مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ قرۃ العین حیدر نے اردو ناول کو جس ڈھب سے ثروت مند کیا یہ اعزاز کسی اور کے حصے میں آیا ہی نہیں ہے اور ہاں میں یہ بات اس کے باوجود کہہ رہا ہوں کہ اس باکمال اور بہت سا لکھنے والی پر یہ الزام بھی آتا رہا ہے کہ اس کے ہاں لگ بھگ ایک جیسے موضوعات آتے رہے ہیں وہی اودھ کے جاگیردارانہ معاشی زوال اور معاشرتی انہدام ‘ وہی حال سے ناآسودگی اور وہی شدید عدم احساس۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے جم کر قرۃ العین کو پڑھا ہے “میرے بھی صنم خانے “ سے لے کر “ آگ کا دریا” تک ‘اور “آخر شب کے ہم سفر” سے لے کر “گردش رنگ چمن” اور “چاندنی بیگم “ تک۔ اور کتنے ہیں جنہوں نے ذرا ڈھنگ سے ان زمانوں میں سفر کیا ہے جو اس کے ہاں بے حجاب ہوکر متن کا حصہ بنے ہیں اور سامنے کے منظر میں تاریخ ‘ تقدیر ‘ عصری دانش یا پھر وقت کے جبر کوبھی اس کا لازمی جزو بناتے چلے گئے ہیں۔ صاحب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کرکہیے پوری اردو فکشن کی کہانی میں اور کس کا نام آتا ہے جس نے اتنے زیادہ کردار تراشے ہوں جتنے قرۃالعین کے قلم نے تراشے ‘ کس نے اتنے مقامات اور اتنے مناظر کو لکھا ہے جتنے اس جادوگر بی بی نے لکھ ڈالے ہیں۔ اور کون ہے جس نے ہماری فکشن کو مجہول فکری کے طعنے سے بچایا‘ اسے جذباتیت سے نکالا‘ تاریخ کے ایک بڑے دائرے اورزندگی کے وسیع تناظر میں لاکر اس پر ایک نئی تخلیقی فضا کا در باز کیا۔
قرۃ العین حیدر کے تخلیقی قرینے اور مزاج کو سمجھنے کی نیت ہو تو” میرے بھی صنم خانے” کے آغاز ہی میں وہ ہمارے لیے اشارے فراہم کر نا شروع کر دیتی ہے۔ اس اولین ناول کے ابتدائی صفحات میں اقبال کی ایک معروف رباعی سے یہ تین الفاظ ملتے ہیں:
“تراشیدم ‘ پرستیدم‘ شکستم”
اور اس کے ساتھ ہی میر انیس کا یہ شعر بھی موجود ہے :
انیس دم بھر کا بھر وسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
ایک طرف یہ چلن کہ ہر بار اپنی زندگی کے لیے کوئی خدا ‘ کوئی محبوب ‘ یا پھر آدرش تراشے گئے۔ ان میں سے روح نکال کر انہیں بت بنا لیا گیا ان سے وابستہ رہنے کے خواب دیکھے گئے‘ جد وجہد کی گئی‘ ستم سہے ‘ قربانیاں دیں اور اسے زندگی کا مقصد وحید قرار دے کر پرستش کی گئی۔ مگر وقت کے تیورذرا بدلے اور وہ ٹیڑھی چال چلا تو اس بت کو خود ہی توڑ دیا گیا۔ تو یوں ہے کہ قرۃ العین حیدر کے لیے اسی ستم ایجادوقت کے دامن میں ایک سے ایک بڑھ کر جبر موجود ہے اور اسی سے کم و بیش وہ اپنی ساری تخلیقات میں فضا بندی کاکام لیتی رہی ہے۔
“میرے بھی صنم خانے “ نے شائع ہوتے ہی ادبی دنیا کی توجہ پالی تھی۔ کرشن چندر نے تو اسے ورجینیا وولف کے ڈھنگ کا ’فرصت کوشی کا فن ‘ قرار دیا تھا مگر فی الاصل دیکھا جائے تو قصہ یوں ہے کہ یہ ناول نگاری کے نئے چلن کا آغاز تھا۔ ایک نئی تیکنیک میں قرۃ العین حیدر نے ایک دم توڑتی ہوئی تہذیب کا قصہ کہا تھا۔ کسی قصہ گو کی طرح واقعات کی اوپر کی سطح پر تیرتے ہوئے نہیں ‘ درد کے پانیوں کے اندر اتر کر اور فنا کی ایک ایک جنبش کو خود محسوس کرکے۔ قرۃ العین کے لیے یہ سوال بہت اہمیت اخیتار کرجاتا ہے کہ انسانی تہذیب جو صنم خانے صدیوں کی ریاضت سے تعمیر کرتی رہی ہے ‘اپنے ذوق جمال کے عین مطابق‘ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وقت ‘ تاریخ یا پھر خود انسانی وجود کے اندر سے اٹھتا عدم تحفظ کے احساس کا سیلاب انہیں بہا کر لے جاتا ہے۔ یاد رہے یہ ناول ۱۹۴۸ میں آیا تھا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ قرۃ العین نے اس اعلی سو سائٹی کو‘ کہ جسے اس نے قریب سے دیکھا ‘برتااور پرکھاتھا‘ اسے اس کے کھوکھلے پن کا شدت سے احساس تھا۔ آزادی کی تحریک چلی ‘ انگریز کو جانا پڑا اور ہندوستان تقسیم ہوا تو امپورٹٹڈسامان تعیش ‘ کلبوں اورڈنر پارٹیوں کے شائق طبقے کی شان شوکت ‘ عیش کوشی اور بے عملی کے اینٹ گارے سے بنی یہ عمارت دھڑام سے زمین پر آرہی۔ ہمارے ہاں کے کچھ لکھنے والوں کو اب بھی اسی طبقہ اشرافیہ کی اچھے وقتوں کی اجلی تصویریں اتنی شدت سے یاد آتی ہیں کہ انہیں نوسٹلجیا کے مرض میں مبتلا کر گئی ہیں۔ تا ہم یہ ماننا پڑتا ہے کہ قرۃ العین نے “سفینہ غم دل” کے بعد اور بطور خاص اس کے شاہکار تسلیم کیے جانے والے ناول “ آگ کا دریا” تک آتے آتے‘ نوسٹیلجیا کو اوندھا کر رکھ دیا تھا۔ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ان تینوں ناولوں کا انسان وقت کے مقابل آیااور بے بس ہوا۔ تینوں میں تہذیب کی وہ امی جمی اکھاڑ پچھاڑ سے دوچار ہوئی جس سے مستقل وابستگی کچھ کے ہاں احساس کی سطح پر سب سے بڑااثاثہ بن گیاہے اور اس بات کا شدت سے احتجاج بھی کہ وقت ان بظاہر چمکتے دمکتے مظاہر کوروند کر آگے کیوں بڑھ آیا ہے وہیںٹھٹھک کر اور ٹھٹھر کر ٹھہر کیوں نہیں گیا۔ قرۃ العین حیدر کا تہذیبی شعور اتنا اڑیل اور جامد نہیں تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وقت کو ایک دھارے میں مسلسل بہتے رہناہے۔ لہذا اس کے ہاں بنیادی سوال یہ بن کر آیا کہ ایک تہذیب کا کھوکھلا پن کہاں تک وقت کی بوچھاڑ کے سامنے ٹھہر سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس نے محض گزرے وقتوں کی اجلی تصویریں دکھانے پر اکتفا نہیں کیا۔ وہ فقط تقسیم اور تقسیم کے بعد کثیر آبادی کے انخلا اور اس کے نتیجے میں انسان کے درندہ بن جانے کا قصہ کہہ کر الگ نہیں ہو گئی۔ اس نے اسے اپنی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے تناظر میں دیکھااور یہ بتانا چاہا کہ وقت تو آگ کا بہتا ہوا ایک ایسا دریا ہے جس کے مقابل انسان اپنے تہذیبی کھوکھلے پن کے ساتھ زیادہ دیر ٹھہر ہی نہیں سکتا تھا۔ بے فیض علمیت‘ مجہول ذہانت اور لمحاتی تسکین کو وتیرہ کرنے والوں کو بہت جلدآگ کے اس دریا کا رزق ہو ہی جانا ہوتا ہے۔ میں قرۃ العین کو پڑھتے ہوئے اس آگ کے مقابل ہونے اور قدرے لمبی مہلت پانے کے لیے ‘ایک اور آگ کی ضروت کی طرف با ربار متوجہ ہوتا رہا ہوں۔ وہ آگ جو انسان کی چھاتی میں بھڑکتی ہے اور جسے ایندھن اسے اس کا اپناتاریخی اور تہذیبی شعور فراہم کرتا ہے۔
