"بے حیائی بہت بڑھ گئی ہے”، یہ جملہ میں پچھلے 20 سال سے روزانہ سنتا آ رہا ہوں؛ کبھی رشتہ داروں سے،کبھی اپنے اساتزہ سے، کبھی دوستوں سے،کبھی مذہبی اور سیاسی رہنماوں ، کالم نگاروں،اینکر رپرسن ،اور دانشوروں سے، مولوی حضرات کا تو یہ پسندیدہ جملہ ہے، جب تک 40،50 مرتبہ بے حیائی کا ذکر نہ ہو کوئی خطبہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔ اب تو میں اس بات پر غائبانہ ایمان لے آیا ہوں کہ معاشرہ پورا بے حیا ہوچکا ہے اورصرف چند لوگ باحیا رہ گئے ہیں۔ اگر معاملہ یہاں تک رہتا تو ٹھیک تھا لیکن معاملہ یہ ہوا ہے کہ ہر ایرا غیرا یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ بے حیائی کا اصل سبب نوجوان لڑکے لڑکیاں ہیں اور ہم نوجوانوں پر ایسے ایسے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ ہم بھی حسرت سے سوچتے ہیں کہ کاش ہم نے یہ کام کر ہی دیے ہوتے ،ورنہ غالبؔ کو تو حسرت ہی رہی کہ انھیں ناکردہ گناہوں کی حسرت کی بھی داد ملے۔
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
ہمارے معاشرے میں ہیر رانجھا،سوہنی ماہیوال، سسی پنوں اورلیلی مجنوں کی کہانیاں بہت مقبول ہیں اور لوگ ان کے عشق کو عشق حقیقی سمجھ کر متاثر ہوتے رہتے ہیں سوال یہ ہے کہ جب یہ سب "مقدس عاشقان” چھپ چھپ کر ملتے تھے تو کرتے کیا تھے،
ہمارے ناکردہ گناہوں کی فہرست بھی بڑی طویل ہے ،ہر شادی، عید، شب برات پر بزرگانِ خاندان و غیر خاندان اسی وظیفے کا ورد کرتے ملتے ہیں کہ آج کل کے لڑکے لڑکیاں شرم و حیا کی تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں، انھیں مذہب،اخلاقیات اور اپنی تہذیب کا بالکل پاس نہیں ہے،یہ کھلم کھلا عشق معشوقی اور Dating کرتے ہیں ۔ اور ان قریب المرگ بزرگوں کے خیال میں لڑکے لڑکیاں ہر وقت اپنی گرل فرینڈ بوائے فرینڈ سے موبائل، فیس بک پر رابطے میں رہتے ہیں انگریزی دھنوں پر ناچتے اور ہندی گانوں پر تھرکتے رہتے ہیں۔ کالج یونیورسٹی تو بہانہ ہے محبوب سے ملنے کا، لڑکے ہر وقت لڑکیوں کو تاڑتے اور چھیڑتے رہتے ہیں بلکہ لڑکے گھر سے نکلتے ہی اس لئے ہیں کہ قومی کھیل یعنی "بھونڈی” کرسکیں۔ کوئی لڑکی اگر گھر سے پڑھنے یا جاب کے لیے نکلے اور اس بیچاری نے ذرا اچھا لباس پہنا ہو تو کھڑکی سے جھانکتی تمام بوڑھیوں کے خیال میں وہ کسی کے لیے بن سنور کر جارہی ہوتی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پورنوگرافی، شراب پینا، ڈانس پارٹیوں میں جانا، بیچلر پارٹیاں کرنا، طوائفوں کے پاس جانا اور مساج سینٹر جانا ہم نوجوانوں کے روز مرہ کے کام ہیں ۔ویسے بھی تمام کھانستے، رعشہ زدہ پنشن یافتہ عمر رفتہ کے چار وں دن گزار چکے بوڑھوں کے لئے پرانا زمانہ )یعنی ان کا اپنا زمانہ (بہت اچھا تھا ،تمام لوگ شرم وحیا کا پیکر تھے، رزق میں برکت تھی، عورتیں وفادار تھیں، مردانگی قائم اور نسوانیت دائم تھی۔بڑے بوڑھو ں کی یوں نا قدری نہ ہوتی تھی، شلواریں اور نظریں ٹخنوں سے نیچے ہی رہتی تھیں۔
ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے نوجوان کچھ بھی ایسا "غیر اخلاقی” نہیں کرتے جو ہم سے پہلے کی نسلیں نہ کرتی رہیں ہوں ۔ ہمارے معاشرے میں ہیر رانجھا،سوہنی ماہیوال، سسی پنوں اورلیلی مجنوں کی کہانیاں بہت مقبول ہیں اور لوگ ان کے عشق کو عشق حقیقی سمجھ کر متاثر ہوتے رہتے ہیں سوال یہ ہے کہ جب یہ سب "مقدس عاشقان” چھپ چھپ کر ملتے تھے تو کرتے کیا تھے، لیکن اگر آج کوئی ایسا کرے تو بے حیائی اور Dating۔ کبوتروں کے پنجوں اور پتنگ کے بازووں میں رقعے لپیٹ کربھیجنا ٹھیک مگر فیس بک اور واٹس ایپ (WhatsApp) غلط۔ بارہ سال بھینسیں چرانے والا مقبول اور ایک گھنٹہ پیکج پر کال کرنے والا مردود، ہیر چوری کھلائے تو محبت اور کوئی بے چاری اپنے جیب خرچ سے ملک شیک پلا دے تو بے حیا۔
ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے نوجوان کچھ بھی ایسا "غیر اخلاقی” نہیں کرتے جو ہم سے پہلے کی نسلیں نہ کرتی رہیں ہوں ۔ ہمارے معاشرے میں ہیر رانجھا،سوہنی ماہیوال، سسی پنوں اورلیلی مجنوں کی کہانیاں بہت مقبول ہیں اور لوگ ان کے عشق کو عشق حقیقی سمجھ کر متاثر ہوتے رہتے ہیں سوال یہ ہے کہ جب یہ سب "مقدس عاشقان” چھپ چھپ کر ملتے تھے تو کرتے کیا تھے، لیکن اگر آج کوئی ایسا کرے تو بے حیائی اور Dating۔ کبوتروں کے پنجوں اور پتنگ کے بازووں میں رقعے لپیٹ کربھیجنا ٹھیک مگر فیس بک اور واٹس ایپ (WhatsApp) غلط۔ بارہ سال بھینسیں چرانے والا مقبول اور ایک گھنٹہ پیکج پر کال کرنے والا مردود، ہیر چوری کھلائے تو محبت اور کوئی بے چاری اپنے جیب خرچ سے ملک شیک پلا دے تو بے حیا۔
حسن کے اظہار کے تمام تخلیقی ذرائع بے حیائی قرار دے کر ممنوع قرار دے دیے گئے ہیں اورکسی مرد یا عورت سے اپنے عشق کا اظہار تو گناہ کبیرہ خیال کیا جاتا ہے۔تاہم مذہبی پیرائے میں حوروں کے حسن و خوبی کے بیان اور مردوں کے لئے جنسی تلذذ کی فراہمی کے وعدوں کے لئے ایسی کسی قدغن کا کوئی ذکر نہیں ۔
حسن چاہے انسانی ہو یا قدرتی اس کا اظہار بھی ہمارے بڑوں کو ناگوار گزرتا ہے حالانکہ کہ دفتر کے دفتر اور کتابو ں کی کتابیں حسن و عشق کے اظہار سے بھری پڑی ہیں۔ حسن کے اظہار کے تمام تخلیقی ذرائع بے حیائی قرار دے کر ممنوع قرار دے دیے گئے ہیں اورکسی مرد یا عورت سے اپنے عشق کا اظہار تو گناہ کبیرہ خیال کیا جاتا ہے۔تاہم مذہبی پیرائے میں حوروں کے حسن و خوبی کے بیان اور مردوں کے لئے جنسی تلذذ کی فراہمی کے وعدوں کے لئے ایسی کسی قدغن کا کوئی ذکر نہیں ۔ مرد اپنے شہوانی جذبات کو لونڈی اور کنیز سے تمتع کی اجازت دے کر اور جنت میں موجود حوروں کے تذکروں سے ٹھنڈا کرنے کو کوشش کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ معاشرے نے نوجوانوں کے خیالات،جذبات،احساسات، انرجی ،اور امنگوں کے مثبت اظہار کے لیے کیا فراہم کیا ہے۔ کھیلوں کا فروغ ہے نہیں، اس لیے نہ تو سہولیات ہیں اور نہ پیسہ کہ خود کھیل سکیں،صرف کرکٹ کا جنوں رہ گیا ہے اور وہ بھی دیکھنے کی حد تک۔ یہی حال لٹریچر،موسیقی،ڈرامہ ،فلم اور تمام مثبت تفریحی سرگرمیوں کے ساتھ ہوا ہے۔ہم صرف ٹیکنالوجی اور مادی ترقی میں ہی پیچھے نہیں رہے ہم تو ثقافتی میدان میں بھی زوال کی آخری حد پر ہیں۔ ہمارا نوجوان اول تو معیاری تعلیم کے لیے خوار ہوتا ہے ،پھر روزگار کے لیے دھکے اور اگر کچھ کمانے بھی لگ جائے تو صرف معیار زندگی مشکل سے برقرار رکھ پاتا ہے،ایسے میں جنسی گھٹن اور حسن و عشق کے اظہار کے مواقع نہ ہونے کے باعث ہمہ وقت ہر انسان کو جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھنے کی بیمار ذہنیت نے سبھی ذہنوں کو جکڑ لیا ہے۔
بڑے بوڑھوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب وہ سمجھ لیں کہ اظہار اور تسکین کے جائز ذرائع نہ ملنے کی وجہ سے ہی نوجوان کج روی اختیار کرتے ہیں۔ہر جذبے اور خواہش کو حیا ، شرم، مشرقیت، مذہب اور تہذیب کے نام پر دبانے اور چھپانے سے کسی مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اصلاح سے زیادہ نوجوان نسل کو اعتماد اور شناخت کی ضرورت ہے تاکہ وہ جنسی، نفسیاتی، جسمانی اور معاشرتی سطح پر ایک صحت مند فرد کہلا سکیں۔
سوال یہ ہے کہ معاشرے نے نوجوانوں کے خیالات،جذبات،احساسات، انرجی ،اور امنگوں کے مثبت اظہار کے لیے کیا فراہم کیا ہے۔ کھیلوں کا فروغ ہے نہیں، اس لیے نہ تو سہولیات ہیں اور نہ پیسہ کہ خود کھیل سکیں،صرف کرکٹ کا جنوں رہ گیا ہے اور وہ بھی دیکھنے کی حد تک۔ یہی حال لٹریچر،موسیقی،ڈرامہ ،فلم اور تمام مثبت تفریحی سرگرمیوں کے ساتھ ہوا ہے۔ہم صرف ٹیکنالوجی اور مادی ترقی میں ہی پیچھے نہیں رہے ہم تو ثقافتی میدان میں بھی زوال کی آخری حد پر ہیں۔ ہمارا نوجوان اول تو معیاری تعلیم کے لیے خوار ہوتا ہے ،پھر روزگار کے لیے دھکے اور اگر کچھ کمانے بھی لگ جائے تو صرف معیار زندگی مشکل سے برقرار رکھ پاتا ہے،ایسے میں جنسی گھٹن اور حسن و عشق کے اظہار کے مواقع نہ ہونے کے باعث ہمہ وقت ہر انسان کو جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھنے کی بیمار ذہنیت نے سبھی ذہنوں کو جکڑ لیا ہے۔
بڑے بوڑھوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب وہ سمجھ لیں کہ اظہار اور تسکین کے جائز ذرائع نہ ملنے کی وجہ سے ہی نوجوان کج روی اختیار کرتے ہیں۔ہر جذبے اور خواہش کو حیا ، شرم، مشرقیت، مذہب اور تہذیب کے نام پر دبانے اور چھپانے سے کسی مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اصلاح سے زیادہ نوجوان نسل کو اعتماد اور شناخت کی ضرورت ہے تاکہ وہ جنسی، نفسیاتی، جسمانی اور معاشرتی سطح پر ایک صحت مند فرد کہلا سکیں۔
Leave a Reply