جب بھی پاکستان کا کوئی قومی تہوار آتا ہے تو قلم کے مزدور قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر اور ان کے عقیدے پر اپنی اپنی آراء ، تبصروں اور تشریحات کے تیشے تاریخ کے سینے پر چلانے لگتے ہیں ۔ بہت سے لکھاری اپنے قلمی لاؤڈ اسپیکروں پر ہر سال قائد اعظم کے عقیدے اور ان کی 11اگست کی تقریر کا حوالہ دے کرملک کو سیکولر جمہوری ریاست بنانے یا اسلام کا قلعہ ثابت کرنے کا کام شروع کر دیتے ہیں ۔ محمد علی جناح سے عقیدت اور فکری دیانت کا تقاضا ہے کہ بابائے قوم کے فرمودات و عقیدے کو اس زمانے کے سیاسی حالات کے تناظر میں سمجھا جائے۔ جناح ہرگز کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے ۔ بانی پاکستان نے امریکی پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ "پاکستان کی حکومت مذہبی حکومت یعنی تھیا کریسی نہیں ہو گی ۔نہ ہم ایسی خالص مذہبی حکومت پر یقین رکھتے ہیں "(گم گشتہ قوم صفحہ 283) جناح کی وفات کے فوراً بعد جناح کے تصور ریاست سے انحراف کا آغاز ہوگیا تھا۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب اس نوزائیدہ ریاست کے کمزور جسم پر پر قراردادمقاصد کی مقدس چادر چڑھا کر پاکستان کو مشرف بہ اسلام کیا گیا۔ بعد کے حالات اس بات کی پوری غمازی کرتے ہیں کہ جو لوگ راستوں کے راہزن اور ڈاکو تھے انہوں نے جناح شناسی کا تاج اپنے سروں پر سجا کر قافلوں کی رہبری کا ٹھیکہ اُٹھا لیا۔
کبھی کسی نے سنا کہ بابائے قوم نے ہدایت کی ہو کہ ملک کا وزیر اعظم ، صدر اور فوج کا سپہ سالار صرف اور صرف مسلمان ہو بلکہ انہوں نے اپنے مختصر دورحکومت میں مذہب و مسلک سے بالا تر ہو کرصرف قابلیت کی بنیاد پر تقرریاں کیں
11اگست کو دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کے مندرجات سینسر کیے جانے کے باوجودان کی سیاست سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے ذہن میں کیسا پاکستا ن تھا اوراس کے کیا خدو خال ہو سکتے ہیں؟ اگرچہ قائد اعظم ہمارے ساتھ بہت عرصے تک نہیں رہ پائے لیکن قیام پاکستان کے بعد کے واقعات اور اقدامات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے ۔ ان کے اقدامات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے ہر فیصلے کی بنیاد جمہوریت ، مذہبی رواداری اور ریاست اور مذہب کی علیحدگی پر رکھی تھی۔ انہوں نے اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم جیسے ٹھوس اور مضبوط اصولوں کو ہی پاکستان کی تعمیر کے لیے لازمی عنا صر قرار دیاتھا جو ایک فلاحی ریاست کے خدوخال کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں ۔انہوں نے جوگندر ناتھ منڈل کو وزارت دی اور سر ظفرا للہ خان کو وزارت خارجہ کا قلمدان سونپا۔ان کے دلیرانہ اورحکیمانہ فیصلوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کس قسم کی جمہوری سوچ پروان چڑھانا چاہتے تھے ۔ کبھی کسی نے سنا کہ بابائے قوم نے ہدایت کی ہو کہ ملک کا وزیر اعظم ، صدر اور فوج کا سپہ سالار صرف اور صرف مسلمان ہو بلکہ انہوں نے اپنے مختصر دورحکومت میں مذہب و مسلک سے بالا تر ہو کرصرف قابلیت کی بنیاد پر تقرریاں کیں۔ انہوں نے کئی نامور عمائدین اور سیاست دانوں کو چھوڑ کربہترین نظم و نسق رکھنے والے باصلاحیت افراد کو اہم ترین وزارتوں کے قلمدان سونپےخواہ ان کا مذہب، عقیدہ یا مسلک کچھ بھی ہو۔جناح صاحب کو ایک مذہب پرست رہنما ثابت کرنے والے لوگ وہی ہیں جو ماضی میں قائد اور دیگر مسلم لیگ رہنماؤں پر غیر مسلم ہونےکے الزامات عائد کرتے رہے ہیں ۔
