Laaltain

قاری ظفر

22 مئی، 2017
Picture of ژولیاں

ژولیاں

قاری ظفر اپنی کوٹھڑی کے فرش پرنگاہ ڈال رہا ہے۔ فرش خون کی ٹیڑھی میڑھی لکیروں سے سجا ہوا ہے۔ یہ اُس کا خون ہے۔۔۔۔ ظفر کو اِتنے زور کی کھانسی آتی ہے کہ اُس کے منہ سے خون بہنے لگتا ہے۔ یہ کھانسی اُس کے جسم میں ایک زلزلہ پیدا کر رہی ہے۔ اُس کے جسم کا انگ انگ کانپ رہا ہے۔ اُسے کچھ ہفتوں سے زکام ہے جس نے بہت خوفناک شکل اختیار کر لی ہے۔

 

ظفر کمزور ہے اَور اُس کی یہ کمزوری اُسے سیمنٹ کے اُس چبوترے پر سیدھا لیٹنے پر مجبور کرتی ہے جو یہاں پلنگ کا کام دیتا ہے۔ اَور وہ سارا دِن چبوترے پر لیٹ کر فرش کی طرف تکتا رہتا ہے اور خون کی لکیروں کی گنتی کرتا ہے اَور لکیروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

 

یہاں مکھیاں بے شمار ہیں۔ ظفر کی کوٹھڑی اُن کی عبادت گاہ ہے۔ مکھیوں کا طواف دِن رات جاری رہتا ہے۔ بعض مکھیاں تھک ہار کر ظفر کے جسم پر بیٹھ جاتی ہیں۔ مگر ظفر میں اُنھیں جسم سے ہٹانے کی طاقت نہیں ہے۔

 

ساتھ والی کوٹھڑیوں سے مختلف آوازیں اُبھر رہی ہیں۔ وہ غلیظ گالیاں سُنائی دے رہی ہیں جو سِکھ قیدی ظفر کے پاک وطن کو دیتے رہتے ہیں۔ اور وہ فحش پنجابی گانے گونج رہے ہیں جنھیں گستاخی والے قیدی اپنے ریڈیو پر تمام دِن سُنتے رہتے ہیں۔ اور وہ خوبصورت تلاوتیں بھی سُنائی دیتی ہیں جو خود کش حملہ آور ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ یہ قیدی ظفر کے پسندیدہ قیدی ہیں۔ وہ غازی ہیں۔۔۔۔ غازی۔ ظفر اگراُن جیسا جوان ہوتا تو وہ غازی بن جاتا؛ مگر خدا کو کچھ اَور ہی منظور تھا۔ رب نے ظفر کو اپنا غازی نہیں‘ اپنا پولیس مین بنایا ہے۔۔۔۔

 

اب ظفر کی کھانسی شروع ہو گئی ہے۔ ایک نیا زلزلہ اُس کے جسم کو ہلانے لگا ہے۔ کچھ دیر بعد خون کا ایک فوارہ اُس کے منہ سے چھوٹنے لگتا ہے اور وہ فرش پر نگاہ ڈالتا ہے۔ فرش کی سُرخ لکیروں میں مزید اِضافہ ہو گیا ہے۔ اُس کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے۔

 

پہلے ظفر کو انتظامیہ کی طرف سے علاج کی اُمید تھی؛ مگر اُس نے جلد ہی یہ اُمید گنوا دی۔ اُسے اینٹی بائیوٹک اور ڈر پس کی ضرورت تھی، مگر اُسے صرف بروفین کی جعلی گولیاں نصیب ہوئیں۔ ظفر سزائے موت کا قیدی ہے؛ مگر عین ممکن ہے کہ وہ پھانسی لگنے سے پہلے ہی اپنے رب کے پاس پہنچ جائے گا۔ وہ اپنی کوٹھڑی کے تھڑے پر لیٹا لیٹا مر جائے گا۔ اَب اُس کی کھانسی بند ہو گئی ہے۔۔۔۔ زلزلہ ختم ہو گیا ہے۔۔۔۔ وہ سُکھ کا سانس لے رہا ہے۔۔۔۔

 

ظفر اِس جیل کی کوٹھڑی میں کیا کر رہا ہے؟ وہ کوئی مجرم نہیں ہے۔ جُرم سے اُسے سخت نفرت ہے۔۔۔۔ مگر انسان اندھے اور احمق ہیں۔ شیطان نے اُن کی سمجھ بوجھ ختم کر دی ہے، اَور اُنھوں نے ظفر کو جیل میں بند کیا ہوا ہے۔ اُس کا جرم؟ اُس نے صرف اپنا فرض اَدا کیا۔ اُس نے اپنے شہر میں خدا کا قانون نافذ کیا۔ وہ رب کا پولیس مین ہے۔۔۔۔

 

شیطان اَور ظفر کے مابین ایک ازلی دُشمنی ہے۔ شیطان ظفر سے اِس وجہ سے نفرت کرتا ہے کہ ظفر نے اُس کی بہت سی مخلوقات کو جان سے مار ڈالا۔ پھر شیطان نے اُس کے خلاف ایک سازش رچائی۔ ظفر کی گرفتاری اَور اُس کی سزائے موت اِسی سازش کا نتیجہ ہیں۔ مگر اُسے اِس شیطانی سازش کا شکار ہونے کا ملال نہیں ہے۔ اُس نے بھرپور زندگی بسر کی ہے اَور اپنی ذمے داریاں بھرپور طریقے سے نبھائی ہیں۔ ظفر اس دُنیا سے رخصت ہو نے والا ہے۔

 

مگر دُنیا کی رِیت یہ ہے کہ مرنے والا‘ دُنیا چھوڑنے سے پہلے اپنی زندگی کی فلم کے اہم مناظر دیکھتا ہے۔ سو ظفر کی آنکھوں کے سامنے کچھ اَہم منظر اُبھرنے لگے ہیں۔

 

2

 

ظفر کی شادی طے ہو گئی ہے؛ مگر وہ مجبوری میں شادی کرے گا۔ اُس کے والدین نے اُسے مجبور کیا ہے۔ وہ کئی سال سے ایک مدرسے میں درسِ نظامی پڑھ رہا ہے اَور اپنی زندگی دِین کی خدمت میں وقف کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اُس کے دِل میں شادی کرنے کی کوئی تمنا نہیں ہے؛ مگر اُس کے والدین ضعیف ہو چکے ہیں اَور اُن کی آنکھیں ظفر کے بچوں کے چہرے دیکھنے کو ترستی ہیں۔۔۔۔ والدین بڑی ضد کر رہے ہیں اَور ظفر بالآخر اُن کی ضد مان رہا ہے۔ وہ شادی کے لیے راضی ہو رہا ہے؛ مگر شادی سے پہلے وہ اپنے والدین کے سامنے اپنی شرطیں رکھ رہا ہے۔۔۔۔ شادی والے دِن نہ تو اُس کی بارات جائے گی اَور نہ ہی دُلہن کی ڈولی اُٹھے گی۔۔۔۔ نہ گیت گائے جائیں گے، نہ بھنگڑے ڈالے جائیں گے۔۔۔۔ اَور جوتا چھپائی کی رسم بھی نہیں ہو گی وغیرہ۔۔۔۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس کی شادی شریعت کے عین مطابق ہو۔ وہ خاندان کی پہلی اسلامی شادی ہو گی۔۔۔۔ ظفر کے والدین ساری شرطیں مان رہے ہیں۔ چھے ماہ بعد اُس کی شادی ہو رہی ہے۔

