پاکستان میں گزشتہ 68برسوں کے دوران عوام کو اقتدار سے دور رکھنے اور چند افراد یا خاندانوں کے مفادات کے تحفط کے لئے تاریخ کی جس اندازسےتوڑ پھوڑکی گئی ہے اور حقائق کو جس طرح مسخ کیا گیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سات دہائیاں گزرنے کے با وجود بھی ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ بابائے قوم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے آیا ان کے ذہن میں جدید ،ترقی پسند اور انسانی برابری پر مشتمل معاشرے کے قیام کا خواب تھا یا پھر ملائیت پر مبنی مذہبی ریاست کا۔ ہماراالمیہ یہ رہا ہے کہ ہم کسی بھی واقعے یا سانحہ کا مطالعہ پورے سیاق و سباق میں کرنے کی بجائے ایک خاص نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھنے کےعادی ہیں۔ جب بھی پاکستان کے آئینی مسائل اور ریاستی معاملات میں مذہب کی بے جا دخل اندازی کی بات آتی ہے تو ہمارے دانشور قائد کی چند تقاریر سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسٹر جناح کے ذہن میں ایک ایسے معاشرے کے قیام کا تصور تھا جو مذہبی اصولوں پر مبنی ہو۔ جب بھی کہیں 11اگست 1947کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے ان کے کیے گئے خطاب کا حوالہ دیا جاتا ہے تو بہت سارے دانشور اس تقریر کی حقیقت سے ہی انکارکرتے ہیں، اور جو چند ایک اس تقریر کی صداقت کے قائل ہیں وہ باتوں کو گول مول کرکے ان کی دوسری تقریروں کا حوالہ دے کر اپنی دلیل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ قانون ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر اور عوامی جلسوں میں کی گئی تقاریر میں کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا کیونکہ سیاسی جلسوں میں ہونے والی باتوں کے مقابلے میں آئین ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
اگست سترہ 1947ء کو قائد اعظم نے کراچی کے ہو لی ٹرینٹی چرچ کا دورہ کیا جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھاکہ اس نوزائیدہ ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کوبھی وہی حقوق ملیں گے جو مسلمان اکثریت کو ملتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ گیارہ اگست کی تقریر اور قرار دادِ پاکستان کے اصل متن کو کبھی بھی ہمارے نصاب کا حصہ نہیں بنا یا گیا جس کی بنا پر نوجوان نسل ان دو انتہائی اہم تاریخی دستاویزات سے بے خبر ہے۔ قائد کی گیارہ اگست کی تقریر میں سے چند اقتباسات یہ ہیں ’’آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں آپ اس ریاست میں اپنی مساجد یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لئے آزاد ہیں آپ کسی بھی مذہب ،رنگ یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں ریاستی معاملات کا اس سے کوئی سروکار نہیں‘‘
’’اب میرے خیال میں (انگلستان کی سیکولر ریاست کو) آئیڈیل سمجھنا چاہیے اورآپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ (ریاستی معاملات میں )نہ کوئی ہندو ہندو رہے گا اور نہ ہی مسلمان مسلمان رہے گا مذہبی نقطہ نظر سے نہیں کیونکہ یہ (مذہب)ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن سیاسی لحاظ سے آپ سب پاکستان کے شہری ہیں۔‘‘ (قائد اعظم کا 11اگست 1947کو پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب)
پاکستان کی اس پہلی آئین ساز اسمبلی میں اسپیکر کے فرائض ایک غیر مسلم جو گندر ناتھ منڈل ادا کر رہے تھے۔ 17اگست 1947ء کو قائد اعظم نے کراچی کے Holy trinity church کا دورہ کیا جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھاکہ اس نوزائیدہ ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کوبھی وہی حقوق ملیں گے جو مسلمان اکثریت کو ملتے ہیں۔ کسی غیر مسلم کے ساتھ مذہب کی بنیادپر امتیاز نہیں برتا جائے گاتخلیقِ پاکستان کے بعد اسکی پہلی کابینہ چھ ارکان پر مشتمل تھی، جس میں آئین وانصاف کی وزارت جوگندرناتھ منڈل کو سونپی گئی۔ قائد اعظم کی کابینہ میں مذہبی امور کی وزارت نہیں تھی اور نہ ہی کابینہ کا اجلاس کسی ایک مذہب کی کتاب کی تلاوت سے ہوتا تھا، دفتری اوقات صبح دس بجے سے لیکر پانچ بجے تک تھے، اس دوران نماز کے لئے وقفہ نہیں رکھا گیا ۔
