سولہ دسمبر کا دن ہمارے لئے قیامت صغریٰ ہی تو تھااس رات ایسی کوئی آنکھ نہ ہوگی جو اشکبار نہ ہو۔ سولہ دسمبر کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن رہا ہے اور اب اس کی سیاہی مزید گہری ہوگئی۔ جو ایک سو تیس معصوم جانیں چھین لی گئیں، خدا انکے والدین کو صبر عطا کرے لیکن وہ سینکڑوں جو بچ گۓ انکی زندگی شاید پھر کبھی نارمل نہ ہوپاۓ، اپنے ساتھیوں کی قبروں کی مٹی اور خون آلود لاشے تمام عمر ان کے دلوں میں تازہ رہیں گے۔سولہ دسمبر کی رات ہم سب نے شدید اذیت میں گزاری ہے،سب افسردہ تھے، غمگین تھے اور صدمے کی کیفیت میں تھےلیکن سب سے غالب عنصر لاچارگی کا تھا۔ ہم سب کو اس وقت اپنی بیچارگی پر سخت غصّہ تھا، ہم سب ہی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے تقریباً محروم تھے لیکن آج ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ حملہ کے بعد سے اب تک یہ سب شمالی وزیرستان میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کا نتیجہ ہے، آرمی اسکول پر طالبانی حملہ دراصل انتقامی کارروائی ہے لیکن یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
ذرا غور کریں کیا اس سے پہلے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں بچے ہلاک نہیں ہوۓ؟ آل سینٹس چرچ، پشاور پر خودکش حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی تھی جو وہاں اپنے والدین کے ساتھ عبادت کرنے آۓ تھے۔ہزارہ برادری اور شیعہ زائرین پر ہونے والے حملوں میں بھی بچوں کو نشانہ بنایا جاتا رہے ہیں لیکن ان حملوں میں ہلاک ہونے والے بچوں کی حیثیت ہمارے لیے محض ایک اخباری خبر کی سی ہوتی ہے۔
داعش کے پاس وہ سب کچھ ہے جو انتہا پسند جنگجوؤں کے لئے کشش کا باعث ہے؛ نقل و حرکت کی آزادی، قتل و غارتگری کی آزادی،وسائل کی فراوانی اور نظریاتی مماثلت، یہ چیزیں القاعدہ اور طالبان میں شامل نچلے درجے کے جنگجوؤں کو میسر نہیں
رواں سال اکتوبر میں عید الاضحٰی کے موقع پر طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے داعش کے ساتھ حمایت کا اعلان کیا تھا، اس اعلان میں داعش کو بھائی کہہ کر مخاطب کرتے ہوۓ ترجمان طالبان نے تنظیم کو اسکی کامیابیوں پر مبارکباد دی تھی اور بھرپور حمایت کا اعلان بھی کیاتھا۔ طالبان کی طرف سے داعش کی حمایت کا بعد ملک بھر میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ کا سلسلہ سا چل نکلا تھا اور پاکستان میں داعش کی موجودگی کی خبریں ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے لگی تھیں۔
ضرب عضب کے آغاز سے اب تک پاکستانی طالبان (جنہیں خطّے کی ایک خطرناک طاقت سمجھا جانے لگا تھا) کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے،ان کا نیٹ ورک کم زورہوا ہےاسی لیے انتہا پسند جنگجو، القاعدہ کی بجائےداعش کی جانب راغب ہوئے ہیں- داعش میں شمولیت سےشدت پسندوں کو اپنا سابقہ اثرورسوخ بحال کرنے میں مدد ملنے کی امیدہے۔ داعش کی قیادت، القاعدہ اور طالبان کی طرح بوڑھی اور محتاط نہیں ہے، ان کے پاس بہترین پروپیگنڈا مشینری اور سفاک ترین قاتل موجود ہیں- داعش ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی طاقت سے بھی اچھی طرح واقف ہے اورسماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس تنظیم کی فعال موجودگی سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ القاعدہ کے برعکس داعش اپنے نظریات اور کارروائیوں کی سفاکیت چھپانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ داعش کے پاس وہ سب کچھ ہے جو انتہا پسند جنگجوؤں کے لئے کشش کا باعث ہے؛ نقل و حرکت کی آزادی، قتل و غارتگری کی آزادی،وسائل کی فراوانی اور نظریاتی مماثلت، یہ چیزیں القاعدہ اور طالبان میں شامل نچلے درجے کے جنگجوؤں کو میسر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کے انتہا پسند داعش کی طرف زیادہ مائل ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔
پشاور سانحہ سے دوروز قبل، آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک کیفے کو یرغمال بنانے والا ایرانی شخص ہارون مونس، داعش کی حمایت حاصل کرنا چاہتا تھا- اسی طرح پچھلے دنوں انڈیا میں گرفتار کیا جاے والا ‘شامی وٹنس’ بھی داعش کا ہی پرستار تھا۔اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک طالبان کے کے کم از کم چھ گروہ داعش سے الحاق کر چکے ہیں۔ داعش کی شدت پسند جہادی تنظیموں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر ہی رواں برس ستمبر میں القاعدہ نے مقامی جہادی گروہوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے اپنی مقامی شاخ کا اعلان کیا تھا۔مشکل یہ ہے کہ طالبان، ملا عمر کو اپنا امیر مانتے ہیں اور القاعدہ سے وابستگی رکھتے ہیں، داعش سے وابستہ ہوکر وہ اپنے امیر سے غدّاری کے مرتکب نہیں ہوسکتے ہاں البتہ داعیش کی طرف دوستی کا ہاتھ ضرور بڑھا سکتے ہیں۔
داعش اور القاعدہ کے بیچ جنوبی ایشیاء کے کروڑوں مسلمانوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے مسلسل رسہ کشی جاری ہے،طالبان نے داعش کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ایک طرح سے اس تنظیم کو پاکستان میں اپنی خدمات کی پیشکش کی ہیں اور پشاور آرمی سکول پر حملہ کو داعش کی حمایت حاصل کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔پشاور سانحہ کے پیچھے طالبان کے اصل عزائم صاف نظر آتے ہیں۔ یہ کارروائی آرمی سے بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ داعش کو اپنی صلاحیتوں سے واقف کرانے کا ایک ذریعہ بھی تھی۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اسکول کو محض اس کے ایک کمزور ٹارگٹ ہونے کی وجہ سے ہی منتخب نہیں کیا گیا تھا، اس حملے کا ماسٹر مائنڈ اچھی طرح جانتا تھا کہ آرمی اسکول میں ایک بار اندر گھس جانے کے بعد حملہ آوروں کا زندہ باہر نکلنا ناممکن ہے،اس لئے یرغمالی کارروائی کی بجاۓ ، مارو اور مرجاؤ کا منصوبہ تشکیل دیا گیا۔
طالبان نے داعش کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ایک طرح سے اس تنظیم کو پاکستان میں اپنی خدمات کی پیشکش کی ہیں اور پشاور آرمی سکول پر حملہ کو داعش کی حمایت حاصل کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
محض فوج سے بدلہ لینے کے لیے خودکش حملے یا بم دھماکے بھی استعمال کیے جاسکتے تھے اور چھٹی کے وقت خودکش حملہ کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا جا سکتا تھا،لیکن اس طرح اصل داعش تک اپنی وفاداری اور اہلیت کا پیغام ٹھیک طرح پہنچانا ممکن نہ تھا اس لئےداعش کی طرز پر چن چن کر بچوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔اور وہی ہوا معصوم جانوں کا قتل کر کے طالبان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بھی داعش کی طرح سفّاک قاتل ہیں اور ان کے دلوں میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں، ٹھیک داعش ہی کی طرح اپنے مکروہ عمل کو جائز قرار دینے کے لئے اسلامی تاریخ سے واقعات کو سیاق وسباق سے ہٹا کر اور مسخ کر کے جواز بھی پیش کیا گیا ہے۔
طالبان بخوبی واقف تھے کہ اس حملہ کے نتیجے میں پاکستان کی جانب سے فوجی آپریشن نہ صرف تیز ہوگا بلکہ عوامی حمایت میں بھی نمایا کمی ہو گی لیکن اس کے باوجود اس حملہ کا کیا جانا اور اس میں ازبک جنگجووں کی شمولیت یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ پاکستانی طالبان اب افغان طالبان اور القاعدہ کی جگہ د اعش کی جانب حمایت کے لیے دیکھ رہے ہیں۔ پشاور حملہ ضرب عضب کا بدلہ لینے کے ساتھ داعش کی حمایت حاصل کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔دوسری جانب انہوں نے اپنے آقاؤں کی آنکھوں پر یہ کہہ کر پردہ ڈال دیا ہے کہ یہ حملہ ضرب عضب کے خلاف انتقامی کارروائی ہے- لیکن سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ محض انتقامی کارروائی ہے تو افغان طالبان اتنے برہم کیوں ہیں پشاور سانحہ پر افغان طالبان کی برہمی صاف بتا رہی ہے کہ جو کچھ ہم خبروں اور تجزیوں میں سن رہے ہیں وہ مکمل سچ نہیں، افغان طالبان بھی ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں اور یہ جان گۓ ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں پاکستانی طالبان کا جھکاؤ داعش کی طرف ہوچکا ہے اور یہ سب کچھ خود کو داعش کا منظورنظر بنانے کی کوشش ہے۔

One Response

  1. Shahbaz Ali Khan Gurmani Advocate

    نہ صرف وال چاکنگ کا سلسلہ شروع ہوا اس دہشت گرد تنظیم کی طرف سے ، بلکہ دھمکی آمیز خطوط بھی ڈالے گئے۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: