campus-talks

رضوان اسماعیل
(قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد)

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کا شمار ملک کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ کچھ دن قبل گلگت سے تعلق رکھنے والے مدثر شین نامی ایک طالبعلم یونیورسٹی ہاسٹل سے پر اسرار طریقے سے غائب ہوگئے۔مدثر یونیورسٹی کی طلبہ سیاست میں کافی نمایاں تھے اور ان کا تعلق قا ئدِ اعظم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی گلگت کونسل سے تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اتنے بڑے واقعےپر کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہاں تک کہ طلبا کی ایک بڑی تعداد نےمظاہرے کیے اور اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس بھی کی۔ اس کےباوجودبھی اس وقعے کی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔ پریس کانفرنس میں طلبہ نے جماعتِ اسلامی اور اس کی طلبا تنظیم پرمدثر کے اغوا کا الزام عائدکیا۔ اغوا کے 8 دن بعد مدثر زخمی حالت میں ہوسٹل کے پاس پائے گئے۔ ان کے جسم پر شدید تشدد کے نشانات بھی ہیں اور وہ بہت زیادہ سہمے ہوئے ہیں۔ اس واقعے کے بارے میں وہ کچھ بھی کہنے سے گریزاں ہیں۔
اس مجموعی صورتِ حال سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ اس گھناونے واقعے کے پیچھے کوئی بڑی سازش کار فرما ہے جس کے محرکات سیاسی ہیں۔ تاہم یہ اپنی نوعیت کا انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے اور ماضی قریب میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یونیورسٹی کے سیاسی ماحول کے سیاق و سباق میں یہ بات غور طلب ہے کہ حال ہی میں کُچھ عناصر یونیورسٹی کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس میں ثقافتی سرگرمیوں کو روکنا اور مختلف طلبا تنظیموں کے عہدے داروں اور کارکُنوں کو ہراساں کرنا شامل ہے۔ گلگت کونسل اور دوسرے طلبہ گروہوں کا کہنا ہے کہ یہ تخریب پسند گروہ مذہبی تنظیموں بالخصوص جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کا حصہ ہیں اور ان کا مقصد یونیورسٹی کے اندر گُٹھن، یکسانیت اور مُتشدد مذہبی رویوں کو ہوا دینا ہے۔
یونیرسٹی کی نمائندہ اور سرگرم طُلبا تنظیم قا ئدِ اعظم اسٹوڈنٹس فیڈریشن چھ علاقائی کونسلز بشمول پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی، گلگت اور پنجاب پہ مشتمل ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے اس تنظیم نے طلبا کے بُنیادی مسائل کے حل سے لے کر غیر نصابی سرگرمیوں خصوصی طور پر یوتھ کلچرل پروگرامز (فن فیئرز) اور کلچرل ڈسپلے کے حوالے سے بہت اہم اقدار اور روایات کو فروغ دیاہے۔ جس میں طلبا نہ صرف مختلف ثقافتی سرگرمیوں جیسا کہ موسیقی، روایتی رقص اور طرزِلباس وغیرہ سے لُطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اُن کے اندر باہمی رواداری اور برداشت جیسے جذبات بھی پروان چڑھتے ہیں۔
یونیورسٹی طلبا کا یہ ٹھوس مطالبہ ہے کہ مدثر کے اغوا کی مکمل تفتیش کر کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے اورقبل اس کے کہ ایسا کوئی واقعہ دوبارہ رونما ہو، کسی بھی تخریبی عنصر یا جماعت کو یونیورسٹی میں جڑ پکڑنے سے روکا جائے ۔

(Published in The Laaltain – May 2013)

Leave a Reply