 

نکاح پڑھا گیا ہے۔ رخصتی ہو رہی ہے۔ اَب سہاگ رات شروع ہو رہی ہے۔ دُلھن گھونگھٹ میں سیج پر بیٹھی ہے اَور اُس کا گھونگھٹ اُس کے آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہے؛ اَور اُس کا بدن ڈر کے مارے کانپ رہا ہے۔ ظفر اپنی دُلہن کے مانند سہما ہوا ہے کیونکہ وہ آج پہلی بار اِزدواجی وظیفہ اَدا کرے گا‘ اَور اِس عمل کے بارے میں اُس کی معلومات صفر ہیں۔ مگر وہ کوشش کر رہا ہے اَور دُلہن کے مُکھڑے پر سے گھونگھٹ اُتار رہا ہے۔ دُلہن کا چہرہ اُجاگر ہو رہا ہے۔۔۔۔ اُس کا ناک نقشہ بہت معمولی ہے۔۔۔۔ آنکھیں چھوٹی، ہونٹ پتلے، ناک لمبی ہے۔۔۔۔ اَور اُس کی رنگت صاف نہیں ہے‘ دُلہن کالی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی؟ (بڑا دھوکا ہوا)۔ ظفر کی ماں نے اُسے کہا تھا کہ دُلہن بڑی خوبصورت ہے۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔ ظفر بتی بجھا رہا ہے؛اَور اندھیرے میں اپنا مردانہ فرض نبھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر دُلہن دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہے اَور اُس کی منّتیں کر رہی ہے۔۔۔۔ ”درد ہو رہا ہے۔۔۔۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔۔ خدا کا واسطہ‘ مجھے چھوڑ دیں!“۔۔۔۔ رب کا پاک نام سن کر ظفر فوراً رُک رہا ہے اَور دُلہن سے ُمنہ‘ دُوسری طرف کر کے سو رہا ہے‘ اَور وہ ایک ڈراؤنا سا خواب دیکھ رہا ہے۔

 

خواب میں وہ اپنے ولیمے کا منظر دیکھ رہا ہے۔ مگر منظر بڑا انوکھا ہے! سارے مہمان خنزیر بن گئے ہیں۔۔۔۔ اُن کی جلد گلابی ہے اَور اُن کی ناک سے گندی آوازیں نکل رہی ہیں۔ وہ ایک دُوسرے کو دھکّے دے رہے ہیں؛ اَور میزوں، کرسیوں اَور پلیٹوں پر گِر رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ کیا ہوا؟ جواب بڑا آسان ہے۔ ولیمے میں اُنھوں نے حرام کی روٹیاں کھائی ہیں۔ روٹیاں اس وجہ سے حرام کی ہیں کہ دُولھا ابھی تک ازدواجی وظیفہ اَدا نہیں کر سکا ہے۔۔۔۔ ظفر اچانک بیدار ہو جاتا ہے۔ اُس کا دِل تیزی سے دھڑک رہا ہے۔ اُسے ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں۔۔۔۔ آج چاندنی رات ہے۔ چاند کی ہلکی ہلکی چاندنی میں وہ اپنی دُلہن کو دیکھ رہا ہے۔ دُلہن گہری نیند سو رہی ہے اَور اُس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ہے۔ ظفر خوف زدہ ہو رہا ہے۔ دُلہن ّپکی ڈائن ہے۔۔۔۔ ّپکی شیطانی مخلوق ہے! کل پورے محلّے کو حرام کی اَشیا کھلائی جائیں گی‘ اور وہ مسکرا رہی ہے۔۔۔۔ ظفر کو اُس سے شدید نفرت ہو رہی ہے۔۔۔۔

 

ظفر ساری رات جاگ رہا ہے اَور غور و فکر کر رہا ہے۔ یہ بات اب اُس کے لیے ثابت ہوئی ہے کہ عورت ایک شیطانی مخلوق ہے اَور اُس کا مقصد دُنیا میں فتنہ پھیلانا ہے۔ اُس کی حیثیت چاہے دُلہن کی، ماں کی، بہن کی یا بیٹی کی ہو، اُس کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ مردوں کو تباہ کر کے زمین پر فتنہ برپا کرنا۔۔۔۔ اَور اِس وقت اُس کے قریب سیج پر ایک شیطانی مخلوق سوئی پڑی ہے۔۔۔۔

 

شیطان نے ظفر کو تباہ کرنے کے لیے اُس کے پاس اپنی مخلوق بھیجی ہے۔ مگر ظفر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شیطان سے نہیں ہارے گا۔ وہ اپنی دُلہن کو اَپنے بس میں کرے گا اَور اُسے ایک فرمانبردار دُلہن میں تبدیل کرے گا! ظفر کا اِرادہ نیک ہے۔ مگر اُس کی دُلہن اڑیل اَور سازشی ہے۔ وہ اُسے قریب نہیں آنے دیتی اَور اُس سے دُور بھاگتی ہے۔۔۔۔ شادی کو دو ہفتے گزر چکے ہیں، اَور ظفر ابھی تک اپنا اِزدواجی وظیفہ اَدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اُس نے بارہا کوشش کی مگر وہ ہر کوشش میں نامُراد ہی ٹھہرا۔

 

وہ تنگ آ کے اپنی دُلہن کو طلاق کی دھمکی دے رہا ہے؛ مگر وہ اُس کی دھمکی سن کر مسکرا رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ یہ طلاق ناممکن ہے۔ دُولہا بدنام ہو جائے گا۔ برادری والے سوچیں گے کہ وہ نامردی کا شکار ہے‘ وہ دُلہن کو قابو نہیں کر سکا، اِس لیے وہ اُسے چھوڑ رہا ہے۔ ظفر یہ ساری باتیں جانتا ہے اَور وہ سخت پریشان ہے۔ اُسے کسی سیانے بندے سے مشورہ لینا ہے۔۔۔۔

 

ظفر کا ایک پرانا دوست شہر کے مرکزی چوک پر گاڑیوں کا ایک شو رُوم چلا رہا ہے۔ اُس نے ولایت میں کچھ سال گزارے ہیں۔ اُس نے دُنیا دیکھی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے معتبر ہے۔ ظفر مشورے کے لےے اُس کے شو روم کو جا رہا ہے۔ اُس کا دوست اُسے اپنے کمرے میں بٹھا رہا ہے اور چائے پلا رہا ہے‘ اَور ظفر اُسے اپنا مسئلہ بیان کر رہا ہے۔ دوست سوچ میں ڈُوب رہا ہے۔ پھر وہ ظفر کو ایک عجیب سا طریقہ تجویز کر رہا ہے۔ ظفر اُسی رات وہی طریقہ اِختیار کر رہا ہے اَور دُلہن اُس کے قابو میں آ رہی ہے۔ ظفر کامیابی سے اپنا اِزدواجی وظیفہ اَدا کر رہا ہے۔