“آگ کا دریا” میں زمانی اور مکانی جہاں جس طرح پھیل اور سکڑ رہا اسے سمجھنے کے لیے قاری کو پہلے حصے میں قدیم ہندو تہذیب کی علامت بن جانے والے گوتم نیلامبر اور دوسرے حصے میں اپنے علم شجاعت اور جمال کے ساتھ ابھر کر سامنے آنے والے ابو المنصور کمال الدین کو پوری توجہ دینا ہوگی۔ تیسرے حصے کی کہانی کا ماحول وہی ہے جس سے قرۃ العین حیدر کا قاری اس کے گذشتہ ناولوں سے مانوس چلا آرہا ہے وہی ہند مسلم لکھنوی تہذیب۔ اس ناول کے آخری حصے میں آزادی کے بعد تک کے زمانے تک کہانی کو لاکر کئی سوال اٹھا دیئے گئے ہیں۔
یہ وہی سوال ہیں جن کو اٹھانے کی پاداش میں قرۃ العین کو بہت کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تاہم یہ واقعہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد اس ناول کے نیشنلسٹ کمال کے ساتھ وہی ہوا جو ہمارے منٹو کے ساتھ ہوا تھا۔ کمال ہندوستان کو اپنا وطن سمجھتا تھا اور تشکیل پاکستان کے بعد بھی اسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے منٹو نے پاکستان آنے کے لیے فوری طور پر فیصلہ نہیں کیا تھا۔ کمال کے دوست‘ہری شنکر اور گوتم جو حکومت ہند کے بارسوخ کارندے تھے اپنے دوست کو روک نہ پائے۔ منٹو کو بھی اس کا دوست شیام نہ روک سکا تھا۔ اس پر بھی یہ وقت بہر حال آگیا تھا کہ برانڈی کی بوتل نکالے”ہپ ٹلا” کہے‘ قہقہے لگا کرشیام کو سینے سے لگائے اور… سیدھا پاکستان چلا آئے۔
"چاندنی بیگم” تک آتے آتے قرۃالعین حیدر مسلمانوں کے مسلم طبقے کے گرے پڑے کرداروں کو بھی لائق اعتنا سمجھنے لگے تھی۔ مسلم اشرافیہ کے کردار سوچتے بہت تھے‘ لہذا گذشتہ کہانیاں ذہنی فضا میں ریتیں اور ٹھہر ٹھہر کر چلتی تھیں۔
“چاندنی بیگم” کے کردار عملی زندگی سے اٹھائے گئے تھے لہذا وہ قدرے زیادہ متحرک اور عملی نظر آتے ہیں۔ اس ناول میں بھی وقت قرۃ العین حیدرکی من بھاتی ڈگر پر ہی رواں دواں رہتا ہے۔ ہرسال نئے وقت کی باڑھ آتی ہے اور باقی ماندہ ملبا بہا کر لے جاتی ہے کہ زمین کوآنے والے وقت کے لیے خالی ‘ ہموار اور تیار ہونا ہے۔ اس زمین میں نئی فصل کو اگنا ہے اور اسی خالی ہو جانے والی زمین کے لیے نئے بیجوں کو چڑیاں اپنی چونچوں میں لے کر نہ جانے کہاں کہاں سے آجانا ہے۔ یہ سوال اور یہ صورت بھی قراۃ العین حیدر کی توجہ میں رہی ہے تاہم اس کے ہاں یہاں بھی بنیادی موضوع وقت کے مقابلے میں انسان کی پسپائی ہی رہا ہے۔ “گردش رنگ چمن “ کو اس لیے قابل توجہ سمجھا جانا چاہیے کہ اس میں نے مسلم اقدار کے زوال کی کہانی کہنے کے لیے جن کرداروں کا نتخاب کیا ‘ان جیسے کرداروں کا مشاہدہ کرنے اور انہیں ڈھنگ سے لکھنے کے لیے اسے اپنی معمول کی زندگی سے باہر نکلنا پڑا ہوگا۔ اس ناول کی طوائف النسل عورتیں اعلی تعلیم یافتہ ہو کر بھی مردود ٹھہرتی ہیں۔ کمزور ماضی رکھنے والوں کی کئی نسلوں کووقت لتاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ عندلیب بیگ ‘ ڈاکٹر عنبرین اور نگار خانم کی اس کہانی میں بھی فنا اور انسان کی بے وقعتی کی تصویریں یہاں وہاں بکھری پڑی ہیں۔
“ سامنے ایک دیوار پر نشانات لگے ہوئے تھے۔ فلاں سنہ میں گومتی کا سیلاب اس نشان تک …فلاں سنہ میں اس نشان تک … فلاں میں…
“نسلیں پانی کی طرح بہتی جاتی ہیں۔کبھی ان میں تغیانی بھی آجاتی ہے۔ تب بڑی تباہی مچتی ہے۔ “ میں نے کہا : آخری طوفان کب آئے گا؟”
