربی فوجی ادب کی سطح کو پہنچتا ہے۔ لیکن زکی صاحب، ٹام کلینسی سے ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی بننے میں دیر نہیں کرتے۔ ڈائیلاگ میں وہ ڈپٹی صاحب کی طرح اپنے افکار کی تبلیغ اس روانی سے شروع کر دیتے ہیں کہ اپنے کرداروں کو اُسی میں بہا دیتے ہیں جس سے کہانی زمینی حقائق سے کٹ جاتی ہے! وارنٹ افسران اپنے سگے بھائیوں کو حقیقی زندگی میں شائد ہی ایسے بھاشن دیتے ہوں، اور اگر دیں بھی تو کہانی کے کردار وارنٹ افسر احسان کے خیالات کی بلندی، وسعتِ مطالعہ اور اندازِ بیان تو ایک حقیقی زندگی کے وارنٹ افسر (صوبیدار) سے کہیں اوپر کے درجےکا ہے۔اگرچہ ان خیالات میں ‘کنفیوژن’ کا عنصر مجھے تو واضح نظر آیا ہے جو کہ مرکزی خیال کو کمزور سپورٹ دیتا ہے۔ زکی صاحب کے یہ خیالات ہمارے فوجی اور سویلین، کسی بیانئے سے مَیچ نہیں کرتے اور زمینی حقائق سے چند فُٹ اے جی ایل(Above Ground Level)پہ اُٹھے ہوئے ہیں۔ مرکزی خیال دلچسپ ، قابلِ توجہ اور ٹھوس ہے ۔ زکی نقوی نے ہماری بحری فوج میں مذہبی بنیاد پرست عناصر کے نفوذ کے حوالے سے اپنے جن اندیشوں کو مرکزی خیال بنایا ، وہ ایک حد تک حقیقی خدشہ تھا جو کہ آنے والے دنوں میں ایک چیلنج بن کے بھی سامنے آیا لیکن جب تک یہ تحریر شائع ہوئی، تب تک اربابِ حل و عقد اس کاکہیں بہتر ادراک اور تدارک کا آغازبھی کر چکے تھے، اگرچہ اس سے تحریر کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔۲۰۱۴ میں ہونے والے ایک واقعے نے اس حوالے سے بحریہ کو جھنجھوڑ دیا جس میں اگرچہ اپنے لوگوں کی پیشہ ورانہ مستعدی کے طفیل قدرت نے ہمیں ایک بڑی رُسوائی اور نقصان سے بچا لیا لیکن اس میں ملوث نو عمر افسران کی برین واشنگ میں اسی مذہبی ایلیمنٹ کا ہاتھ تھا۔

یہاں ایک تاثر کی نفی کر دینا بھی ضروری ہے جو سویلین قاری کے ذہن میں ضرور بیٹھے گا؛ بحری فوج اس جنگ میں شامل ہوئی تو کاونٹر انسرجنسی کے تقریباً صفر تجربے کے ساتھ تھی، لہٰذا جہاں بحری (اور فضائی) فوج کے بتدریج ارتقا کے عوامل آرمی سے کہیں مختلف ہیں وہاں مذہبی بنیاد پرست عناصر کا مسئلہ اور اس کے تدارک کے لئے کئے گئے آرمی کے (بری فوج جسے پاکستان کی تینوں مسلح افواج کا اصل نمائیندہ متصور کی جاتا ہے) اقدامات کا کیف و کم بھی بحریہ سے مختلف (اور بہتر) ہے۔ زکی نقوی نے اپنے اس اندیشے کو پوری فوج پر منطبق کر کے زیادتی کی ہے۔ کاش وہ اس موضوع پر تھوڑا گہرائی سے تحقیق کر لیتے کہ آرمی نے اپنی غلطیوں کی درستگی کرکے جنگ کو ایک خالصتاً پیشہ ورانہ سرگرمی بنانے اور اپنے اذہان کو دیگر آلائشوں سے پاک کرنے کی کتنی سرتوڑ کوششیں کی ہیں اور وہ کس حد تک رنگ لا چکی ہیں۔ بحریہ اور فضائیہ کا ارتقا بھی اسی سے وابستہ ہے۔