 

نو ماہ کے بعد ظفر کی پہلی اَولاد پیدا ہو رہی ہے۔ مگر ظفر اُس اولاد کو دیکھ کر بیزار ہو رہا ہے۔ بچی ہے بچی۔۔۔۔ چھوٹی عورت۔۔۔۔ اتنی مشکل سے دُلہن قابو میں آئی اَور شیطان نے ظفر کا امتحان لینے کے لیے اُس کے پاس ایک اَور مخلوق بھیج دی! چلو، کوئی بات نہیں! ظفر اُسے بھی قابو کرے گا! وہ اُس کا نام ”خدیجہ“ رکھ رہا ہے اَور بیٹے کی پیدائش کی اُمید میں باقاعدگی سے اِزدواجی وظیفہ اَدا کر رہا ہے۔

 

3

 

وقت بیت چکا ہے۔ ظفر کا درسِ نظامی مکمل ہو چکا ہے‘ اَور اُسے ایک نامور مدرسے میں مدرّس کی نوکری مِل گئی ہے۔ اُس کے والدین دُنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اُن کی ساری خواہشیں پُوری ہو چکی تھیں۔ اُن کے بیٹے کی شادی ہوئی اَور اُس کے ہاں اَولاد پیدا ہوئی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ظفر کی دُلہن کی کوکھ میں سے صرف لڑکیاں جنم لیتی ہیں۔ خدیجہ کے بعد فاطمہ پیدا ہوئی، پھر مریم، پھر تسنیم، پھر ُ طوبہ، پھر نصیبہ۔۔۔۔ ظفر کو بیٹے کا ابھی تک اِنتظار ہے۔ اُس کا گھر شیطانی مخلوقات سے بھرا ہوا ہے۔ اَور یہ مخلوقات ہر وقت شور شرابا مچائے رکھتی ہیں۔ جب اُن کا شور ظفر سے برداشت نہیں ہوتا تو وہ ڈنڈا اُٹھاتا ہے اور مار مار کر مخلوقات کو چُپ کراتا ہے۔ شور اُس سے برداشت نہیں ہوتا۔ مدرسے میں جب بچے شور مچاتے ہیں تو وہ اُنھیں بھی ڈنڈے مار کر چُپ کراتا ہے۔ مگر گھر کی مخلوقات کے برعکس بچے آسانی سے خاموش نہیں ہوتے۔ وہ چیختے، ّچلاتے، معافیاں مانگتے، مِنتیں کرتے۔۔۔۔ اَور اِس طرح بہت زیادہ شور مچانے کے بعد چُپ ہو جاتے ہیں۔

 

مدرسے کے مہتمموں کو ظفر کے کمرے سے اکثر بچوں کی چیخیں سُنائی دیتی ہیں۔اَور اُنھیں آہستہ آہستہ احساس ہوتا ہے کہ ظفر ضرورت سے زیادہ ہی ڈنڈے کا استعمال کرتا ہے۔ اُنھیں یہ اَندیشہ ہے کہ ظفر کا دماغی توازن درست نہیں ہے۔ اُس کا علاج کیسے ہو سکتا ہے؟ مہتمم آپس میں صلاح مشورہ کر رہے ہیں؛ اَور ظفر کو پگڑی والے تبلیغیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ظفر اُن کے ساتھ لمبے َدوروں پر جائے گا، گھومے پھرے گا، ملک کے مختلف حصّے دیکھے گا اور مختلف نسلوں سے ملے گا تو اُس کا دماغ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ اُس میں یقینا صبر اور برداشت کا مادہ پیدا ہو جائے گا۔

 

ظفر پگڑی والوں کے ساتھ ایک لمبے َدورے پر جا رہا ہے اَور نو ماہ تک ملک کی سڑکوں کی خاک چھان رہا ہے۔ اَور وہ لوگوں کے سیاہ دِلوں میں سچے مذہب کا ُنور بھی بکھیر رہا ہے۔ اَور اِس کام میں وہ خاصا کامیاب ہو رہا ہے۔ شمالی علاقے کے نیلی آنکھوں والے کافر، درمیانی علاقے کے کالے عیسائی اور جنوبی علاقے کے نیلے ہندو‘ اُس کے دلائل سن کر دِین کی جانب ملتفت ہو رہے ہیں اَور کلمہ پڑھ رہے ہیں۔۔۔۔ پگڑیوں والے اُس کے کارنامے دیکھ کر بہت متاثر ہو رہے ہیں اَور َدورے کے اختتام کے فوراً بعد اُسے اپنے سالانہ اجتماع میں لیے جا رہے ہیں۔

 

4

 

اجتماع ہر سال بڑے شہر کے قریب ایک کھلے میدان میں برپا ہوتا ہے۔ میدان میں جہاں تک نظر کام کرتی ہے، پگڑی والوں کے لمبے لمبے خیمے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے یونانیوں یا مغلوں کی عظیم فوج نے دوبارہ جنم لیا ہے اَور اس میدان میں ڈیرا لگایا ہے۔ اِجتماع کے رُوحِ رواں مولانا عباسی ہیں جو پگڑی والوں کے سربراہ ہیں۔ اُن کا دیدار ہر جگہ اَور ہر وقت کیا جا سکتا ہے۔ وہ کبھی سٹیج پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے ہیں، کبھی مسجد میں امامت فرماتے ہیں اَورکبھی کینٹین میں کباب کھاتے ہیں؛ اَور کھاتے کھاتے وہ اپنے اِرد ِگرد کھڑے پگڑی والوں کو اشیرباد دے رہے ہیں۔ ایک روز، کینٹین میں ظفر کو مولانا کا اشیرباد مل رہا ہے۔ ایک پرانا پگڑی والا اُسے مولانا سے ملا رہا ہے اَور جی بھر کے اُس کی تعریفیں کر رہا ہے‘ اور مولانا تعریفیں سن کر ظفر کے کندھے تھپتھپا کر َکہ ‘رہے ہیں: ”شاباش! آپ نے اچھا کام کیا۔ اجتماع کے بعد کسی دِن آپ میرے پاس تشریف لائیں، سکون سے باتیں کریں گے۔۔۔۔“ پھر مولانا اجازت لے کر اُٹھ رہے ہیں۔۔۔۔ اُنھوں نے بہت کباب کھائے ہیں۔ اَب مومنوں کو نماز پڑھانی ہے۔۔۔۔ دس منٹ کے بعد نماز شروع ہو رہی ہے۔ صفیں بچھ رہی ہیں اَور ظفر نمازیوں کی پہلی صف میں کھڑا ہے۔ مولانا عباسی نے اُس کی خدمات کے اعتراف میں اُسے اِس شان دار صف میں نماز پڑھنے کا اِعزاز بخشا ہے۔

 

نماز جاری ہے۔ مولانا عباسی کے پیچھے ہزاروں پگڑیوں والے کبھی کھڑے ہو کر، کبھی سجدہ کر کے دُعا پڑھ رہے ہیں‘ اَور اُن کی آوازیں باری باری اُبھر رہی ہیں۔۔۔۔ اَور آوازیں ایک دُوسرے کے ساتھ ملتے ملتے‘ ایک ہوائی گنبد تعمیر کر رہی ہیں، جس کے کلس پر ایک گہری اَور جلالی آواز گونج رہی ہے۔۔۔۔ مولانا عباسی کی آواز!

