شادمان لاہور کا فوارہ چوک آزادی کی تحریک اور نوآبادیاتی تاریخ سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والوں کو جدوجہد آزادی کے ایک شاندار باب کی یاد دلاتا ہے۔ جہاں تحریک آزادئ ہند کا ایک عظیم ہیرو سردار بھگت سنگھ اپنی مزاحمتی جدوجہد کی پاداش میں ملحقہ شادمان جیل میں تختہ دار پر جھولا تھا۔ کئی ایک شہریوں کی سالہا سال کی خواہش اور تقاضوں اور شہری سرکار کی دہائیوں کی سوچ بچار اور کسمساہٹ کے بعد ۲۳ مارچ ۲۰۱۲ء کو بھگت سنگھ کی پھانسی کی ستترہویں برسی کے دن چوک کا نام "بھگت سنگھ چوک” رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس اعلان پر لاہور کے بہت سے لوگوں میں مسرت اور شادمانی دیکھنے میں آئی لیکن ساتھ ہی حسب توقع شہر کی متعدد فرقوں کی جماعتوں نے بھی اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انتظامیہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے زیر اثر عدالت عالیہ میں اس انتساب کے خلاف شدید مخالفانہ پٹیشن داخل کر دی گئی ہے۔یہ سیاسی کشمکش کچھ ہی دنوں میں عدم رواداری اور حقیقت پسندانہ تاریخی شعور کے درمیان ایک علامتی جنگ کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

78287_442107859186583_1670183161_o

بھگت سنگھ ۱۹۰۷ کو ضلع فیصل آباد کے علاقہ جڑانوالہ کے ایک نواحی گاوں میں پیدا ہوا، جس کے خاندان کے بزرگ جلیانوالہ باغ امرتسر کی قتل و غارت کو ناصرف اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے بلکہ اس میں جانیں بھی گنوا چکے تھے۔ آنکھ کھولتے ہی اس نے آزادی اور انگریز سے بغاوت کے جذبات اپنے گھر سے سیکھے۔ لاہور میں انڈین نیشنل کالج (حالیہ نیشنل کالج آف آرٹس) میں حصول تعلیم کے دوران وہ آزادی کی مختلف تحریکوں میں سرگرم رہا اور سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج میں ان کے گروہ نے ملک بھر میں قابل ذکر اثرات مرتب کیے۔ ان کے گروہ میں سکھ دیو تھاپر، راج گرو اور اشفاق اللہ خاں جیسے لوگ شامل تھے۔ انہوں نے ملک بھر میں گاندھی کی سیاست اور جزوی آزادی کے مطالبوں پر کھل کے تنقید کی اور پہلی دفعہ انگریز سے کامل آزادی (پورن سوراج) حاصل کر کے یہاں سماجی و معاشی مساوات کی بنیاد پر نئے معاشرے کے قیام کا نعرہ لگایا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد انگریز سرکار نے اسے دو اور ساتھیوں کے ہمراہ ۲۳ مارچ ۱۹۳۱ء کو شادمان چوک کے قریب سابقہ جیل میں قبل از وقت رات کے اندھیرے میں پھانسی کو لٹکا دیا۔ تمام بڑے ہندوستانی رہنماوں کے علاوہ بانئ پاکستان محمد علی جناح نے بھی اس کی جدوجہد اور قربانیوں کو سراہا۔ ملک بھر کے شاعروں اور ادیبوں نے اسے منظوم اور نثر میں خراج تحسین پیش کیا اور یہ سلسلہ اب تک پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں جاری ہے۔

بھگت سنگھ کی جدوجہد سے پھانسی تک کی تمام جدوجہد شادمان کے فوارہ چوک کو اس کے نام سے منسوب کرنے کے لیے ایک معقول جواز ہے۔ لیکن مذہبی جماعتوں کے تحفظات بھگت سنگھ کی تمام جدوجہد کو نظر انداز کر کے اس کے مسلمان نہ ہونے والی خامی سے وابستہ ہیں۔ مختلف دینی مشائخ کے بقول ایک غیر مسلم شخص کے نام سے پاکستان میں کسی مقام کو منسوب کرنا ملکی آئین اور نظریہ کی خلاف ورزی ہے۔ انگریز حکومت نے چونکہ بھگت سنگھ کو دہشت گرد قرار دیا تھا، اس انگریزی نقطہ نظر کو اختیار کرتے ہوئے مذہبی جماعتوں نے بھی اس "سرکاری طور پر” دہشت گرد قرار دیے گئے شخص کو ہیرو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ عام پاکستانیوں کے عقائد اور مذہبی جذبات کی روشنی میں متبادل طور پر اس چوک کا نام "حرمت رسول چوک” تجویز کیا ہے۔ اس طرح بھگت سنگھ کی جدوجہد کے معترف پاکستانیوں کے لیے بھی نئے متبادل نام کو مسترد کرنا حفظ ایمان اور حفظ جان کا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں مقامات کے نام رکھتے ہوئے اس مقام سے وابستہ تمام منطقی جوازوں اور تاریخی حوالوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ چوک کا متبادل نام غازی علم دین کو پھانسی ملنے کی جگہ میانوالی جیل سے ملحق چوک، یا غازی عامر چیمہ کے آبائی گاوں ساروکی چیمہ کے کسی مرکزی مقام کے لیے ایک قطعی مناسب اور معقول تجویز نظر آتا ہے، لیکن کسی تاریخی منطق کے بغیر شادمان چوک کے لیے اس نام کی تجویز محض ایک عدم روادارانہ ردعمل برائے ردعمل ہے۔

جڑانوالہ میں پیدا ہونے اور لاہور میں پھانسی چڑھنے والا بھگت سنگھ جو اگرچہ آزادی کے سیکڑوں ہیروز کی طرح آزادی کی صبح کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکا لیکن پاکستان کی موجودہ سرزمین سے اس کا خمیر اٹھنے کی وجہ سے یہاں سے تعلق رکھنے اور آزادی سے قبل مرنے والی سیکڑوں شخصیات کی طرح اسے بھی اپنا ہم وطن سمجھنا اور اس کو اپنی تاریخ کا حصہ قرار دینا قطعی فطری اور معقول ہے۔

مذہبی جماعتوں کی طرف سے دھمکی آمیز رویہ اگرچہ نیا نہیں ہے تاہم بھگت سنگھ کی خدمات کے اعتراف کو خلاف آئین قرار دینا ناصرف پاکستانی آئین کی انتہائی غلط توجیہہ ہے بلکہ دنیا بھر میں اپنے دستور کو امتیازی اقدار کا حامل ہونے کا تاثر دینے کی ایک کوشش ہے۔

(Published in The Laaltain – Issue 6)

Leave a Reply