چند تکنیکی غلطیاں جو کہ سویلین قاری تو شائد نظر انداز کر دیں لیکن ایک عسکری ادب پارے کے حُسن پر منفی فرق ڈالنے والی ہوتی ہیں، ان میں کچھ سروس پروسیجر اور فوجی کلچر سے متعلقہ ‘محاکات نگاری’ کی غلطیاں ہیں۔ زکی صاحب کے کرداروں کی زبان میں وہ چٹخارا ہے جو فوجیوں کی غمومی گفتگو میں ہوتا ہے (اور ہم نے اس خوب لُطف اُٹھایا) لیکن حفظِ مراتب کا جو نظام فوجی کلچر میں ہے، اُس کو نظر انداز کرنے کا رجحان کچھ جگہوں پر واضح نظر آرہا ہے (مثلاً فوجی افسر کبھی دوسرے افسر کا ذکر کرتے ہوئے اس کے نام کے ساتھ ‘صاحب’ کا لاحقہ نہیں لگاتا)۔ اس کی وجہ شائد یہی ہو کہ فوج میں افسر اور سپاہی کی مَیس کی زندگیوں میں بہت فرق ہے۔ زکی نقوی نے اپنی باوردی زندگی دیگر عہدیداران (Other Ranks) میں گزاری جس وجہ سے یہ کمی سمجھ میں آتی ہے۔ اسی طرح جرنیل کے بنگلے پہ ملاقات اور ہیرو کے فوج سے نکالے جانے کے مراحل بھی حقیقی فوجی کلچر سے قدرے بعید ہیں جن کی گنجائش ڈراموں اور ‘‘میجر صاحب’’ جیسی فلموں میں ہی نکالی جا سکتی ہے۔اگرچہ ایسے مراحل اُنہوں نے کسی بھی سویلین لکھاری سے بہتر نباہے ہیں۔

ایک ‘‘بدعت’’ جو ٹالسٹائی اور پوشکن وغیرہ جیسے بڑے لکھاریوں کے ہاں بھی ہے لیکن وہاں بڑی خوبصورتی سے برتی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ زکی نقوی کے ہاں اپنی ہی فوجی زندگی کے تجربوں پر کہانی کی بنیاد رکھنے کا رجحان شدت پسندانہ حد تک ہے۔ موصوف اپنی فوجی زندگی میں جس یونٹ میں رہے، حرفِ مکرر کی طرح سمجھے جاتے تھے جس کی وجہ اسی کہانی کے کردار ایڈمرل سعیداللہ کے بقول یہ تھی کہ وہ جٹ لینڈ اور مِڈوے کی لڑائیوں والی نیوی کے رومانس میں رہتے تھے اور اسی وجہ سے مِس فِٹ بھی رہے۔ پاک نیوی کا حقیقی کلچر ان کے رومان کے بر عکس مشرقی اقدار پر ہے (اسلامی اقدار پر نہیں!) جہاں نہ ہی عرشے پر باوردی (یا بلاوردی) حسیناوں کے پہلو میں بیٹھ کر شراب پینے کی گنجائش ہے، نہ یہ کسی جنگلاتی کیمپ کی تنہائی میں میرین کے جوانوں کے ساتھ آگ کے الاو کے گرد مادرزاد ننگا ہو کر ناچنے کی گنجائش ہے۔ اور میرے دوست! یہ حقیقت تسلیم کر لینے میں کوئی بُرائی نہیں! لکھاری کی ذات سے اس کے فن پارے کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور یہ ناولٹ اپنے لکھاری کی ذات سے بُری طرح متاثر ہے۔

ان تمام باتوں کے ساتھ یہ تحریر ایک پڑھے جانے لائق کہانی ہے جس سے بہت سے سویلین اور فوجی قارئین اور لکھاریوں کو کچھ سیکھنے کا موقع ضرور ملے گا کیونکہ اس تحریر کا انداز ہمارے کئی عسکری داستان نگاروں (مثلاً عنائیت اللہ وغیرہ) سے ذیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔اپنے اداروں کی بہتری کے لئے اُن پر جو تنقید کی جاتی ہے، وہ ان اداروں سے قریبی تعلق، ان کے کلچر کو سمھجنے اور ان کو بخوبی جاننے کی متقاضی ہے؛یہ تحریر اُس تنقید کا شاہکار تو نہیں لیکن افسانوی ادب کی صورت میں اس کا نقطہ آغاز ضرور ہے۔

Leave a Reply