 

5

 

اِجتماع ختم ہو گیا ہے۔ ظفر اپنے شہر کو َلوٹ آیا ہے اَور اپنی تدریسی سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا ہے‘ اَور وہ اِس حد تک مصروف ہو گیا ہے کہ بڑے شہر جا کر مولانا عباسی سے ملاقات کا وقت نہیں نکال سکا۔ َدورے سے اُسے فائدہ ہوا۔ اُس کا ایمان پہلے سے زیادہ پختہ ہوا اَور وہ گھر یا مدرسے میں ڈنڈا اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ مہتمم بہت خوش ہیں۔

 

چار ماہ گزر گئے۔ ظفر کی مصروفیت کم نہیں ہوئی۔ وہ ابھی بڑے شہر نہیں گیا؛ اَور ایک دِن مدرسے کا ایک پگڑی والا ساتھی اُسے مولانا عباسی کی شہر میں تشریف آوری کی خوش خبری سُنا رہا ہے۔ مولانا نگینہ ہوٹل کے پریذیڈنٹ سوئیٹ میں ٹھہرے ہیں۔ ظفر موقع غنیمت جانتا ہے اَور اپنی موٹر سائیکل پر مولانا کی زیارت کرنے کی خاطر نگینہ ہوٹل کی طرف چل پڑا ہے۔

 

اَب ظفر مولانا کے سوئیٹ کے باہر کھڑا ہے اَور دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ مولانا دروازہ کھول رہے ہیں اَور ظفر کے دینی حُلیے کو دیکھ کر اُسے فوراً اَندر آنے کا َکہہ رہے ہیں۔ مولانا اکیلے ہیں۔ وہ ظفر کو ایک کرسی پر بٹھا رہے ہیں اَور خود ساتھ والے صوفے پر بیٹھ رہے ہیں۔ ظفر اِجتماع میں ملاقات کا ذ ِکر کر رہا ہے؛ مگر مولانا کو ملاقات یاد نہیں ہے۔ اَور یاد کس طرح ہو گی؟ ہر اِجتماع میں اُنہیں ہزاروں افراد ملتے ہیں۔ اَور وہ سب کے کندھے تھپتھپاتے ہیں اَور فراغت ہونے پر ملنے کا کہتے ہیں۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔ مولانا کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ اُنھیں بہت نیند آ رہی ہے۔ اُن کی آنکھیں بار بار بند ہو رہی ہیں۔ شاید اُنہیں بخار ہے۔۔۔۔ کمرے میں ایک غیر مانوس سی ُبو پھیلی ہوئی ہے۔ ظفر اس ُبو کو پہچان رہا ہے۔ رات کے وقت اُس کے محلّے کے عیسائی گھروں سے یہی ُبو آتی ہے۔۔۔۔ سو مولانا نے عیسائیوں کا مشروب پیا ہے؟۔۔۔۔ اچانک مولانا کا موبائل بج رہا ہے اَور مولانا کال لے رہے ہیں۔ ایک لڑکی پوچھ رہی ہے: ”جناب جی، میں اپنی دوست کے ساتھ آ جاؤں؟“ اَور مولانا ایک شرارتی مُسکان کے ساتھ جواب دے رہے ہیں:” ضرور سوہنیے، فوراً سے پہلے آ جاؤ۔۔۔۔“ پھر مولانا فون بند کر رہے ہیں اَور ڈکار رہے ہیں اَور اُن کی ڈکار قریب بیٹھے ظفر کے چہرے پر بج رہی ہے۔ ظفر کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔۔۔۔ وہ اُٹھ رہا ہے، اور بھاگتے بھاگتے کمرے سے باہر آ رہا ہے۔۔۔۔ وہ بھاگے جا رہا ہے۔۔۔۔ اور بھاگتے بھاگتے کوریڈور سے گزر رہا ہے۔ اَور اچانک اُس کے سامنے دو ُبر ِقع والیاں نمودار ہو رہی ہیں۔۔۔۔ ُبر ِقع والیوں نے خاصا میک اپ کیا ہوا ہے۔۔۔۔ اُن کی آنکھوں میں ُسرما چمک رہا ہے اور اُن کے چہروں پر سفید پاؤڈر کی ایک موٹی َتہ ‘جمی ہوئی ہے۔ اِن دونوں ُبر ِقع والیوں کے پیشے کے متعلق شک نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ دونوں ُبر ِقع والیاں ظفر کی حالت دیکھ کر اپنے برقعوں میں ہنس رہی ہیں۔ ظفر اُن سے کترا کر گزر رہا ہے اَور ہوٹل کے گیٹ تک پہنچ رہا ہے‘ اَوراُن دونوں کی میلی ہنسی گیٹ تک اُس کا پیچھا کر رہی ہے۔ پھر ہنسی ختم ہو رہی ہے۔ ظفر ہوٹل سے باہر آ گیا ہے اَور وہ قے کر رہا ہے۔

 

ظفر کی قے ختم تو ہو چکی ہے؛ مگر اب وہ کیا کرے گا؟ مولانا کے پاس واپس جانا دانشمندی نہیں ہے۔وہ اِس وقت اُن دونوں فاحشاؤں کے ساتھ مصروف ہوں گے، جنھوں نے اپنے بے ہودہ قہقہوں کے ساتھ اُس کی بے عزتی کی ہے۔ اُس کی موٹر سائیکل سامنے کی پارکنگ میں کھڑی ہے۔ وہ اُس پر سوار ہو رہا ہے اَور گھر کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اَور وہ سارے راستے سوچے جا رہا ہے۔ طرح طرح کے خیال اُس کے دماغ میں ّچکر کاٹ رہے ہیں۔ اُسے یقین ہے کہ مولانا فطرتاً نیک ہیں۔ نیک نہ ہوتے تو وہ پگڑی والوں کی تنظیم کیوں بناتے؟ وہ شرابی اَور زانی ہو گئے، مگر اُن کا کوئی قصور نہیں۔ قصور شیطانی مخلوقات کا ہے جو فتنہ پھیلا رہی ہیں۔ اُن کی مہم تیز ہو گئی ہے۔۔۔۔ اُنھوں نے مولانا جیسے نیک انسان کو بھی نشانہ بنایا۔۔۔۔ اُنھیں کچھ زیادہ ہی جوش آ گیا ہے۔ اُن کے حوصلے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں۔ اُنھیں روکنا لازم ہو گیا ہے۔

 

اَور ظفر اپنی موٹر سائیکل کی گدی پر بیٹھے بیٹھے، شہر کی سڑکوں سے گزرتے گزرتے خدا کا پولیس مین بن جانے کا فیصلہ کر رہا ہے۔

 

6

 

تین دِن بعد خدا کا پولیس مین رات کے بارہ بجے نگینہ ہوٹل کی پارکنگ کی ایک اندھیری ّنکڑ میں اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر رہا ہے اَور اُس کے ساتھ ٹیک لگا کر اِنتظار کر رہا ہے۔

 

ظفر کو پتا ہے کہ مولانا عباسی کو خراب کرنے والی مخلوقات اسی ہوٹل میں ہر رات دھندے کی غرض سے آتی ہیں۔ اُسے صرف اُنھِیں کا اِنتظار کرنا ہے۔ وہ ہوٹل سے باہر آتے ہی اُس کے جال میں پھنس جائیں گی۔ ظفر نے اپنے ویسٹ کوٹ کی اندر والی جیب میں ایک چاقو چھپایا ہوا ہے اَور وہ اُن کی جان لینے کے لیے تیار ہے۔۔۔۔

 

ظفر کو زیادہ دیر تک اپنی مطلوبہ مخلوقات کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اُس کے آنے کے آدھ گھنٹہ بعد ایک ُبر ِقع والی ہوٹل سے باہر آ رہی ہے۔ اُس کے ہاتھ میں ایک چمکیلا بیگ ہے جو طرح طرح کی حرام کی اَشیا سے بھرا ہوا ہے۔ چرس، شراب، کنڈوم۔۔۔۔ اَور حرام کے پیسے۔ ُبر ِقع والی مین روڈ پر کھڑی ہو رہی ہے اَور ایک رکشے کو روک رہی ہے۔ وہ رکشے میں سوار ہو رہی ہے۔ رکشا چل پڑا ہے۔ اتنی دیر میں ظفر اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہو رہا ہے۔ اَب وہ رکشے کا پیچھا کر رہا ہے۔۔۔۔

 

رکشا سُنسان سڑکوں سے گزر رہا ہے‘ اَور شہر کی ایک غریب آبادی میں پہنچ رہا ہے۔ یہاں مکان کچے ہیں، بجلی بے وفا ہے، اور صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ملبے کے ڈھیر ہر قدم پر موجود ہیں۔ اِس آبادی کے باسی غلیظ ہیں۔ اَور وہ فاحشہ جس نے ابھی ابھی ہوٹل میں کسی شرابی کے ساتھ زنا کیا ہے، وہ اُن کی اَولاد ہے۔۔۔۔

 

رکشا ایک گھر کے لوہے والے گیٹ کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔ ظفر ایک ملبے کے ڈھیر کے پیچھے موٹر سائیکل کھڑی کر رہا ہے اَور تھوڑے فاصلے سے منظر دیکھ رہا ہے۔ اُس کا د ِل تیزی سے دھڑک رہا ہے آنے والے پَل اُس کے لیے بہت اہم ہوں گے۔ اَب پتا چل جائے گا کہ اُس میں خُدا کا پولیس مین بننے کی ہمت ہے یا نہیں۔

 

ُبرقع والی رکشے سے اُتر رہی ہے‘ ڈرائیور کو ایک نوٹ پکڑا رہی ہے اَور رکشا چل پڑتا ہے۔

 

ُبر ِقع والی اب اکیلی ہے۔ مطلع صاف ہے۔ ظفر موٹر سائیکل سٹارٹ کر رہا ہے اَور تیز رفتاری سے فاحشہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اُس کے داہنا ہاتھ ہینڈل بار کو تھام رہا ہے جبکہ بائیں ہاتھ میں اُس نے چاقو پکڑ رکھا ہے۔ یہ چاقو فاحشہ کے پیٹ میں گھُس گیا ہے۔ خون بہہ رہا ہے اور فاحشہ ایک چیخ مار رہی ہے اور پھر زمین پر گر رہی ہے۔۔۔۔

 

اب خُدا کا پولیس مین اپنی پہلی ڈیوٹی دے کر گھر کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اُس نے شہر کی فاحشاؤں کو اُن کی ایک ہم پیشہ کو ذبح کر کے ایک تنبیہ دی ہے۔۔۔۔ اس تنبیہ کا اُن پر کیا اثر پڑے گا؟۔۔۔۔ ظفر کو نگینہ ہوٹل جا کر پتا چل جائے گا۔ اگر کسی فاحشہ نے اس تنبیہ کے بعد یہاں دھندا کرنے کی گستاخی کی تو وہ اُسے اُسی ڈھنگ سے ذبح کرے گا جس ڈھنگ سے اُس نے آج رات ایک لڑکی کو ذبح کیا۔ اَور ذبح کرنے کا یہ سلسلہ فاحشاؤں کی توبہ یا فنا تک جاری رہے گا۔

 

7

 

دو مہینے گزرے۔ فاحشاؤں نے ظفر کی پہلی تنبیہ کو نظر اَنداز کر دیا۔ اُنھوں نے توبہ نہیں کی۔ چنانچہ ظفر نے اُنھیں نئی تنبیہیں دیں۔ اُس نے اب تک بارہ فاحشاؤں کو مار دِیا ہے۔

 

ظفر کی زندگی بہت مصروف ہے۔ وہ ساتھ ساتھ دو طرح کے فرائض روزانہ نبھا رہا ہے۔ دِن کے وقت وہ مدرسے میں اپنے تدریسی فرائض نبھا رہا ہے، بچوں کو کلامِ پاک پڑھا رہا ہے۔ رات کو وہ رب کی ڈیوٹی اَدا کر رہا ہے اور فاحشاؤں کو ذبح کر رہا ہے۔

 

اُس نے تمام فاحشاؤں کو ایک ہی ڈھنگ سے ذبح کیا۔ اُس نے نگینہ ہوٹل کی پارکنگ میں اُن کا انتظار کیا، اُن کا تعاقب کیا اَور اُنھیں اُن کے گھر کے باہر چاقو سے مار دِیا۔ اُسے اس کام میں بہت مزہ آیا۔ اُسے افسوس بھی ہوا کہ اُسے اپنا نیک کام کرنے کے فوراً بعد بھاگنا پڑتا ہے۔ اگر تھوڑا وقت ملتا تو وہ موٹر سائیکل سے اُترتا اور فاحشہ کی آنکھوں کو چاقو سے حلقوں سے باہر نکالتا، یا اُن کی ناک یا کان کاٹتا اَور گلی کوچوں کے کتوں کے آگے ڈال دیتا۔۔۔۔ مگر کیا کریں؟ وقت نہیں ملتا تھا۔۔۔۔ فاحشائیں ذبح ہوتے وقت اِتنا شور مچاتیں کہ سارا محلّہ جاگ اُٹھتا۔ خلقت گھروں سے باہر نکلتی اَور ظفر کو موٹر سائیکل پر سوار ہو کر بھاگنا پڑتا۔۔۔۔
ہر قتل کے بعد ظفر کو ٹی وی پر اپنی کارروائی کے بارے میں خصوصی رپورٹ دیکھنے کو ملتی۔ رپورٹ میں مقتولہ فاحشہ کا نام اور عمر بتائی جاتی۔ اُس کے سوگوار گھر والوں اور ناراض ہمسایوں کا انٹرویو بھی دکھایا جاتا اَور ظفر بہت مطمئن ہوتا۔ میڈیا کے ذریعے اُس کی تنبیہ ‘ دُنیا کی سب فاحشاؤں تک پہنچ رہی ہے۔۔۔۔