“گردش رنگ چمن”
قرۃ العین حیدر کے افسانوں کے موضوعات اور اس کے کرداروں کے میلانات اس کے ناول کے موضوعات اور کرداروں سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں ہیں۔ بلکہ یہ کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ اس کے افسانے کا اسلوب بھی اس کی ناول نگاری کے زیر اثر رہا۔ ہر قابل قبول کہانی زندگی کی ایک قاش کی بجائے کل کو کلاوے میں لینے کی طرف لپکتی رہی ہے۔ یہاں بھی وہی بانجھ محفلیں ہیں۔ وہی بالائی طبقہ ہے اور اس کی بے عملی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ کہیں کہیں ستاروں کی طرح چمکتے دمکتے متحرک کردار۔ “ستاروں سے آگے” “توٹتے تارے” ‘ “شیشے کے گھر”،” پت جھڑ کی آواز”،”فصل گل آئی یا اجل آئی”اور” جگنوئوں کی دنیا” سے لے کر “یاد کی دھنک” تک کے افسانوں کو پڑھتے چلے جائیں آپ اپنے آپ کو ایک ذہنی مسافرت میں پائیں گے۔ ایک طرف طبقہ اشرافیہ ہے اور دوسری طرف وہ کردار جو اس طبقے کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ایک طرف زندگی صرف گندگی کا نام ہے غربت اور نارسائی کا نام ہے۔ اور دوسری طرف سب کچھ ہے مگر یک رنگی ہے۔ بے کیفی ‘ خستگی اور اکتاہٹ ہے۔ زندگی کا کوئی مقصد نہیں لہذا قہقہے بھی کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے “جلاوطن”،”ہائوسنگ سوسائٹی”،” پت جھڑ کی آواز”،”کارمن”، “ فوٹو گرافر” اور اس طرح کے کامیاب اور قابل توجہ افسانوں میں زندگی کو ایک بھید کی طرح لیا ہے اور اسے تاریخ ‘ وقت اور تہذیبی تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو قرۃالعین کا یہ کارنامہ بنتا ہے کہ اس نے اپنے عورت ہونے کو کمزوری نہیں جانا اسے اپنی تخلیقی قوت بنایا ہے۔ معروف لکھنے والوں کے زمانے میں لکھنا شروع کیا مگر مرعوبیت کو قریب نہ پھٹکنے دیا لہذا اپنی الگ سے شناخت بنائی۔ کہانی کو محض چٹکلہ یا پھر لذت پارہ نہیں رہنے دیا‘ اس کے سینے میں دل اور سر کے کاسے میں بھیجا رکھ دیا۔ ایک تہذیب کو دکھ کے ساتھ منہدم ہوتے دیکھا ضرور مگر اس کے بین لکھنے اور نئے وقت کی طنابیں کھینچنے کی بجائے اس سارے عمل کو تاریخی تناظر میں دیکھا اور یوں اردو ناول پر گہرے اثرات مرتب کرکے مطمئن اگلے زمانوں کی راہ لی ہے۔
شعیب صاحب! قراۃ االعین حیدر کے بارے میں اتنا خوبصورت تجزیہ اور اس حد تک دلکش تحریر میں نے پہلے نہیں پڑھی۔ میں جوں جوں اسے پڑھتا جاتا تھا میرا بے اختیار دل کر رہا تھا کہ میں حمید شاہد صاحب سے بالمشافہ ملوں اور اس قدر محبت گوندھنے پر ان کا شکریہ ادا کروں۔ جناب آپ بھی لائق تحسین ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمیں اس طرح کے عظیم لوگوں کے بارے میں بہت معیاری پڑھنے کو مل جاتا ہے۔
قراۃ العین بہت عظیم خاتون تھیں اور ان کا سارا کام ہی پڑھنے والوں کو حیرت کی وہ جاگیر دیتا ہے جس سے زندگی کے متعلق ان کے نظریات نئے سرے سے ترتیب پاتے ہیں۔ میرے ساتھ تو یہی ہوا ہے۔
آپ سے گزارش ہے کہ میرے جذبات آپ حمید شاہد صاحب تک بھی پہنچا دیجئے گا۔ اسے قراۃ العین حیدر کے تخلیقی کام کے حوالے سے نمائندہ تحریر کہا جانا چاہئیے۔