قائداعظم کے حالات زندگی اور سیاست بھی انہیں ایک سیکولر فرد ثابت کرتے ہیں، انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے کیا ،اور بہت جلد اپنی خدا داد صلاحیتوں، اصول پرستی اور انتھک محنت کی بل بوتے پر برطانوی ہند کی سیاست میں ممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔1913ء میں انہوں نے مسلم لیگ سے منسلک ہونے کا فیصلہ کیا جبکہ انڈین نیشنل کانگریس کے بھی رکن رہے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے سرگرم حامی تھے انہی کی کوششوں سے 1916ء میں لکھنو کے مقام پر انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا ۔اس اجلاس میں’’ لکھنو پیکٹ ‘‘منظورہوا جس میں کانگریس نے مسلم لیگ کے کافی مطالبات تسلیم کیے۔ اسی اجلاس کے بعد کانگریسی لیڈر شپ کی جانب سے قائد اعظم کو ’’ہندو مسلم اتحاد کےسفیر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ قائد اعظم نےآخری دم تک متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے جائز حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی، ان کی تمام کوششوں پر پا نی کانگریسی وزارت (1937-39)نے پھیردیا جب ہندوستان کی سات ریاستوں پر حکومت بنا کر سیکولرازم کے نام پر ہندوازم نافذ کر دیا گیا۔ ان دو سالوں میں کانگریسی حکمرانوں کے ناروا سلوک کی وجہ سے مسلم لیگی قیادت کو علیحدگی کے بارے میں سوچنا پڑا لیکن 1946ء میں بھی قائد اعظم نے ہندوستان کے اندر فیڈریشن یا کنفیڈریش قائم کرکے صرف دفاع ،خارجہ امور اورکرنسی کے علاوہ باقی سارے اختیارات صوبوں کو دینے کی صورت میں پاکستان کے مطالبے سے دست بردار ہونے کا عندیہ دیاتھا۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قائد اعظم اس حوالے سے اپنی ذات اور سیاسی مقام کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے لیکن کانگریسی قیادت اور نہرو کےغیر لچکدار رویے کی وجہ سے وہ سارے جائز مطالبات بھی منظور نہ ہوئےاور بالاآخر اگست 1947ء کو ہندوستان دو ریاستوں پاکستا ن اور بھارت میں تقسیم ہوگیا۔
’’اب میرے خیال میں (انگلستان کی سیکولر ریاست کو) آئیڈیل سمجھنا چاہیے اورآپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ (ریاستی معاملات میں )نہ کوئی ہندو ہندو رہے گا اور نہ ہی مسلمان مسلمان رہے گا مذہبی نقطہ نظر سے نہیں کیونکہ یہ (مذہب)ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن سیاسی لحاظ سے آپ سب پاکستان کے شہری ہیں۔‘‘ (قائد اعظم کا 11اگست 1947کو پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب)
پاکستان کی اس پہلی آئین ساز اسمبلی میں اسپیکر کے فرائض ایک غیر مسلم جو گندر ناتھ منڈل ادا کر رہے تھے۔ 17اگست 1947ء کو قائد اعظم نے کراچی کے Holy trinity church کا دورہ کیا جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھاکہ اس نوزائیدہ ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کوبھی وہی حقوق ملیں گے جو مسلمان اکثریت کو ملتے ہیں۔ کسی غیر مسلم کے ساتھ مذہب کی بنیادپر امتیاز نہیں برتا جائے گاتخلیقِ پاکستان کے بعد اسکی پہلی کابینہ چھ ارکان پر مشتمل تھی، جس میں آئین وانصاف کی وزارت جوگندرناتھ منڈل کو سونپی گئی۔ قائد اعظم کی کابینہ میں مذہبی امور کی وزارت نہیں تھی اور نہ ہی کابینہ کا اجلاس کسی ایک مذہب کی کتاب کی تلاوت سے ہوتا تھا، دفتری اوقات صبح دس بجے سے لیکر پانچ بجے تک تھے، اس دوران نماز کے لئے وقفہ نہیں رکھا گیا ۔
