Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

'قرارداد' اور پاکستان: ایک بھولا بسرا تعلق

test-ghori

test-ghori

23 مارچ, 2013
رانا شعیب شہباز
قراردادِ لاہور، جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا،پاکستان کی ایک اساسی دستاویز تصور کی جاتی ہے۔۲۳ مارچ کو ایک قومی دن کے طور پر منانے کی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ اسی دن ۱۹۴۰ میں مسلمانان برصغیر نے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا با ضابطہ مطالبہ کیا۔تاہم کئی تاریخی حقائق اس مروجہ ریاستی بیانیے کے بارے میں سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا یہ قرارداد واقعی ایک علیحدہ ملک کے قیام کا اعلامیہ ہے، اگر ہے تو اس وقت کی مسلمان قیادت کی نظر میں اس ملک کے کیا خدوخال تھے، اور کیایہ مطالبہ برصغیر کےتمام مسلمانوں کی متفقہ رائے تھی اور اگر اس قرار داد پر اختلاف رائے موجود تھا تو اس اختلاف کی بنیاد کیا تھی۔اور یہ کہ اس مملکت خداداد کاوجوداپنی دستاویزی اساس سے کس قدر مطابقت یا انحراف پر مبنی ہے۔
۱۹۴۰ میں منظور ہونے والی قرارداد لاہور کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے ۱۹۳۷ء کےعام انتخابات بہت اہم ہیں جن میں مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی صوبوں میں بدترین شکست ہوئی۔صرف 4.6 فی صد مسلم آبادی نے مسلم لیگ کو ووٹ دئیے۔ اور یہ سندھ کی ۳۳ مسلم نشستوں میں سے ۳ پنجاب کی ۸۴ میں سے ۲، بنگال کی ۱۱۷ مسلم نشستوں میں سے ۳۹ اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں کوئی نشست حاصل نہ کر سکی۔ ان نتائج سے یہ تاثر ملتاہے کہ پاکستان کے قیام سے ایک عشرہ پہلے ہندوستان کے مسلمانوں نے اُس نظریے کو رد کر دیا تھا، جوبعدمیں پاکستان کی بنیاد قرار پایا اورہمیں اپنی نصابی کتب میں جا بجااس کا اعادہ کرایا جاتا ہے۔
اس زمانے میں مسلمانان برصغیر متحدہ ہندوستان میں اپنی سیاسی حیثیت کے تعین کے حوالے سے دو دھڑوں میں تقسیم تھے۔ وسطی ہندوستان کے اردو بولنے والے مسلم اقلیتی رہنما مرکزی طور پر متحد ریاست چاہتے تھے، جبکہ مسلم اکثریتی علاقے کے رہنما قوم، زبان اور ثقافت کے لحاظ سے الگ اور مکمل طور پر خودمختار ریاستیں چاہتے تھے۔ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں سندھ، پنجاب، بلوچستان، سرحد اور مشرقی بنگال کے مسلمان جمہوریت کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتے تھے لیکن دوسری طرف وسطی ہندوستان کے اردو بولنے والے مسلمانوں کے لیے جمہوریت کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھی۔ آئندہ آزاد ہندوستان میں کسی انحطاط یا استحصال سے بچنے کے لیے وسطی ہندوستان کے اردو بولنے والے مسلمانوں نے جلد از جلد مسلم لیگ کے قائدانہ عہدے سنبھال لیے اور ہندوستان کی مذہبی تقسیم اور الگ مسلم ریاست کا بیانیہ تشکیل دیا۔ جس میں سب سے مشکل کام تھا مسلم اکثریتی صوبے میں اس نئے بیانیے کو ترویج دینا اور وہاں کے مسلم قائدین کی حمایت حاصل کرنا۔ دھیرے دھیرے اس بیانیے کے سرپرستوں نے متنوع زبان و ثقافت کے حامل ایک مذہب اور ایک اسلامی ثقافت کے نام پر یکجا کرنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، جس کو ۳۷ء کے انتخابات میں تمام مسلم اکثریتی علاقوں نے رد کر دیا۔ ۳۷ء کے انتخابات میں ذیادہ نشستوں کی بنا پر مسلم اکثریتی علاقے کے بیانیے کا پلہ بھاری رہا۔