متحدہ ہندوستان کے عہد کاجو شر پسند ٹولہ قائد کے عقیدے اور مسلک کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کررہا تھا وہ آج بھی ریاست میں انتشار ، بدنظمی اور تعصب پھیلانے کی خاطر مذہب کا سہارا لے رہاہے ۔
صاحب الرائے اور ذی شعور طبقہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جناح صاحب کو متنازعہ بنانے کے لیے ان کا عقیدہ کون لوگ جاننا چاہتے تھے؟ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آج بھی کسی کی سچائی ، دیانت اور صداقت کو الزام تراشی سے آلودہ کرنا ہو تواس کے عقیدے کو مشکوک بنادیا جاتا ہے۔ آج بھی سرکار ہر پاکستانی کے عقیدے کو اپنے میزانِ عدل میں تول کر ملک کی خدمت کا موقع دیتی ہے جس کا مظاہرہ 1974ء میں احمدیوں کے ساتھ کیا گیا۔ ان عالم فاضل اکابرین امت نے جناح کے بے داغ کردار پر طنزو تشنیع کے زہر میں ڈوبے الفاظ کے کوڑے برسائے ۔سر عام گالیوں سے نوازا گیا پھر بات نہیں بنی تو جناب کے عقیدے کے بارے میں ہرزہ سرائی کی گئی ۔ ستم ظریفی یہ کہ وہی طبقہ آج جناح کو مردمومن ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے جو کبھی انہیں مسلمان ماننے کو تیار نہیں تھا۔ متحدہ ہندوستان کے عہد کاجو شر پسند ٹولہ قائد کے عقیدے اور مسلک کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کررہا تھا وہ آج بھی ریاست میں انتشار ، بدنظمی اور تعصب پھیلانے کی خاطر مذہب کا سہارا لے رہاہے ۔
کسی بھی سیاسی رہنما کے عقیدے سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے ہر جائزوناجائز ہتھکنڈا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔احراری علماء مبینہ طورپر قائد اعظم کے بارے میں جھوٹ ، دروغ گوئی سے مسلسل کام لیتے رہے وہ یہاں تک کہتے تھے کہ قائد اعظم کو جب کلمہ طیبہ پڑھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ

 
"I know Muhammad, i know Allah , but who is the Third Gentleman Rasoolallah”
 

(یعنی میں محمد اور اللہ کو تو جانتا ہوں لیکن یہ تیسرا شریف آدمی رسول اللہ کون ہے )۔تحریک پاکستان میں شامل جانثاروں اور وفاداروں کو بابائے قوم کے اعلی ٰ کردار سے متنفر کرنے کے لیے مذہب اور عقیدے کومتنازعہ بنانے جیساقبیح مگر آزمودہ حربہ استعمال کیا گیا۔اس وقت کے معروف عالم دین اور مفسر اسلام نے بانی پاکستا ن کے بارے کیا کیاگوہر افشانیاں کیں ان میں سے چند ایک کی مثالیں پیش خدمت ہیں۔مفسر اسلام ابوالاعلیٰ مودودی فرماتے ہیں کہ
"محمد عل جناح جنت الحقماء (احمقوں کی جنت )کا بانی اور ااجل فاجر (گنہگار انسان )ہے ۔”(ترجمان القران فروری 1946ء صفحہ 153)
"مسلم لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے "۔(ترجمان القران جلد نمبر 28صفحہ 145اشاعت پٹھان کوٹ)
