Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

aiwan-iqbal

قومی معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ شدت پسندانہ تلفی کے خطرے سے دوچار ہے؛ سنجیدہ حلقوں کی تشویش

اسد فاطمی

اسد فاطمی

16 اپریل, 2024

زشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے نظریاتی مباحثے کا سب سے اہم پہلو ملک میں تاریخ کی تعلیم، تشریح اور ترویج کا معاملہ رہا ہے۔ تاریخ کا ایک مکتب مذہبی قومی شناخت کی بنیاد پر جداگانہ تاریخ وضع کرنے کا حامی ہے، جبکہ کچھ مکاتب آزادانہ تحقیق کی بنیاد پر تاریخ کو ایک باقاعدہ سماجی علم کا رتبہ دلانے پر زور دیتے ہیں۔ تاریخ کی ان متضاد تشریحات پر مبنی کئی دہائیوں سے تحقیق اور مباحثوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جن میں ملک کے قیام کے محرکات، واقعات، ملک کی نظریاتی حدود کا تعین اور ملک اور معاشرے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں تاریخ کی تفہیم نو وغیرہ کے قضیے اہم ترین سوال رہے ہیں۔
ادارۂ مطالعہ تاریخ کئی سالوں سے پاکستان کی تاریخ کے گمشدہ گوشوں کی کھوج، حالات حاضرہ کی دستاویز بندی اور ماضی کی روشنی میں حال اور مستقبل کی وضاحت پر نہایت گرانقدر علمی اضافے کر رہا ہے۔ بارہ جلدوں پر مشتمل زاہد چوہدری اور حسن جعفر زیدی کی مرتب کی گئی قومی تاریخ “پاکستان کی سیاسی تاریخ” کی اشاعت کو اس ادارہ کی اہم ترین علمی کامیابی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
اتوار 18 مئی کو ایوان اقبال لاہور میں ادارۂ مطالعۂ تاریخ نے “پاکستان کے سیاسی مسائل اور موجودہ صورتحال” کے عنوان سے ایک علمی سیمینار کا انعقاد کیا جس میں کتاب “پاکستان کی سیاسی تاریخ” کی بارہ جلدوں میں اخذ کیے گئے حقائق کی بنیاد پر دانشوروں، صحافیوں اور تاریخ کے اساتذہ نے اظہار رائے کیا اور مقالات پیش کیے۔ یہ سیمینار مختلف موضوعات پر محیط چار سیشنز پر مشتمل تھا۔
پہلے سیشن کا موضوع “پاکستان ایک روادار جمہوری ریاست یا ایک تنگ نظر آمرانہ مذہبی ریاست؟” تھا۔ سیشن کے ماڈریٹر سمیع اللہ ظفر تھے جبکہ اس کے مقالہ خوان ڈاکٹر وسیم احمد، خالد احمد، ڈاکٹر یعقوب بنگش اور حسین مجروح تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے مقالات میں اس بات پر دلائل پیش کیے کہ پاکستان کے قیام کے محرکات سیاسی اور اقتصادی تھے، اور اس کا مقصد برصغیر کے مسلم اکثریتی خطے کو پسماندگی کی دلدل سے نکالنا تھا لیکن بعد میں شناخت کے مسائل کی وجہ سے پاکستانی ریاست اصل مقاصد سے ہٹ کر غیر جمہوری طریقوں پر آ گئی۔ دوسرا سیشن “صوبائی خودمختاری کی جدوجہد کا پس منظر اور آج کی صورتحال” تھا، جس کے ماڈریٹر ڈاکٹر یعقوب بنگش تھے۔ اس کے مقالہ نگار ڈاکٹر سید جعفر حسین کا کہنا تھا کہ صوبائی خودمختاری خطے کے لیے قیام پاکستان سے بہت پہلے کا مسئلہ رہا ہے لیکن یہ مسئلہ ملک کے قیام کے بعد بھی حل نہیں ہو سکا، لیکن ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے تجربے سے سبق سیکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ سندھ کی دانشور حمیدہ گھانگرو نے سندھ کی ثقافت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سندھی محب وطن لوگ ہیں۔ بلوچستان کے سیاسی رہنما مستی خان نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں نے سن 73ء کے آئین سے وفاداری کا حلف لیا تھا لیکن جلد ہی ان کی توقعات پر پانی پھیر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان کی تحریک بھی دراصل صوبائی خودمختاری کی تحریک تھی۔