تاجِ برطانیہ نےدوسری جنگ عظیم میں ساتھ نہ دینے پر کانگریس پر صوابدیدی پابندی عائد کر دی۔اس سیاسی خلاء اور ۳۷ کے انتخابات کی شکست کے بعد مسلم لیگ کو نئے سرے سے ابھارنے کے لیے قائدِ اعظم نے۱۹۴۰ءمیں لاہور میں مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس بلالیا۔قبل اس کے کہ اے کے فضل الحق قرارداد پیش کرتے، جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں ایک جذباتی تقریر بھی کی لیکن اس کے باوجود کسی لیگی رہنما نے مرکزی مسلم ریاست کا مطالبہ نہیں کیا۔نواب شاہنواز ممدوٹ جو استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ تھے، انہوں نے اس تمام اجلاس کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے۔
عمومی تاثر کے مطابق قراردادِ لاہور نے حصولِ پاکستان کی جدوجہد کے لیے راہ ہموار کی تاہم قراردادِ لاہور کی دستاویز کے متن کا ذرا سا عمیق مطالعہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ سات سال پر محیط ان سات پھیروں کے بعد جب دولھن کے رخ سے پردہ ہٹایا گیا تو وہ اس سے برعکس تھی، جس کو ذہن میں رکھ کر پھیرے لیے گئے تھے۔قراردادِ لاہور کا مسودہ اے کے فضل الحق نے تیار کیا جس کے پانچ پیراگراف ہیں۔ ان میں تیسرا پیراگراف نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ تیسرے پیرے میں واضح کہا گیا ہے کہ مسلم اکثریتی صوبے آزاد ریاستوں میں تبدیل کیے جائیں گے جو ہر لحاظ سے آزاد اور خودمختار ہوں گے۔ یہ شق جناح اور مسلم اقلیتی علاقے کے اردو بولنے والوں کے بیانیے سے ڈرامائی طور پر متضاد تھی، جس سے صاف ظاہر ہے کہ واحد اور ایک ریاست کی بجائے علیحدہ علیحدہ اور خودمختار آزاد ریاستوں کی بات کی گئی ہے۔ جہاں وفاق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر اس میں سے ریاستوں کے اتحاد کا ہی نکتہ نکالا جائے تو قراداد کے متن کی رو سے ایک کنفیڈریشن کی بات کی گئی ہے۔ ریاستوں کے گروہ بنانے کی نیت زیادہ واضح ہے جس میں تمام ریاستیں مکمل طور پر آزاد، خودمختار اور مقتدر ہوں گی ناکہ ایک سخت گیر مرکزی نوعیت کی حامل واحد ریاست۔ چوتھا پیراگراف خودمختاری کی بات کو دوبارہ دہراتے ہوئے ہر مسلم اکثریتی صوبے کو باقی ماندہ ہندوستان سے الگ کرتے ہوئے اس ضرورت پر زور دیتا ہے کہ تمام غیر مسلم اقلیتوں کے لیے جو اُن مسلم اکثریتی صوبوں میں ہوں گی اور ان سب مسلمان اقلیتوں کے لیے جو باقی ہندوستان میں ہیں، آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔پانچویں اور آخری پیراگراف خودمختاری کے تصور اور دائرے کو وسیع کرتے ہوئے ورکنگ کمیٹیوں کو ایسی آئینی اسکیم تیار کرنے پر مامور کرتا ہے جس میں ہر ریاست اپنا اقتدار سنبھالے گی اور ہر ایک کو حق ہو گا کہ وہ اپنی فوج بنائے، خارجہ تعلق استوار کرے، مواصلات کا نظام بنائے، کسٹم ڈیوٹی لگائے اور اپنی مرضی سے انتظام چلائے۔اور اس طرح ہر مسلم اکثریتی صوبہ الگ سے ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہو گا۔
قراردادِ لاہور نے مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں اور مسلم اقلیتی صوبوں کے درمیان دراڑ واضح کر دی۔اول الذکر جو اپنے ہر مسلم اکثریتی صوبے کو ایک الگ آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر دیکھ رہے تھے، اور موخر الذکر جو تمام مسلم اکثریتی صوبوں کو ایک وفاق کے زیرِ اثر صوبوں کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ مستقبل میں کسی الجھن سے بچنے کے لیے حسین شہید سہروردی نے کہا کہ “ہر مسلم اکثریتی صوبہ علیحدہ سے ایک خودمختار اور آزاد ریاست ہوگا اور ہرصوبے کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ اپنا آئین بنائے یا صوبوں کی کسی دولتِ مشترکہ میں شامل ہو”۔ یہاں سے ایک اہم بحث جو شروع ہوئی اسے “پہلے خودمختاری، اور پھر شاید ریاستی اتحاد” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قراردادِ لاہور کا ایک اور اہم پہلو ہے کہ ہر ریاست کو خودمختاری دی جانا تھی، اور آبادی میں کسی قسم کی نقل مکانی یا تقسیم منصوبے پر نہیں تھی۔
جناح اور دوسرے مسلم لیگی قائدین کا فضل الحق کی اس قرارداد سے خفا ہونا فطری تھا۔ فضلِ حق پہلے سے یہ جانتے تھے کہ بنگالی مسلمانوں کے مفاد جناح اور اردو دھڑے کے لیے خاص نتائج کے حامل نہیں ہیں۔ فضلِ حق نے جناح کو “تین کروڑ مسلمانوں کے مقدر پر مکمل اجارہ اور قدرت رکھنے والے فردِ واحد بننے کا خواہشمند شخص” قرار دیا اور احتجاجاً مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری نوابزادہ لیاقت علی خاں کو لکھا کہ “جہاں تک میرا تعلق ہے، میں بنگال کے تین کروڑ مسلمانوں کے مفاد کو کسی بھی غیر بنگالی عملداری کا دستنگر نہیں ہونے دوں گا، چاہے وہ شخص کتنا ہی مؤقر کیوں نہ ہو”۔ تاہم مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور کی اصلیت کو پسِ پشت ڈال کر ایک مملکتِ واحدہ پاکستان کی بات شروع کر دی، تو فضلِ حق نے علی الاعلان کہا کہ “پاکستان کی اسکیم بنگال پر لاگو نہیں ہو سکتی”۔ فضل حق اور قراردادِ لاہور کو مسلم لیگ کی قیادت نےمہلک خطرہ سمجھا۔ قراردادِ لاہور تو ویسے ہی رہی البتہ اس بنیاد پر بات کرنے والے فضلِ حق کو دسمبر ۱۹۴۱ء میں مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔
قراردادِ لاہور اب مسلم لیگ کے پاکستان کے خواب کے لیے خطرہ بن گئی تھی تو ان کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو ایک نئی قرارداد لاتے، جو پاکستان بنانے کے حق میں ہو یا اسی قرارداد میں ترمیم کرتے۔تاہم بڑی پریشانی یہ تھی کہ ان دونوں متبادل راستوں کے لیے مسلم لیگ کا مکمل عام اجلاس بلانا اور اس سے منظوری لینا ضروری تھا۔ جس کے لیے جناح کو مسلم اکثریتی صوبوں سے تعاون کی امید کم نظر آرہی تھی۔ لہذا چھوٹے پیمانے پر اس کام کی تکمیل کے ضمن میںاپریل ۱۹۴۶ء میں دلی میں لیگ کا ایک چھوٹاقانون ساز کنونشن بلایا گیا۔ اس کنونشن میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ “یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان” کو تشکیل دیا جائے گا۔ کئی بنگالی ارکان اس تبدیلی سے ناخوش ہوئے۔ ابوالہاشم، ایک سینئر بنگالی رہنما وہاں موجود تھے، انہوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پاکستان کی مانگ قراردادِ لاہور سے براہ راست متصادم ہے اور مسلم لیگ کے جماعتی آئین کے مطابق اس طرح کی تبدیلی کے لیے مکمل عام سیشن ہونا ضروری ہے۔ قانون ساز کنونشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔ تو جناح نے فوراً ہاشم کی شکایت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لفظ ‘ریاست’ اور ‘ریاستیں’ سے متعلق واحد جمع کے مغالطہ کو ایک انگریزی کی یک حرفی انشائی غلطی قرار دیا۔ اس پر لیاقت علی خاں سے لاہور کے اجلاس کی میٹنگ کے ملفوظات لانے کا تقاضا کیا گیا جس پر ابوالہاشم کی بات سچ نکلی اور قائدِ اعظم نے اپنی غلطی پھر بھی تسلیم نہ کی اور ابوالہاشم کو یقین دہانی کرائی کہ قراردادِ لاہور کی ترمیم نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ قراردادِ لاہور ، پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے سامنے رکھی جائے گی۔ جناح کے اس بیان کے باوجود ابوالہاشم کے نقطۂ نظر کو کامیابی ملی کہ مسلم لیگ نے ایک ‘کم از کم مطالبات کی یادداشت’ ۱۲ مئی ۱۹۴۶ء کو تیار کی اور کہا کہ جب آئین ساز اسمبلی صوبے تشکیل دے گی تو تمام صوبوں کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ وفاق کا حصہ بنیں یا نہ بنیں اور نیا فارمولا بنایا گیا کہ پہلے ریاستی اتحاد، بعد میں شاید خودمختاری۔
پاکستانی ریاست کے قراردادِ لاہور کے مطابق تشکیل پانے کا یہ وعدہ جو قائدِاعظم نےمسلم اکثریتی صوبوں کی قیادت کے ساتھ کیاتھا، اس وعدے نےان قائدین کو قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں مسلم لیگ کے ساتھ جوڑا ہوا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد صوبوں کی مقامی قیادت تب تک قائدِ اعظم کے اس وعدے کے ایفا کی منتظر رہیتاوقتیکہ ستمبر ۴۸ء میں ریڈیو پاکستان پر قائدِ اعظم کی وفات کی خبر سنی گئی۔ بہ مشکل ایک سال گزرنے کے بعد کراچی میں نوابزادہ لیاقت علی خاں اور چند دیگر معززین نے ایک متبادل مسودہ پیش کیا جو کہ قراردادِ لاہور سے بالکل برعکس تھا۔ آئندہ آنے والے آئین ایسی ہی سخت گیر مرکزیت کو ملک کا فرمانروائی نظام قرار دیتے رہے۔ جبکہ ۱۹۷۱ء میں ناراض بنگالیوں کی علیحدگی کے بعد نئے آئین کو نسبتاً ذیادہ اطمینان سے وفاق مرکوز بنایا گیا۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم میں کہنے کو بعض اختیارات صوبوں کو دے دئیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود مقامی قیادت کو ان ترامیم کے مکمل اطلاق اور قائدِاعظم کے پَون صدی قبل کیے گئے وعدے پورے کیے جانے کا ابھی تک انتظار ہے۔
۲۳ مارچ کو ایک خاص قومی احترام اور تاریخی شان سے منایا جانے والا قومی دن، نصابی حوالوں میں تاریخ کے ایک عظیم باب ،قراردادِ لاہور کی یاد دِلاتا ہے۔ہر قوم کو اپنی قومی روح کو تازہ رکھنے کے لیے ایک بھرے سال سے ایک خاص دن کی ضرورت ہوتی ہے، جس دن وہ سارے کام کاج چھوڑ کر ایک جھنڈے کے نیچے اپنے قومی جذبات، سبھی ہم قوم ساتھیوں کے ساتھ بانٹ سکے۔ ہمارے لیے اِن دونوں اُمور میں سے کم از کم ایک کا ادراک ضروری ہے کہ اگر قراردادِ لاہور اور اس کے نکات محض تاریخ کا ایک خارج از بحث باب اور ایک بھولی بسری یاد ہیں تو ہمیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ناراض صوبوں کے اعتراضات کو ایک لامحالہ اور ناقابلِ گریز حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا، اور کرتے رہنا ہو گا۔ لیکن اگر قراردادِ لاہور آج بھی ایک اساسی اور برمحل دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، تو ہمارے لیے اس کے پس منظر میں چھپے تنازعات اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرنا ایک غیرحقیقت پسندانہ طرزِ عمل ہو گا۔ قراردادِ لاہور کے اِن نظرانداز کیے گئے پہلؤوں کو ہم اپنے قومی دن کی بحث کا حصہ بنا کر وفاق کو درپیش کئی ایک اصولی بحرانوں کے مسائل کے حل کے اشارے پا سکتے ہیں۔

(Published in The Laaltain – Issue 8)