 

8

 

ظفر کو ایک طرف اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ میڈیا والے اُس کی کارروائیوں کو پوری کوریج دے رہے ہیں۔ مگر دُوسری طرف اُسے یہ بات ستا رہی ہے کہ اُس کی کارروائیوں کا اصل مقصد کبھی بیان نہیں کیا جاتا۔ ظفر کا مقصد واضح ہے۔ مگر خدا جانے کیوں میڈیا والے اُس کی سب کارروائیوں کو ایک ”سیریل کلر“ کا کام گردانتے ہیں۔ یہ کیا بکواس ہے؟ ”سیریل کلر“ کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیریل کلر ”قتل برائے قتل“ کے قائل ہیں۔ اُن کی کارروائیاں بے مقصدہوتی ہیں۔ مگر ظفر کے قتل ایک مقصد کے تحت انجام پاتے ہیں۔ ”سیریل کلرز“ ذہنی اُلجھنوں کا شکار ہیں۔ مگر ظفر کا دماغ دورے پر جانے کے بعد بالکل ٹھیک ہو گیا ہے۔ اَور ابھی تک بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔ میڈیا والے عوام کے دماغوں میں غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔۔۔۔اور ظفر سوچنے لگا ہے کہ اُسے اِن غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے لیے کسی دِن میڈیا کے سامنے آنا پڑے گا، اور تفصیلی بیان دینا پڑے گا۔۔۔۔ اگر یہ کام نہ ہوا تو غلط فہمیاں بڑھ جائیں گی، پھیل جائیں گی اَور اُس کی سب کارروائیوں کا مقصد بالکل فوت ہو جائے گا۔

 

مگر اُس کی کارروائیوں کو پہلے ہی نظر لگ چکی ہے۔ وہ اچانک ختم ہو گئی ہیں۔ ظفر ہر رات نگینہ ہوٹل کے باہر کھڑا ہوتا ہے اَور گھنٹوں فاحشاؤں کی راہ تکتا ہے، مگر کوئی بُر ِقع والی نظر نہیں آتی۔۔۔۔ فاحشاؤں نے دھندے سے توبہ کر لی؟ نہیں’ بالکل نہیں! اُنھوں نے صرف نقل مکانی کی ہے۔ ظفر کی کارروائیوں نے اُنھیں چوکنا کر دیا اَور اُنھوں نے ہوٹل کو چھوڑ کر عام گھروں میں دھندا شروع کر دیا ہے۔ ظفر اُن دو نمبر گھروں کو کیسے پہچانے گا؟ اُسے کبھی کبھی لگتا ہے کہ فاحشائیں اُ س کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔

 

مگر حوصلہ ہارنا رب کے پولیس مین کے اِیمان کے خلاف ہے۔۔۔۔ اُس کی کارروائیاں نیک ہیں۔ وہ ایسے رُک نہیں سکتیں! فاحشاؤں نے اپنا طریقہ واردات بدل لیا ہے۔ ظفر بھی اپنا طریقہ واردات بدل لے گا اَور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا!

 

9

 

فریدہ فاروق، ایک جانی پہچانی سیاست دان، ایک جلسے میں شرکت کے لیے شہر آنے والی ہے۔۔۔۔ شہر کی سب دیواریں اُس کے بڑے بڑے پوسٹروں سے سجی ہوئی ہیں۔ ظفر روزانہ مدرسے کو جاتے وقت اُن پوسٹروں کے سامنے سے گزرتا ہے اور فریدہ فاروق کے گول سے چہرے کو غور سے دیکھتا ہے جو پوسٹروں کے کناروں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک بے شرم چہرہ ہے۔ آنکھیں دیکھنے والوں کو دعوتِ نفسانی دیتی ہیں۔ ہونٹوں پر ایک فحش مُسکان ہے۔ اَور زُلفیں وحشی ہو کر ماتھے اَور گالوں پر بکھر گئی ہیں۔ فریدہ فاروق یقینا چادر اوڑھنے کو گناہ سمجھتی ہے۔۔۔۔ ظفر کو اُس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔۔۔۔ یہ بی بی مغرب زدہ ہے اَور معاشرے کے اُونچے طبقے سے تعلق رکھتی ہے مگر دراصل وہ ایک فاحشہ ہے۔۔۔۔ ایک شیطانی مخلوق‘ جو اپنی فحاشی کے ذریعے عوام کو تباہ کر رہی ہے۔ اَور اُسے دیکھتے دیکھتے ظفر ایک فیصلہ کر رہا ہے۔ وہ اُسے دُوسری فاحشاؤں کی طرح ذبح کرے گا۔۔۔۔

 

مگر اُسے گھیرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ وہ ایک وی آئی پی ہے۔ وہ رکشوں میں نہیں‘ بکتربند گاڑیوں میں سفر کرتی ہے۔ اُس کے ساتھ چوبیس گھنٹے سیکیورٹی ہوتی ہے۔ کارروائی کے دوران میں مارے جانے یا پکڑے جانے کا بڑا خطرہ ہے۔۔۔۔ مگر دونوں صورتیں رب کے پولیس مین کو منظور ہیں۔ اگر اُسے مار دیا گیا تو وہ جنت میں جائے گا۔ اگر اُسے پکڑ لیا گیا تو وہ جج کے سامنے بھری عدالت میں اپنا بیان دے گا۔ اَور میڈیا والے اُس کی عدالت میں حاضری اَور بیان کو پوری کوریج دیں گے۔ اَور اُن غلط فہمیوں کا ازالہ خود بخود ہو جائے گا جو عوام کے دماغوں میں رچ بس گئی ہیں۔ عوام کو پتا چل جائے گا کہ فاحشاؤں کو ذبح کرنے والا بندہ کوئی پاگل اَور بے مقصد سیریل کِلر نہیں،وہ بچوں کو پڑھانے والا باریش آدمی ہے جس نے رب کی جانب سے شہر کو شیطانی مخلوقات سے پاک کرنے کی مہم شروع کی ہے۔

 

فریدہ فاروق کے پوسٹروں پر جلسے کی تاریخ، وقت اَور مقام لکھا ہوا ہے۔ یہ ظفر کے لیے ایک کھلی دعوت ہے۔ وہ جلسے کے دوران میں فریدہ فاروق کو ذبح کرے گا، جب وہ سٹیج پر کھڑی ہوگی اَور عوام کو مخاطب کرے گی۔ اَور وہ ایک چاقو کے بجائے ایک پستول سے کام لے گا۔ گولیاں چلتے ہی جلسے میں بھگدڑ مچ جائے گی، جس سے فائدہ اُٹھا کر ظفر فرار ہو جائے گا۔