تیسرا سیشن داخلی اسلامائزیشن کے حوالے سے تھا جس کا موضوع تھا “مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کا پس منظر اور آج کی مذہبی دہشت گردی کی صورت حال”۔ اس کی ماڈریٹر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ تھیں جبکہ مقررین میں ڈاکٹر مہدی حسن، وجاہت مسعود، سمیع اللہ ظفر، ڈاکٹر علی عثمان قاسمی اور محمد عامر رانا تھے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاسی لغت میں سیکولرازم کا مطلب لادینیت بتایا جاتا رہا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔ پاکستانی ریاست قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تاریخ کو اپنی ریاستی پالیسی کا حصہ بنانے کی بجائے اس کے وجود سے مکرتے ہوئے اس تاریخ خطاب کو پس منظر میں دھکیل رہی ہے۔ معاشرے میں جس شدت کے ساتھ مذہبی انتہا پسندی سرایت کر رہی ہے، یہ سنجیدہ حلقوں کے لیے فکرمندی کی بات ہے۔
“خارجی اسلامائزیشن” کے عنوان سے تیسرے سیشن کا موضوع تھا کہ اسلامی بلاک کے نام پر پاکستان امریکہ کا غلام کیسے بنا۔ ماڈریٹر ڈاکٹر سعید شفقت نے پاکستان کے ابتدائی ادوار میں برطانیہ اور امریکہ پر پاکستان کے انحصار کی پالیسی کا پس منظر بیان کیا۔ ڈاکٹر سرفراز احمد خاں نے کہا کہ ایک پاکستان 1947ء میں وجود میں آیا جبکہ دوسرا پاکستان 1971ء میں بنا۔ ریاست نے مشرق اور مغرب دونوں حصوں میں اسلامائزیشن کو بطور ہتھیار اپنایا۔ انہوں نے خطے میں کلیدی اہمیت کے حامل پاکستان کا بیرونی طاقتوں کا آلۂ کار بننے کے عمل میں اسلام کا نام استعمال کیے جانے کا حوالہ دیا۔ حسن جعفر زیدی نے کہا کہ سامراج اپنے نظام کی بقا کے لیے اپنے دشمن خود پیدا کرتا ہے، انہوں نے اس بات کے حق میں عالمی تاریخ سے حوالے پیش کیے۔ معروف صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن حسین نقی نے کہا کہ پاکستانی حکومتیں تو امریکہ کی غلام رہیں لیکن پاکستانی عوام کبھی امریکہ کے غلام نہیں بنے۔ زیر بحث کتاب کے شریک مصنف اور معروف دانشور حسن جعفر زیدی نے بھی اس آخری سیشن سے خطاب کیا اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔ موضوعات کے ثقیل ہونے کے باوجود سیمینار کے دوران ایوان اقبال لاہور کی عمارت حاضرین سے کھچاکھچ بھری رہی۔
آخر پر ادارۂ مطالعۂ تاریخ اور آئے ہوئے دانشوروں، حاضرین کی طرف سے تین قراردادیں منظور کی گئیں۔ پہلی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ تاریخ، جغرافیہ، عمرانیات، فلسفہ اور دیگر سماجی علوم کی مذہب کی بجائے سائنسی بنیادوں پر تعلیم دی جائے۔ نصاب میں مطالعۂ پاکستان کی بجائے واقفیت عامہ اور معاشرتی علوم کے مضامین کو بحال کیا جائے۔ مذہبی تعلیم کے نصاب کی تشکیل میں تمام مکاتب کے علماء کو شامل کیا جائے۔ اور مذہبی اقلیتوں کو اسلامیات کی بجائے انہی کے مذاہب کی تعلیم دی جائے یا اخلاقیات کے مضمون کے انتخاب کو عمل میں لایا جائے۔ اس اجتماع نے ایک قرارداد یہ بھی منظور کی کہ پاکستان میں تاریخ کے علم کو ریاستی کنٹرول سے آزاد کیا جائے۔ تاریخ نویسی کے سبھی مکاتب کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے اور تحقیق کی بنیاد عقیدے کی بجائے اختلاف رائے کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ تاریخ کو حکمران طبقے کے مفاد کے لیے وضع کرنے کی بجائے عوام کو عوامی مفاد کے تحت تاریخ کی تشکیل کرنے کا موقع دیا جائے۔
پاکستان میں قومی معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ شدت پسندوں کی طرف سے تلفی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس اجتماع نے تیسری قرارداد میں مطالبہ کیا کہ قومی سرکاری ریکارڈ کے لیے سرکاری آرکائیو اور معلومات بینک قائم کیے جائیں۔ معلومات تک آزادانہ رسائی کے قانونکو جلد از جلد عمل میں لایا جائے۔
سماجی علوم کی ایسی معلومات جو تاریخی تحقیق میں مدد دے سکتا ہے، کو محفوظ کیا جائے اور لائبریریوں کے حوالہ جاتی سیکشنز کو محفوظ اور وسیع تر بنایا جائے۔ خاص طور پر ان معلومات اور دستاویزات کو محفوظ بنایا جائے جن کے وجود سے مختلف فکری طبقے انکار کرتے ہیں اور ان کو تلف کرنے کے درپے ہیں۔