چہل قدمی کرتے کرتے میں مال روڈ کے اس مقام پر پہنچ چکا تھا جہاں اب فیض احمد فیض انڈر پاس ہے۔ہم بھی ویسے عجیب لوگ ہیں ہر چند سال بعد جگہوں کے نام بدل دیتے ہیں اور اسی میں اطمینان تلاش کرتے ہیں، ابھی چند سال پہلے تک اس انڈر پاس کا نام مال روڈ انڈر پاس تھا اب یہ فیض صاحب کا ہوگیا۔ جانا تو مجھے میاں میر پل کی جانب تھا مگر نہ جانے کن خیالات کے زیر اثر اور کس نیت کے ساتھ میں بائیں جانب مڑ گیا اور نہر کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
جوبن پر آئے ساون بھادوں کی وجہ سے اگست کی صبحیں کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوا کرتیں، آج کی صبح بھی اگست کی ایک عام سی ناخوشگوار حبس بھری صبح تھی ۔صبح ہو شام یا دن کا کوئی بھی حصہ اپنی ذات میں خاص یا عام نہیں ہوتا بلکہ ان اوقات میں ہو نے والے واقعات اس مخصوص دن کی وجہ شہرت بن جاتے ہیں اور شہرت کبھی بھی کسی چیز کو عام نہیں رہنے دیتی، خاص بنا دیا کرتی ہے۔
انہی خیالات میں گم میں چلا جا رہا تھا، میرے دائیں ہاتھ نہر بہہ رہی تھی جس کی موجودگی موسم کی بد مزاجی کو قابل برداشت بنا رہی تھی تو بائیں جانب ایچیسن کالج کی طویل دیوار تھی۔ میں معمولات روزوشب کی فلسفیانہ گتھیاں سلجھاتا چلا جا رہا تھا لیکن ہر قدم پر مجھ میں ایک تبدیلی سی رونما ہونے لگی۔موسم تو اتنا گرم نہیں تھا لیکن مجھے پسینہ تیزی سے آ رہا تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے خون ابلنے لگ گیا ہو۔میری سانس پھول رہی تھی لیکن اس کی وجہ تھکاوٹ یا کوئی بیماری نہیں تھی بلکہ غصہ مجھ پر حاوی ہو رہا تھا۔ ویسے تو غصہ اپنے آپ میں ایک بیماری ہے لیکن اس کا علاج اگر ہے تو بس یہ کہ اس کو قابو کیا جائے، لیکن انسان کتنی دیر اسے روک سکتا ہے ؟کتنی دیر خود پرقابو رکھ سکتا ہے؟ ایک نہ ایک روز غصے کا پگھلا سیال لاوا اس قدر گرم ہو جاتا ہے کہ برداشت سمیت تمام بندشوں کو پگھلا کر اپنا راستہ بناتے باہر آ جاتا ہے۔ آج شائد میری برداشت کے پگھلنے کا دن آ چکا تھا۔
جوبن پر آئے ساون بھادوں کی وجہ سے اگست کی صبحیں کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوا کرتیں، آج کی صبح بھی اگست کی ایک عام سی ناخوشگوار حبس بھری صبح تھی ۔صبح ہو شام یا دن کا کوئی بھی حصہ اپنی ذات میں خاص یا عام نہیں ہوتا بلکہ ان اوقات میں ہو نے والے واقعات اس مخصوص دن کی وجہ شہرت بن جاتے ہیں اور شہرت کبھی بھی کسی چیز کو عام نہیں رہنے دیتی، خاص بنا دیا کرتی ہے۔
انہی خیالات میں گم میں چلا جا رہا تھا، میرے دائیں ہاتھ نہر بہہ رہی تھی جس کی موجودگی موسم کی بد مزاجی کو قابل برداشت بنا رہی تھی تو بائیں جانب ایچیسن کالج کی طویل دیوار تھی۔ میں معمولات روزوشب کی فلسفیانہ گتھیاں سلجھاتا چلا جا رہا تھا لیکن ہر قدم پر مجھ میں ایک تبدیلی سی رونما ہونے لگی۔موسم تو اتنا گرم نہیں تھا لیکن مجھے پسینہ تیزی سے آ رہا تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے خون ابلنے لگ گیا ہو۔میری سانس پھول رہی تھی لیکن اس کی وجہ تھکاوٹ یا کوئی بیماری نہیں تھی بلکہ غصہ مجھ پر حاوی ہو رہا تھا۔ ویسے تو غصہ اپنے آپ میں ایک بیماری ہے لیکن اس کا علاج اگر ہے تو بس یہ کہ اس کو قابو کیا جائے، لیکن انسان کتنی دیر اسے روک سکتا ہے ؟کتنی دیر خود پرقابو رکھ سکتا ہے؟ ایک نہ ایک روز غصے کا پگھلا سیال لاوا اس قدر گرم ہو جاتا ہے کہ برداشت سمیت تمام بندشوں کو پگھلا کر اپنا راستہ بناتے باہر آ جاتا ہے۔ آج شائد میری برداشت کے پگھلنے کا دن آ چکا تھا۔
