شیزی توصیف ایڈوکیٹ
کہتے ہیں کسی معاشرے کے تہذیب و تمدّن کوجانچنا ہو تو وہاں کے ٹریف نظام کو دیکھ لیا جائے، کسی معاشرے کی ترقی کا اندازہ لگانا ہو کہ وہ کتنے خوشحال ہیں توپھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کی فی کس آمدنی کیا ہے اوروہ ہیومن ڈویلپمنٹ اِنڈیکس(Human Development Index) کے کس درجے پر ہیں۔لیکن میری نظر میں کسی بھی معاشرے کی ترقی یا پسماندگی کا سب سے اہم پیمانہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگ کتا ب پڑھتے ہیں یا نہیں۔اس حوالے سے اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں توصورت حال نہایت اندوہناک ہے۔شوقِ مطالعہ میں ہم تیسری دنیا کے ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔مطالعے کی عادت در اصل کسی بھی ملک کی قوتِ فکر کا اظہار ہے کتاب سے ناطہ ٹوٹ جائے تو پھر نئے خیالات کہاں سے آئیں گے،تخلیقی کام کیسے ہوگا،مکالمہ کا عمل رک جائے گا،فکری ارتقااور ایجاد کا عمل ختم ہو جائے گا۔مطالعہ سے دوری سماج میں عدم برداشت اور تشدد میں اضافہ کا باعث ہے۔
کتابیں پڑھنا،فلم دیکھنا،ڈرامہ دیکھنا،موسیقی سننا یا اسی طرح کی دیگر مصروفیات دراصل اپنی پہچان کاعمل ہے۔ایسی مصروفیات خیالات اور سوچ کو جِلا بخشتی ہیں ،تخیل کو وسعت عطا کرتی ہیں۔عادتِ مطالعہ (Reading habit)کی کمی سیاسی و معاشی صورتحال،غربت اوربے روزگاری کی طرح سماجی گراوٹ جانچنے کا ایک معیار ہے۔اس وقت پاکستانی معاشرے کا فکری بانجھ پن اورعلمی تنزلی(Deintellectualization of society)گھمبیر صورت اختیار کرچکے ہیں اوراس کے اسباب اور ان کا حل تلاش کرناا آسان نہیں۔
پاکستان میں اس وقت پبلشنگ انڈسٹری کا مقابلہ الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔کتابوں کی جگہ کمپیوٹر،ٹی وی،فلمز،پبلسٹی اورپروپیگنڈے کے دیگر ذرائع نے لے لی ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اب قارئین کم اور ناظرین بڑھ گئے ہیں۔لائبریریز کم ہیں اور جو ہیں ان میں جانے اور مطالعہ کرنے کا رحجان کم ہوتا جا رہا ہے ۔کسی زمانے میں لوگ لائبریریز سے کتابیں لاتے تھے،ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ایک زمانے میں گلی محلوں میں’’ایک آنہ لائبریری‘‘ ہوا کرتی تھیں۔بچوں کو گھروں میں ماں باپ، دادا دادی کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتے تھے اورپھر آہستہ آہستہ بچے خود ہی پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔
آدمی سے انسان بننے کی درمیانی کڑی کتاب ہے؛آدمی ایک مادّی وجود ہے جبکہ انسان ایک اخلاقی وجود۔کتاب چاہے الہامی ہوچاہے انسانی عقل کی پیداوار،زمین کی تہوں میں چھپے خزائن ٹٹولتی ہویاخوابوں کی تعبیر تلاش کرتی ہو؛زندگی کا کوئی حوالہ کتاب یا لکھے ہوئے حرف کے بغیر ممکن نہیں۔ہم نے اپنے آپ کو علم سے جان بوجھ کر پیچھے کیا ہے،ہم ہنر کے تعاقب میں ہیں۔ہمارے ہاں علم زندگی کے لئے نہیں بلکہ روزگار کے لئے حاصل کیا جاتا ہے ،حالانکہ زندگی علم سے عبارت ہے۔کتاب ،حرف اورقول سے رشتہ، در اصل ایک ورثہ دوسرے تک منتقل ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔بدقسمتی سے مطالعے کی عادت ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ ضیا دورکا سرکاری سرپرستی میں گھڑا جانے والا وہ نظام تعلیم ہے جس میں کتاب سے رشتہ توڑ دیا گیا، تقریر کا فن چھین لیا گیا اور خطبہ باقی رہ گیا۔تقریر میں دونوں پہلو ہوتے ہیں یعنی مخالفت اور موافقت ، قطعیت کے لہجے میں ہر امکان کو رد کر دیا جاتا ہے اورفتوے دیے جاتے ہیں۔زندگی فتوؤں پر نہیں امکانات پر زندہ ہے۔اب مکالمہ خاموش ہے اور بحث کا شور ہر جانب برپاہے،نہ کتاب رہی نہ مطالعہ۔کتاب سوچنا سکھاتی ہے اور کتاب سے دوری کے باعث معاشرے میں فکری تنزل اور عدم برداشت نے جنم لیا جس سے افراد کے اخلاقی اور علمی پہلو کی جگہ مادی پہلو کی افزائش کا عمل تیز ہوتا چلا گیا، نظریات اور افکار کی آبیاری کا عمل سست پڑاتو انتہا پسندی اور توہم پرستی کے جھاڑنے سر اٹھا لیا۔لوگوں نے خود کو دوسروں کے ہاتھوں کتھ پتلی بنا لیااور اس خود فریبی میں لطف یہ ہے کہ اس میں وہ نظر آتا ہے جو نہیں ہوتا اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔صرف کتاب ہی وہ آئینہ ہے جو یہ دکھاتی ہے کہ جو تھا،جو ہے،جو ہوگا اور جو ہوسکتا ہے وہ سب نظر آسکتا ہے۔
مطالعے کی عادت کوزندہ کرنے کے لئے سماج اور حکومت دونوں کو ذمہ داری لینی ہو گی۔ بچے بنیادی باتیں والدین ہی سے سیکھتے ہیں والدین بچوں میں کتاب پڑھنے کا شوق بیدار کر سکتے ہیں۔ اسکولوں میں ’’ہفتۂ کتب بینی‘‘ کا اہتمام کیا جانا چاہئے ، لائبریریزمیں مفت سہولیات فراہم کی جائیں تو لوگ کتب خانوں کا رخ کریں گے۔ای ۔بکس نے نئی نسل کے لئے مطالعہ آسان اور پرکشش بنا دیا ہے۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ اس طرف راغب ہو سکتے ہیں۔حکومتی سطح پر پبلشرز کو بچوں اور دیگر معلوماتی کتابیں شائع کرنے کے لئے کاغذکی خریداری پرخصوصی رعایت دی جانی چاہیے۔ کتاب کی پرورش کی جائے گی تو معاشرہ کی تعمیر ہو گی۔
One Response
شیزی توصیف کیا کہنے۔۔۔ اس قوم کی اس بد قسمتی کی طرف آپ نے خوبصورت پیرائے میں توجہ دلائی ہے۔ اور آخر میں مسائل کے حل کے حوالے سے آپ کی تجاویز قابل عمل اور سستی ہیں۔۔۔ اسی طرح لکھ کر ہم جیسے لوگوں کے علم و احساس کو جلا بخشتے رہیں۔۔۔