قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم بی اے ففتھ سمسٹر کی طالبہ کی جانب سے ایک اسسٹنٹ پروفیسر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔طالبہ کی جانب سے وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی کو دی گئی درخواست میں ملزم اسسٹنٹ پروفیسر کو امتحانی نتائج درست کرنے کے لئے جانے پر جنسی پیش قدمی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ طالبہ کے بیان کے مطابق اس کی شکایت کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا اور سکول آف مینجمنٹ سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر نے ایسے وقت اپنے کمرے میں طلب کیا جب دوپہر کے کھانے کا وقفہ تھا۔ ذرائع ابلاغ کو دستیاب تفصیلات کے مطابق طالبہ مڈٹرم امتحان کے نتائج کے غلط اندراج کی شکایت لے کر ادارے کے سربراہ کے پاس گئی تھی، جہاں مبینہ طور پر طالبہ کو جنسی پیش قدمی کا سامنا کرنا پڑا ۔
جنسی ہراسانی سے تحفظ کی تنظیم آشا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنسی ہراسانی کی زیادہ تر شکایات سرکاری اداروں سے متعلق موصول ہوتی ہیں، قائد اعظم یونیورسٹی کے اساتذہ اس سے قبل بھی جنسی ہراسانی کے الزامات کی زد میں رہی ہے۔
متعلقہ اسسٹنٹ پروفیسر نے الزام کی صداقت سے انکار کیا اور اسے خود کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا۔ اسسٹنٹ پروفیسر کے مطابق وہ تیس برس سے تدریس سے منسلک ہیں لیکن کبھی ان سے متعلق ایسی شکایت سامنے نہیں آئی۔ یونیورسٹی وائس چانسلر ڈاکٹر اعتزاز احمد نے اس الزام کی صحت پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔ پروفیر اعتزاز احمدکے مطابق شکایت کنندہ کے خلاف مبینہ واقعہ سے قبل یونیورسٹی قواعد کے مطابق انضباطی کاروائی کی جارہی تھی، یہ الزام دباو ڈالنے کی کوشش بھی ہو سکتا ہے۔
الزام کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی تین رکنی کمیٹی میں فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر گل مجید، فزکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر کاشف صبیح اور انوائرمینٹل سائنسز کی پروفیسر راحت نسیم شامل ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ 2010 کے جنسی ہراسانی سے تحفظ کے ایکٹ کی بجائے نے 1973کےDiscipline rules Efficiency and کے تحت کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔درخواست گزار طالبہ نے متعلقہ پروفیسر کو تحقیقات کے دوران سکول آف مینجمنٹ سائنسز کے سربراہ کے عہدے سے علیحدہ کرنے کی درخواست بھی کی ہے تاہم وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی نے اس سلسلے میں فوری طور پر کوئی اقدام اٹھانے سے گریز کیا ہے۔
جنسی ہراسانی سے تحفظ کی تنظیم آشا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنسی ہراسانی کی زیادہ تر شکایات سرکاری اداروں سے متعلق موصول ہوتی ہیں، قائد اعظم یونیورسٹی کے اساتذہ اس سے قبل بھی جنسی ہراسانی کے الزامات کی زد میں رہی ہے۔
الزام کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی تین رکنی کمیٹی میں فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر گل مجید، فزکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر کاشف صبیح اور انوائرمینٹل سائنسز کی پروفیسر راحت نسیم شامل ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ 2010 کے جنسی ہراسانی سے تحفظ کے ایکٹ کی بجائے نے 1973کےDiscipline rules Efficiency and کے تحت کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔درخواست گزار طالبہ نے متعلقہ پروفیسر کو تحقیقات کے دوران سکول آف مینجمنٹ سائنسز کے سربراہ کے عہدے سے علیحدہ کرنے کی درخواست بھی کی ہے تاہم وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی نے اس سلسلے میں فوری طور پر کوئی اقدام اٹھانے سے گریز کیا ہے۔
جنسی ہراسانی سے تحفظ کی تنظیم آشا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنسی ہراسانی کی زیادہ تر شکایات سرکاری اداروں سے متعلق موصول ہوتی ہیں، قائد اعظم یونیورسٹی کے اساتذہ اس سے قبل بھی جنسی ہراسانی کے الزامات کی زد میں رہی ہے۔