 

ظفر کا منصوبہ بن گیا مگر پستول کا بندوبست کرنا ہو گا اَور اُسے چلانا بھی سیکھنا ہو گا۔ جلسہ اگلے ہفتے ہے۔ ظفر کے پاس صرف چھے دِن ہیں۔ ظفر پستول کے سلسلے میں اپنے محلّے کے ایک سابقہ مجاہد سے رجوع کر رہا ہے، جس نے جوانی میں افغانستان اَور کشمیر میں جہاد کیا تھا اَور جس کے بچے ظفر سے مدرسے میں پڑھ رہے ہیں۔ ظفر اُسے سمجھا رہا ہے کہ جائیداد کی وجہ سے اُس کا دُور دراز کے کچھ رشتے داروں سے جھگڑا ہو گیا ہے اَور اُسے اپنے تحفظ کے لےے پستول کی ضرورت ہے۔ سابقہ مجاہد اُسے ایک عمدہ پستول دے رہا ہے‘ اور کسی ویران مقام پر لے جا کر اُسے پستول چلانے کی مشق کروا رہا ہے۔ ظفر مجاہد کی نگرانی میں تین دِن مشق کرتا ہے اور اُس کا نشانہ بہتر سے بہتر ہو رہا ہے۔

 

10

 

جلسہ شہر کے جناح باغ میں ہو رہا ہے۔ ظفر وہاں پہنچ چکا ہے۔ سٹیج کو فریدہ فاروق کے پوسٹروں سے سجایا گیا ہے اور کرسیوں کی صفیں سٹیج کے سامنے بچھ گئی ہیں۔ ظفر جلدی پہنچ گیا ہے۔ اس لیے اُسے پہلی صف میں جگہ ملی ہے۔۔۔۔ وی آئی پی لوگوں کی کرسیوں کے نزدیک۔ پہلی صف میں بیٹھتے ہی اُس نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔ سٹیج بالکل سامنے ہے۔ اُس کی گولیاں نشانے پر ضرور لگ جائیں گی۔ فریدہ فاروق نہیں بچے گی۔

 

ظفر اِطمینان سے جلسے کے شروع ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ بے چینی ختم ہو گئی جسے وہ شروع میں قتل کرنے سے پہلے محسوس کرتا تھا۔ اُسے قتل کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اب وی آئی پی قریب والی کرسیوں پر بیٹھ رہے ہیں۔ ظفر بار بار اپنے ویسٹ کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال رہا ہے اور اُنگلیوں سے اپنے اُس پستول کو سہلا رہا ہے جو کچھ دیر بعد دُنیا پر ایک بڑی مہربانی کرے گا۔

 

جلسے کا آغاز ہو رہا ہے۔ فریدہ فاروق سٹیج پر تشریف لا رہی ہے۔ حاضرین بھرپور تالیوں سے اُس کا استقبال کر رہے ہیں۔ اُس کی پارٹی کے کچھ جوشیلے کارکن اُس پر پھُولوں کی بارش کر رہے ہیں۔ اُنھیں دیکھ کر ظفر کو وہ تماش بین یاد آ رہے ہیں جو مجرے کے دوران میں فاحشاؤں پر نوٹ نچھاور کر رہے ہیں۔۔۔۔ پھر تالیاں رُک رہی ہیں اَور پھولوں کی بارش ختم ہو رہی ہے۔ فریدہ فاروق مائیک کے پاس کھڑی ہو رہی ہے اَور اپنی تقریر شروع کر رہی ہے۔۔۔۔ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔۔ میں آپ سب لوگوں کی شکر گزار ہوں کہ آپ اِتنی بڑی تعداد میں اس جلسے میں تشریف لائے ہیں۔ میں چودھری سلیم، ملک احسان اللہ اَور راجا مبشر کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنھوں نے اِس شان دار جلسے کا اہتمام کیا ہے اَور مجھے۔۔۔۔“ فریدہ فاروق اپنا فقرہ مکمل نہیں کر پا رہی ہے۔ رب کا پولیس مین اپنی کرسی سے اُٹھ رہا ہے اَور پستول نکال کر فریدہ فاروق پر گولیاں چلانا شروع کر رہا ہے۔۔۔۔ اُس کی تین گولیاں فضا میں گم ہو رہی ہیں، مگر دو گولیاں نشانے پر لگ رہی ہیں۔ فریدہ فاروق نیچے گر رہی ہے۔۔۔۔ جلسے میں بھگدڑ مچ رہی ہے۔ حاضرین چیخ رہے ہیں اَور چاروں طرف بھاگ رہے ہیں۔ کرسیاں اُلٹ رہی ہیں اَور زمین ہل رہی ہے۔ مگر پارٹی کے کارکنوں کو اچھی تربیت ملی ہے۔ وہ جلد ہی حرکت میں آ گئے ہیں۔ کچھ کارکن فریدہ فاروق کو ہسپتال لے جا رہے ہیں۔ دیگر کارکن رب کے پولیس مین پر گھیرا ڈال رہے ہیں۔ اُس کا پستول چھین رہے ہیں۔ اُسے ُمنہ ‘کے بل زمین پر لٹا رہے ہیں۔ پھر پولیس اہلکار پہنچ رہے ہیں اَور کارکن فریدہ فاروق کے قاتل کو اُن کے حوالے کر رہے ہیں۔ پولیس اہلکار اُسے ہتھکڑیاں ڈال کر اپنی پِک اَپ میں صدر تھانے لے جا رہے ہیں۔

 

پِک اَپ میں بیٹھے بیٹھے ظفر سوچ بچار کر رہا ہے۔ رب نے اپنے وفادار پولیس مین پر کرم کیا۔ کارکن اُسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنا سکتے تھے، خلقت اُسے زندہ جلا سکتی تھی۔ مگر خلقت گولیوں کی آواز سنتے ہی تتر بتر ہو گئی اَور کارکنوں نے ضبط کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ اُسے ایک تھپڑ بھی نہیں پڑا۔۔۔۔ دراصل لوگوں نے اُس کی ڈاڑھی اور ٹوپی کا لحاظ کیا۔ لوگ اچھے ہیں مگر کتنے گمراہ ہیں۔۔۔۔ اُنھیں یہ نہیں پتا کہ اُن کا اصل دُشمن رب کا پولیس مین نہیں‘ وہ فاحشہ ہے جس کی خاطر وہ اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔۔۔۔

 

صدر تھانے میں ایس پی صاحب بڑی عزت سے ظفر سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ وہ پہلے کچھ رسمی سے سوال پوچھ رہے ہیں:”صوفی صاحب، آپ نے یہ مرڈر کیوں کیا؟۔۔۔۔آپ کی کسی تنظیم یا پارٹی سے وابستگی ہے؟۔۔۔۔آپ کا پیشہ کیا ہے؟“۔۔۔۔ اور ظفر اپنا بیان ریکارڈ کرا رہا ہے:

