27 مئی 2014 لاہور کی ایک عدالت کے احاطہ میں پولیس کی موجودگی میں فرزانہ نامی ایک عورت کواینٹوں کے وار سے اسی کے باپ،بھائی اور 20 افراد نے سنگسار کردیا ۔ رابعہ کا جرم یہ تھا کہ اس نے پسند کی شادی کی تھی جو کہ پاکستانی معاشرے میں یقیناً بہت ہی سنگین جرم ہے۔پاکستان میں ایسے واقعات نئے نہیں۔ پاکستاں میں ہر سال تقریباً ایک ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل کر دی جا تی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دل دہلا دینے والے واقعہ کے خلاف ملک بھر میں کہیں بھی کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں کیا گیا۔ انتخابات میں دھاندلی پر احتجاج کیا جا رہا ہے تو کہیں فوج کو ٹھیس پہنچا نے پر احتجاج کر کے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا جا رہا ہے مگر اس غیر انسانی فعل کے خلاف صداۓ احتجاج بلند کرنے کا خیا ل ان چند سر پھروں کا ہی آیا جو کڑی دھوپ میں انسانی حقوق کا علم بلند کرنے کی رسم نبھانے پریس کلب کے سامنے اپنی بے بسی اور نسبتاً کم تر بے حسی کا اعلان کرنے جمع ہو جاتے ہیں۔ایسے سنگیں واقعات پر بے حسی ہماری اخلاقی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
غیرت کے نام پر کئے جانے والے جرائم میں کمی نہ ہونے کا ایک بڑا سبب عورت کے اپنی مرضی سے شادی کرنے، میل جول رکھنے، مخلوط ماحول میں ملازمت کرنے یا گھر سے باہر آنے جانے کو بے حیائی اور گناہ سمجھنا ہے۔
ہمارے یہاں عورتوں کو انسان یا کم از کم مرد کے برابر انسان تسلیم نہیں کیا جاتا۔ تقدیس، حیا اور مشرقیت کے نام پر صدیوں پرانےتصورات پر مبنی رسم و رواج اور عقائد کی پیروی صرف عورتوں کو مردوں کا مطیع رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور پردہ کو عورت کو محکوم اور خود سے کم تر ثابت کرنے کے لئے نہ صرف استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان جرائم کو تحفظ بھی دیا جاتا ہے۔ قصاص اور دیت کے قوانین کی وجہ سے عورت کے خلاف غیرت کے نام پر جرائم کرنا اور پھر ان کا ارتکاب کرنے والے محرمین کو معاف کرنا ایک عام رواج بن چکا ہے۔ کسی بھی عورت کو اس کے فیصلو ںکی سزادینے کے لئے باپ ، بھائی، شوہر یا بیٹے کو قتل کے بعد تعزیرات پاکستان میں معاف کرنے کی گنجائش کی وجہ سے غیرت کے نام پر کئے جانے والے جرائم کی روک تھام تقریباً ناممکن ہے۔ کارو کاری، ونی، سوارا اور غیرت کے نام پر قتل کو حاصل قبولیت عام کی وجہ وہ مردانہ سوچ ہے جس کے باعث عورت کو اپنی ذات اور وجود کی شناخت اور فیصلے کے اختیارسے محروم کر کے اسے خاندان کی عزت یا وقار قرار دیا جاتا ہے ۔
غیرت کے نام پر کئے جانے والے جرائم میں کمی نہ ہونے کا ایک بڑا سبب عورت کے اپنی مرضی سے شادی کرنے، میل جول رکھنے، مخلوط ماحول میں ملازمت کرنے یا گھر سے باہر آنے جانے کو بے حیائی اور گناہ سمجھنا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں مردوں کے عورت پر قادر اور مختار ہونے کے تصور کو عوامی سطح پر حاصل قبولیت کی وجہ سے مردوں کو عورت پر تشدد کرنے ، زبردستی کرنے اور سزادینے کا غیر انسانی اختیار حاصل ہے جس کی وجہ سے عورت کو آزادانہ فیصلے کرنے کی صورت میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رابعہ کا قتل پاکستانی معاشرے میں انسانی جان بالخصوص عورت کے لئے پائے جانے والی بے حسی کی نشاندہی کرتا ہے۔ رابعہ اور اس جیسی عورتوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی سزا دی جاتی ہے، کیوں کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوتی ہیں جہاں عورت ہونا اور عورت ہو کر اپنے فیصلے خود کرنا ناقابل معافی جرائم ہیں۔ عورتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے قانون اور انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اجتماعی معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا جو عورت کی آزادی اور اختیار کا حق چھیننے کا باعث بنتے ہیں۔
غیرت کے نام پر کئے جانے والے جرائم میں کمی نہ ہونے کا ایک بڑا سبب عورت کے اپنی مرضی سے شادی کرنے، میل جول رکھنے، مخلوط ماحول میں ملازمت کرنے یا گھر سے باہر آنے جانے کو بے حیائی اور گناہ سمجھنا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں مردوں کے عورت پر قادر اور مختار ہونے کے تصور کو عوامی سطح پر حاصل قبولیت کی وجہ سے مردوں کو عورت پر تشدد کرنے ، زبردستی کرنے اور سزادینے کا غیر انسانی اختیار حاصل ہے جس کی وجہ سے عورت کو آزادانہ فیصلے کرنے کی صورت میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رابعہ کا قتل پاکستانی معاشرے میں انسانی جان بالخصوص عورت کے لئے پائے جانے والی بے حسی کی نشاندہی کرتا ہے۔ رابعہ اور اس جیسی عورتوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی سزا دی جاتی ہے، کیوں کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوتی ہیں جہاں عورت ہونا اور عورت ہو کر اپنے فیصلے خود کرنا ناقابل معافی جرائم ہیں۔ عورتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے قانون اور انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اجتماعی معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا جو عورت کی آزادی اور اختیار کا حق چھیننے کا باعث بنتے ہیں۔