پرووسٹ قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر انور شاہ کی برطرفی کے لیے احتجاج کرنے والے طلبہ نے مطالبات تسلیم کیے جانے پر ہڑتال ختم کر دی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پرووسٹ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں اسلامی جمعت طلبہ کی سرپرستی اور مالی معاونت کے الزامات کے باعث مختلف قوم پرست طلبہ تنظیموں کے متحدہ پلیٹ فارم قائدیئن سٹودنٹس فیڈریشن کی کال پر کی گئی اس ہڑتال کے باعث یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیاں معطل ہو گئی تھیں، جو اب بحال ہو چکی ہیں۔
طلبہ کی جانب سے اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رکن فیاض باری کے یونیورسٹی پرووسٹ سے مبینہ روابط، مالی امداد اور سرپرستی کے خلاف پیر 7 مارچ کو احتجاج شروع کیا گیا تھا جس میں بعض طلبہ کو ایک سمیسٹر کے لیے معطل کیے جانے کی وجہ سے شدت آ گئی تھی۔ ان طلبہ کو 24 فروری کی شب فیاض باری کو اس کے ہاسٹل سے اٹھا کر زدوکوب کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس پر کارروائی کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تین طلبہ میر واعظ، زرق خان اور عادل کو ایک سمیسٹر کے لیے ہاسٹل سے معطلی اور تیس تیس ہزار جرمانہ کیا گیا۔
فیاض باری کے پاس سے کالعدم تنظیموں کا لٹریچر بھی برآمد ہوا تھا اور اس سمیت اسلامی جمعیت طلبہ کے دیگر اراکین پر طلبہ کو مذہبی اخلاقیات اپنانے پر مجبور کرنے کے الزامات بھی ہیں۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کے مطابق وائس چانسلر کی جانب سے ان کی شکایات پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے وہ احتجاج اور تدریسی سرگرمیوں کے بائیکاٹ پر مجبور ہوئے تھے۔
طلبہ کی ہڑتال تین روز جاری رہی اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر انور شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹا کر امانت علی کو ان کی جگہ تعینات کیا گیا ہے۔ طلبہ سے مذاکرات ڈین بایولاجیکل سائنسز ڈاکٹر وسیم احمد نے مذاکرات کیے تھے۔ پرووسٹ کی برطرفی کا فیصلہ وائس چانسلر اور دیگر فیکلٹی اراکین کی مشاورت سے کیا گیا۔ ڈاکٹر وسیم نے ہاسٹل سے نکالے گئے طلبہ کی بحالی کے لیے وائس چانسلر سے نظرِثانی کی اپیل کی ہے۔ دوسری جانب اسلامی جمعیتِ طلبہ کی جانب سے کالعدم تنظیموں سے تعلق اور ان کا لٹریچر تقسیم کرنے کے الزامات کی تردید کی گئی ہے۔