چلتے چلتے جیسے ہی میں ایک سیاسی رہنما کے گھر کے قریب پہنچا اچانک میرا منہ کھلا اور آتش فشاں پھٹ پڑا، میرے منہ سے سیاسی قائدین خصوصاً اس سیاسی قائد کے بارے میں جس کے گھر کے قریب میں پہنچ چکا تھا کے خلاف نعرے ابلنے لگے۔
گزشتہ دو سال سے بار بار سنے جانے والے طعنے اور گالیاں دماغ میں گونجنے لگے۔ گونج اتنی زیادہ تھی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سر کسی بھی وقت پھٹ جائے گا، مجھے نہیں معلوم کہ کب چلتے چلتے میں فٹ پاتھ چھوڑ کر سڑک کے درمیان چلنے لگا۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھتا جا رہا تھا اندر ابلنے والا لاوا مزید کھولنے لگا، ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب آتش فشاں کے پھٹنے کا وقت ہو گیا ہے۔
چلتے چلتے جیسے ہی میں ایک سیاسی رہنما کے گھر کے قریب پہنچا اچانک میرا منہ کھلا اور آتش فشاں پھٹ پڑا، میرے منہ سے سیاسی قائدین خصوصاً اس سیاسی قائد کے بارے میں جس کے گھر کے قریب میں پہنچ چکا تھا کے خلاف نعرے ابلنے لگے۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں نے کیا کچھ کہا مجھے بس وہ سب طعنے یاد تھے جوگزشتہ دو برس میں میں نے محض اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے سنے تھے۔ میں مسلسل اپنی قیادت کے خلاف نعرے بازی کر رہا تھا کہ ایک ہاتھ میری گردن پر پڑا، گرفت اور دباؤ ایسا تھا کہ میں توازن کھو بیٹھا۔
اور کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہو گئی یہ بارش کوئی عام بارش نہیں تھی بلکہ لاتوں اور مکوں کا مینہ تھا جو برسنے لگا. میں جان بچانے کو بھاگتا تو پھر کسی نہ کسی کہ ہتھے چڑھ جاتا. یہ سب نوجوان اس قائد کے شیدائی تھے کہ جس کی گلی میں آ کر میں نے اس کے خلاف نعرے لگائے تھے. شائد میں نے نعروں کے معاملے میں واقعی زیادتی کر دی میں ٹھہرا ایک "پینڈو پٹواری” لیکن ان پڑھے لکھے نوجوانوں کے جھرمٹ نے نہ تو میرے اکیلے ہونے کا لحاظ کیا، نہ میری عمر اور میری سفید ہوتی داڑھی کو کسی خاطر میں لائے، میں جس کے ہاتھ لگا اس نے مال غنیمت جانا اور دو چار لگا کر ثواب دارین کے حصول کو یقینی بنایا۔میں مسلسل جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس میں کچھ کامیابی تب ہوئی کہ جب کچھ لوگ بیچ بچاؤ کرانے پہنچے، میڈیا کی وہاں موجود نفری بھی حرکت میں آ چکی تھی اور اس واقعے کی لاجواب تصاویر اور فوٹیج بنانے لگے۔کسی طرح جان بچا کر میں وہاں سے نکلا اور اپنے گھر کی راہ لی درد سے اتنا برا حال تھا کہ کراہنے اور رونے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
چلتے چلتے جیسے ہی میں ایک سیاسی رہنما کے گھر کے قریب پہنچا اچانک میرا منہ کھلا اور آتش فشاں پھٹ پڑا، میرے منہ سے سیاسی قائدین خصوصاً اس سیاسی قائد کے بارے میں جس کے گھر کے قریب میں پہنچ چکا تھا کے خلاف نعرے ابلنے لگے۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں نے کیا کچھ کہا مجھے بس وہ سب طعنے یاد تھے جوگزشتہ دو برس میں میں نے محض اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے سنے تھے۔ میں مسلسل اپنی قیادت کے خلاف نعرے بازی کر رہا تھا کہ ایک ہاتھ میری گردن پر پڑا، گرفت اور دباؤ ایسا تھا کہ میں توازن کھو بیٹھا۔
اور کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہو گئی یہ بارش کوئی عام بارش نہیں تھی بلکہ لاتوں اور مکوں کا مینہ تھا جو برسنے لگا. میں جان بچانے کو بھاگتا تو پھر کسی نہ کسی کہ ہتھے چڑھ جاتا. یہ سب نوجوان اس قائد کے شیدائی تھے کہ جس کی گلی میں آ کر میں نے اس کے خلاف نعرے لگائے تھے. شائد میں نے نعروں کے معاملے میں واقعی زیادتی کر دی میں ٹھہرا ایک "پینڈو پٹواری” لیکن ان پڑھے لکھے نوجوانوں کے جھرمٹ نے نہ تو میرے اکیلے ہونے کا لحاظ کیا، نہ میری عمر اور میری سفید ہوتی داڑھی کو کسی خاطر میں لائے، میں جس کے ہاتھ لگا اس نے مال غنیمت جانا اور دو چار لگا کر ثواب دارین کے حصول کو یقینی بنایا۔میں مسلسل جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس میں کچھ کامیابی تب ہوئی کہ جب کچھ لوگ بیچ بچاؤ کرانے پہنچے، میڈیا کی وہاں موجود نفری بھی حرکت میں آ چکی تھی اور اس واقعے کی لاجواب تصاویر اور فوٹیج بنانے لگے۔کسی طرح جان بچا کر میں وہاں سے نکلا اور اپنے گھر کی راہ لی درد سے اتنا برا حال تھا کہ کراہنے اور رونے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اس لاہور نے کیسے کیسے رہنماوں کے لئےزندہ باد مردہ بادکے نعرے نہیں سنے؟ اس کے گلی کوچوں میں کس کس کے حق اور مخالفت میں اشتہار نہیں چپکائے گئے؟ کس کس کے جلسے جلوس نہیں دیکھے ان درودیوار نے؟ مگر آج یہ کیسا منظر ہے کہ یہ زندہ دلانِ لاہور چار نعرے نہ برداشت کر سکے؟
دماغ مسلسل اس بات پر غور کر رہا تھا کہ اس سب میں کس کی کیا غلطی تھی؟ کیا یہ ہے وہ پڑھی لکھی جوان نسل کہ جس میں برداشت اور درگزر نام کو بھی نہیں ہے؟ شائد ان کا بھی قصور نہیں ہے قصور میرا ہے اور میری نسل کا ہے، ہم نے سوائے اپنے وقتوں کا قصیدہ کہنے کے آنے والی نسل کے لئے اور کوئی کام نہیں کیا۔ وہ اقدار جو ہمارے وقتوں یا پرانے زمانوں کی یادگار ہیں ہم اس نسل کو منتقل نہیں کر پائے۔ کاش کہ ان کو پڑھانے لکھانے اچھے نمبر لینے کی دوڑ میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ برداشت کرنابھی سکھا تے، یہ بتاتے کہ صبر اور برداشت کتنے شاندار وصف ہیں۔ آج اگر یہ پود برداشت کرنے اور اختلاف کرنے کی اہمیت سے واقف ہوتی تو میرا” گناہ” نظر انداز کردیا جاتا۔
گھر پہنچتے پہنچتے میرے تھکے ہوئے گرد سے بھرے چہرے پرطنزیہ مسکراہٹ آ گئی،سوچا، اس لاہور نے کیسے کیسے رہنماوں کے لئےزندہ باد مردہ بادکے نعرے نہیں سنے؟ اس کے گلی کوچوں میں کس کس کے حق اور مخالفت میں اشتہار نہیں چپکائے گئے؟ کس کس کے جلسے جلوس نہیں دیکھے ان درودیوار نے؟ مگر آج یہ کیسا منظر ہے کہ یہ زندہ دلانِ لاہور چار نعرے نہ برداشت کر سکے؟ یار یہ تو بڑے ہی تھڑ دلے ہو گئے ہیں ۔ یہ خیال آتے ہی میں نے سر کو جھٹکا اور میرے منہ سے بس اتنا ہی نکلا کہ اس میں کچھ قصور میرا بھی ہے شائد؟
گھر پہنچتے پہنچتے میرے تھکے ہوئے گرد سے بھرے چہرے پرطنزیہ مسکراہٹ آ گئی،سوچا، اس لاہور نے کیسے کیسے رہنماوں کے لئےزندہ باد مردہ بادکے نعرے نہیں سنے؟ اس کے گلی کوچوں میں کس کس کے حق اور مخالفت میں اشتہار نہیں چپکائے گئے؟ کس کس کے جلسے جلوس نہیں دیکھے ان درودیوار نے؟ مگر آج یہ کیسا منظر ہے کہ یہ زندہ دلانِ لاہور چار نعرے نہ برداشت کر سکے؟ یار یہ تو بڑے ہی تھڑ دلے ہو گئے ہیں ۔ یہ خیال آتے ہی میں نے سر کو جھٹکا اور میرے منہ سے بس اتنا ہی نکلا کہ اس میں کچھ قصور میرا بھی ہے شائد؟
جناب کیڑےمکوڑوں کو اختلاف کا حق دیا ہی کب جاتا ہے۔ چیونٹی اگر راستہ روکے جانے پر کاٹ لے تو
مسلا تو چیونٹی ہی کو جاتا ہے نا۔
قصور کمزور کا ہی ہوتا ہے۔ سب سے بڑا قصور یہی کہ وہ کمزور ہے۔ انسانی معاشروں میں ازل سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چل رہا ہے۔ یہ انسانی قدریں سماجی ضابطے جس قدر بھی ہم بنا لیں اس حیوانی فطرت کو کیسے روکیں جو اپنا راستہ بنا ہی لیتی ہے۔