"محمد علی جناح کا مقام مسندِ پیشوائی نہیں بلکہ بحیثیت غدار عدالت کا کٹہرا ہے ۔”(ترجمان القران ۔جلد نمبر 31۔صفحہ 62.۔اشاعت 1948ء)
محمد علی جناح کے عقیدے سے متعلق ہر دو طرح کے رحجانات پائے جاتے ہیں، کچھ انہیں غیر مسلم قرار دینے کے لیے کوشاں ہیں اور کچھ انہیں مرد مومن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ تا ریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بادشاہی مسجد کے خطیب جناب مولوی غلام مرشد صاحب نے قائد اعظم سے ملاقات کے بعد گواہی دے ڈالی کہ دوران گفتگو مولانا قائد اعظم نے ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیا ہے ۔ایک اور صاحب نے بھی قائد اعظم کی بر گزیدگی اور تقدس کی داستان تصنیف کرتے ہوئے لکھا کہ "حضرت قائد اعظم اور ان کا پورا خاندان سیدھے سادے عقائد رکھنے والے مسلمان تھے۔قائد اعظم نے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور بہادر یار جنگ سے قرآن با تفسیر پڑھا ” (مقالہ : حضرت قائد اعظم اور اسلامی نظریہ جمہوریت ۔مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت لاہور 30دسمبر 2005ء)۔یعنی ان لوگوں کا یہی مقصد تھا کہ کسی طرح سے مسٹر جناح کو” حضرت مولانا محمد علی جناح رحمتہ اللہ”بنا کر ہی دم لیاجائے ۔تاکہ آئندہ زمانوں میں ار ض پاک کے آئین و قانون کی تزئین و آرائش اور دستار بندی بھی ان کے ہاتھوں سر انجام پائے۔ دوسری جانب ایک طبقہ قائد کے عقیدے کو مسلکی اور فرقہ وارانہ رنگ بھی دیتا ہے۔ ان لوگوں کے خیال میں چونکہ بابائے قوم اہل تشیع تھے تو ہو سکتا ہے کہ قائد کے صاف و شفاف کردار کو طنزو تشنیع کے تیروں سے چھلنی کرنے والوں کے مضطرب دلوں میں یہ خوف اور خطرہ گھر کر گیاہوکہ کہیں بابائے قوم کی ہم مسلک اقلیت نوزائیدہ مملکت کی وارث نہ بن بیٹھے ۔
ان لوگوں کا یہی مقصد تھا کہ کسی طرح سے مسٹر جناح کو” حضرت مولانا محمد علی جناح رحمتہ اللہ”بنا کر ہی دم لیاجائے ۔تاکہ آئندہ زمانوں میں ار ض پاک کے آئین و قانون کی تزئین و آرائش اور دستار بندی بھی ان کے ہاتھوں سر انجام پائے
یہ امر افسوس ناک ہے کہ قائد اعظم کے عقیدے اور طرز ریاست کو اپنی سوچ اور زاویے کی طرف موڑنے والے آج بھی جناح کے عقیدے اور سیاست کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ قیام پاکستان کی مخالف اسی ملائیت کی وجہ سے آج دنیا بھر میں پاکستان دہشت گردوں کی پرورش گاہ کے طور پر پہچانا جاتا ہے ۔ آج جب فتویٰ فیکٹریوں کے دھوئیں نے پورے ملک کی پر امن فضا کو گھٹن زدہ بنا رکھا ہے تو اس کی صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ ان دھڑادھڑ چلنے والی فتویٰ فیکٹریوں کی بنیادیں اقبال اور قائد ہی کے عہد میں کھودی گئی تھیں ۔ان فتویٰ بازوں کی باقیات آج بھی قائد کے مزار پر دعائے خیر کرنے سے علی الاعلان انکاری ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی رہنماوں کے عقیدے کی بجائے ان کی سیاست کی بنیاد پر ان کی حمایت اور مخالف کی جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخی شخصیات کو کسی مخصوص نظریے، عقیدے یا مسلک کے تحت رنگنے کی بجائے اس کے صحیح سیاق وسباق میں معروضی انداز میں سامنے لایا جائے۔

Leave a Reply