قائداعظم کے حالات زندگی اور سیاست بھی انہیں ایک سیکولر فرد ثابت کرتے ہیں، انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے کیا ،اور بہت جلد اپنی خدا داد صلاحیتوں، اصول پرستی اور انتھک محنت کی بل بوتے پر برطانوی ہند کی سیاست میں ممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔1913ء میں انہوں نے مسلم لیگ سے منسلک ہونے کا فیصلہ کیا جبکہ انڈین نیشنل کانگریس کے بھی رکن رہے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے سرگرم حامی تھے انہی کی کوششوں سے 1916ء میں لکھنو کے مقام پر انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا ۔اس اجلاس میں’’ لکھنو پیکٹ ‘‘منظورہوا جس میں کانگریس نے مسلم لیگ کے کافی مطالبات تسلیم کیے۔ اسی اجلاس کے بعد کانگریسی لیڈر شپ کی جانب سے قائد اعظم کو ’’ہندو مسلم اتحاد کےسفیر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ قائد اعظم نےآخری دم تک متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے جائز حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی، ان کی تمام کوششوں پر پا نی کانگریسی وزارت (1937-39)نے پھیردیا جب ہندوستان کی سات ریاستوں پر حکومت بنا کر سیکولرازم کے نام پر ہندوازم نافذ کر دیا گیا۔ ان دو سالوں میں کانگریسی حکمرانوں کے ناروا سلوک کی وجہ سے مسلم لیگی قیادت کو علیحدگی کے بارے میں سوچنا پڑا لیکن 1946ء میں بھی قائد اعظم نے ہندوستان کے اندر فیڈریشن یا کنفیڈریش قائم کرکے صرف دفاع ،خارجہ امور اورکرنسی کے علاوہ باقی سارے اختیارات صوبوں کو دینے کی صورت میں پاکستان کے مطالبے سے دست بردار ہونے کا عندیہ دیاتھا۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قائد اعظم اس حوالے سے اپنی ذات اور سیاسی مقام کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے لیکن کانگریسی قیادت اور نہرو کےغیر لچکدار رویے کی وجہ سے وہ سارے جائز مطالبات بھی منظور نہ ہوئےاور بالاآخر اگست 1947ء کو ہندوستان دو ریاستوں پاکستا ن اور بھارت میں تقسیم ہوگیا۔
١٩٤٦میں بھی قائد اعظم نے ہندوستان کے اندر فیڈریشن یا کنفیڈریش قائم کرکے صرف دفاع ،خارجہ امور اورکرنسی کے علاوہ باقی سارے اختیارات صوبوں کو دینے کی صورت میں پاکستان کے مطالبے سے دست بردار ہونے کا عندیہ دیاتھا۔
1919ء میں گاندھی کی ایما پرہندوستان کےعلما نے’’جمعیت علمائے ہند‘‘ کے نام سے اپنے لئے علیحدہ پارٹی تشکیل دی، اس گروپ سے تعلق رکھنے والے سارے علما مسلم لیگی قیادت اور تحریکِ پاکستان کے زبردست مخالف تھے، جماعت اسلامی اور مجلس احرار نے پاکستان کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا، ان کی جانب سے پاکستان کے لئے’’ ناپاکستان ‘‘اور قائد اعظم کو ’’کافراعظم‘‘ کا خطاب ملا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قائد اعظم پاکستان کوواقعی ایک اسلامی مذہبی ریاست (Theocratic state)بنانا چاہتے تھے تو ہندوستان کے جید علما اور مذہبی جماعتوں نے اس تحریک کی مخالفت کیوں کی تھی؟؟
ان گزارشات کا مطلب قائد اعظم کی ذات کو متنازعہ بنانا ہر گز نہیں کیونکہ مخالفین قائد کو لاکھ برا بھلا کہہ دیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ وہ ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ ان کے سیاسی قد کاٹھ کو گھٹا یانہیں جا سکتا لیکن بات تاریخ پر پڑی ہوئی گرد کو مٹانے کی ہے گزشتہ سات دہائیوں سے جو جھوٹ ہمیں پڑھایا گیا ہے اب اس جھوٹ کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ یہ بات بھی یا د رکھنے کی ہے کہ قائد اعظم کو دیوتا بنانے کے بجائے ایک انسان سمجھ کرمطالعہ کیاجانا چاہئے۔
ان گزارشات کا مطلب قائد اعظم کی ذات کو متنازعہ بنانا ہر گز نہیں کیونکہ مخالفین قائد کو لاکھ برا بھلا کہہ دیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ وہ ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ ان کے سیاسی قد کاٹھ کو گھٹا یانہیں جا سکتا لیکن بات تاریخ پر پڑی ہوئی گرد کو مٹانے کی ہے گزشتہ سات دہائیوں سے جو جھوٹ ہمیں پڑھایا گیا ہے اب اس جھوٹ کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ یہ بات بھی یا د رکھنے کی ہے کہ قائد اعظم کو دیوتا بنانے کے بجائے ایک انسان سمجھ کرمطالعہ کیاجانا چاہئے۔