 

”ایس پی صاحب‘ ہمارے درمیان ایک بات مشترک ہے۔ ہم دونوں پولیس والے ہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ آپ ریاست کی طرف سے ڈیوٹی نبھا رہے ہیں، اَور میں خدا کی طرف سے۔۔۔۔“

 

پھر ظفر اعلان کر رہا ہے کہ فریدہ فاروق کا قتل ایک ایسی مہم کا آخری مرحلہ ہے جو تین ماہ پہلے شروع ہوئی ہے‘ اَور ظفر اپنی پچھلی کارروائیوں کا تفصیلی ذکر کر رہا ہے۔۔۔۔ ایس پی صاحب خاموشی سے اُس کی باتیں سن رہے ہیں۔ ایک ٹائپ رائٹر کی ٹِک ٹِک مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ کمرے کے ایک کونے میں محر بیٹھا ہے جو اپنی مشین سے ظفر کے بیان کا ہر لفظ ٹائپ کر رہا ہے۔ ظفر خوش ہے۔ اُس کا بیان اس وقت محفوظ ہو رہا ہے۔ آنے والی نسلیں اُس سے عبرت پکڑیں گی۔

 

ظفر خاموش ہو رہا ہے۔ اُس نے اپنا پورا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔ ایس پی صاحب بھی خاموش ہیں۔ اُنھیں مزید پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں ہے۔ ظفر نے اپنے بیانات کے ذریعے اُن کے سب سوالوں کا جواب دے دِیا ہے۔ ظفر کو حوالات میں بند کیا جا رہا ہے۔اَور ایس پی صاحب اُس کا ٹائپ شدہ بیان لے کر عدالت جا رہے ہیں۔ اُن کے جانے کے بعد ایک مشہور ٹی وی چینل کا وفد ظفر کا اِنٹرویو لینے آ رہا ہے۔ وفد نے سپاہیوں کو رشوت دے کر ظفر تک رسائی حاصل کی ہے۔ ظفر بڑی خوشی سے اُن کے سوالوں کا جواب دے رہا ہے اَور اُن کا کیمرہ اُسے فلمائے جا رہا ہے۔ وہ کتنا خوش نصیب ہے!۔۔۔۔ وہ گمنامی سے نکلا ہے۔ وہ پولیس مین سے ہیرو بن گیا ہے۔ آج رات لاکھوں لوگ اپنے ٹی وی پر اُس کا اِنٹرویو دیکھیں گے اَور بیان سُنیں گے!

 

ٹی وی والے اچانک اجازت لے رہے ہیں۔ سپاہیوں نے اُنھیں اطلاع دی ہے کہ ایس پی صاحب عدالت سے چل پڑے ہیں۔۔۔۔ پھر دس منٹ بیت گئے ہیں اَور ایس پی صاحب تھانے میں قدم رکھ رہے ہیں‘ اَور حوالات کے سامنے کھڑے ہو کر ظفر کو مخاطب کر رہے ہیں: ”صوفی صاحب، آج دوپہر آپ جیل جا رہے ہیں! آپ کا مقدمہ وہیں چلے گا“۔۔۔۔

 

ظفر کا مقدمہ کچھ ہفتے جیل کی حدود میں چلے گا۔۔۔۔ مگر اُس کی طبیعت اُسے ایک ہی بار عدالت کے سامنے حاضر ہونے کی اجازت دے گی۔۔۔۔ اَور جج صاحب اُس کی غیر حاضری میں اُسے سزائے موت سنائیں گے۔

 

11

 

فلم ختم ہو گئی۔ ظفر ماضی میں گھوم پھر کر اپنی کوٹھڑی میں پلٹ آیا ہے۔ وہ سیمنٹ والے چبوترے پر لیٹا ہواہے۔ مکھیوں کا طواف ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ اَور اُس کی نظریں فرش پر خود ہی ٹِک رہی ہیں‘ اور ظفر خون کی لکیروں کی گنتی کرنے لگتا ہے۔۔۔۔

 

مگر ظفر زیادہ دیر تک لکیروں کی گنتی نہیں کر پائے گا۔۔۔۔ نور آہستہ آہستہ اُس کی آنکھوں سے علیٰحدہ ہو رہا ہے۔۔۔۔ وہ نابینا ہو رہا ہے۔

 

ظفر کی آنکھیں بے کار ہو گئی مگر اُس کے کان ابھی تک کام کر رہے ہیں۔۔۔۔ اُسے سب آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ سِکھوں کی گالیاں، گستاخوں کا ریڈیو، غازیوں کی تلاوتیں۔ اَور اُن آوازوں میں انوکھی آوازیں شامل ہو گئی ہیں۔۔۔۔ چالیس نئے قیدی آ گئے ہیں۔ گارڈز اُنھیں ظفر کی وارڈ کے پیچھے لاتے اَور تلاشی کے بہانے اُن سے پیسے، گھڑیاں اَور لاکٹ چھین رہے ہیں۔ نئے قیدی اُن کی منّتیں کر رہے ہیں، مگر گارڈز اُنھیں کچھ بھی واپس کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔۔۔۔ اَور جب کوئی نیا قیدی تلاشی دینے سے اِنکار کر رہا ہے، تو گارڈز اُس کی شلوار اُتار کر اُس کی چھترول کر رہے ہیں اَور قیدی کی چیخیں فضا میں بلند ہو رہی ہیں۔ ظفر کو اُن کی چیخیں سن کرمدرسے کے بچوں کی چیخیں یاد آ رہی ہیں۔۔۔۔ اَور اُسے تھوڑا سا افسوس ہو رہا ہے۔۔۔۔ اُس نے اُن معصوموں پر بہت ظلم کیا۔۔۔۔

 

ظفر کے کان آہستہ آہستہ اُس کی آنکھوں کے مانند بے کار ہو رہے ہیں۔۔۔۔ باہر کی آوازیں گم ہو گئی ہیں۔۔۔۔ اب ظفر کو صرف اپنے بدن کے اندر کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔۔۔۔ رگوں میں لہو کا بہنا، سینے میں دِل کا دھڑکنا، پیٹ میں انتڑیوں کا لڑنا۔۔۔۔ اور اُس کی روح آہستہ آہستہ اُس کے بدن سے رخصت ہو رہی ہے۔ وہ پرلی طرف جا رہی ہے۔۔۔۔ وہاں اندھیرا پھیل چکا ہے اَور اندھیروں میں ایک دھیمی سی َلو جل رہی ہے۔۔۔۔ نیچے پانی ہے۔۔۔۔ ظفر کی رُوح پانیوں پر پھسل رہی ہے۔ سردی اِس وقت بہت زیادہ ہے۔ رُوح سردی کے باعث سکڑتی جا رہی ہے اَور اتنی چھوٹی ہو رہی ہے کہ رب کی طاقتور آنکھیں بھی اُسے نہیں دیکھ سکتیں۔۔۔۔ ظفر کے مرنے کے بعد اُسے جیل کی باہر والی دیوار کے نیچے ایک بے نام قبر میں دبایا جائے گا۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *