اوطاق، بیٹھک، دالان اور چوپال گزرے وقتوں کے استعارے ہیں اورچھپر ہوٹل اور بھٹیار خانےبھی اب کہیں خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ غیر ملکی ریستوران مہنگے بہت ہیں، ڈھابے اور کوئٹہ ہوٹل اب محفوظ نہیں رہے، کتب خانے ویران اور باغات قصہِ پارینہ ہوچکے ہیں۔ ساحلِ سمندر دفعہ 144 کی نظر ہوچکے ہیں، محلے ویران اور چبوترے سنسان ہیں۔ لوگ آپس میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں، دل کی بات کہنے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں، کڑھتے رہتے ہیں اور ٹی-وی پر ہونے والی بحث برائے ٹی-آر-پی تکتے سوجاتے ہیں۔
"سیاسی گفتگو منع ہے،” "مذہبی باتوں سے پرہیز کریں،” "مہنگائی کا رونا نہ روئیں،” "پورے پیسے ادا کریں،” "برائے مہربانی بحث مت کریں،””جالب، منٹو، فیض اور فراز کے کلام کو زیرِ غور نہ لائیں” وغیر وغیرہ؛ یہ ہیں وہ ہدایات ہر عوامی مقام پر باقاعدہ جلی حروف میں تحریری صورت میں ٹنگے دکھائی دیتے ہیں۔ تمام عوامی مقامات پر ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری نقصان بھی برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔ البتہ مردانہ کمزوری دور کرنے کے لیے ہم سے رابطہ کریں، موٹا ہونےاورموٹاپا دور کرنے کے لیے بھی ہم ہی سے رابطہ کریں، محبوب کو کیسے حاصل کریں، ساس کو کیسے دفعہ کریں، اولادِ نرینہ کیسے پیدا کریں اور دشمن کو تباہ و برباد اور واصلِ جہنم کریں جیسے موضوعات پر کھلے عام مباحثہ بھی ہوتے ہیں اور شہر بھر میں ان کاموں کے ماہر افراد اپنی پیشہ وارانہ خدمات کی ہر ممکن تشہیرکرتے نظر آتے ہیں۔
عوام میں گھٹن کا عنصر واضح ہے، اظہارعامہ کے ذرائع پر پہرے ہیں۔عوام کو عوام ہی کی اجتماعی ملکیت سے بے دخل کردیا گیا ہے اور اب لوگ ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں میں تو بہت دلچسپی لیتے ہیں، لیکن اپنی ہی اجتماعی زندگی کو تیاگ چکے ہیں۔
روزنامہ ڈان کے کالمسٹ ندیم فاروق پراچہ نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کی بڑی منفرد اور نایاب تصاویر بڑی محنت کے بعد حاصل کرکے شائع کی تھیں،وہ ایک منفردپاکستان تھا۔ ان تصاویر میں دکھائی دینے والی اجتماعی ثقافتی روایات بدقسمتی سے اب ناپید ہوچکی ہیں۔اسی کی دہائی سے قبل عوام کو اظہار عامہ کی آزادی کسی حد تک حاصل تھی، پھر فوجی آمر آئے، سیاسی آمر بھی آئے اور سوچنے، بولنے اور آواز اٹھانے پر پابندیاں عائد کرتے چلے گئے۔ یہ پابندیاں اتنی شدید ثابت ہوئیں کہ آج عوام اپنا طرزِ حیات ہی بھول گئے۔
کراچی میں ہونے والے فیسٹول آف آئیڈیاز میں اس برس پاکستان کے مایہ ناز مفکرین، محققین اور ماہرینِ عمرانیات اظہار عامہ کی آزادی مفقود ہونے سے متعلق عمومی سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
ہمیں اظہارعامہ کی آزادی سے کب محروم کیا گیا؟ کب کیا گیا؟ کیا ایسا صرف ایک طبقہ کے ساتھ ہوا یا پورا پاکستان ہمارے لیے نوگو ایریا بن چکا ہے؟ کیا اس کا تدارک ممکن ہے؟ ہم کیسے اس دلدل سے نکل سکتے ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے خودی فیسٹیول آف آئیڈیاز میں فکر انگیز مگر دلچسپ سیشنز رکھے گئے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے فیسٹول آف آئیڈیاز میں اس برس پاکستان کے مایہ ناز مفکرین، محققین اور ماہرینِ عمرانیات اظہار عامہ کی آزادی مفقود ہونے سے متعلق عمومی سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں گے۔یہ فیسٹول پانچ دسمبر سے سات دسمبر تک جاری رہے گا۔
گزشتہ برس راقم فیسٹیول آف آئیڈیاز میں شریک ہوا جہان پاکستان بھر کے نوجوانوں سے تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ فیسٹول کے دوران منعقد کی گئی فکری نشستوں کے دوران سیاسی بلوغت کے ساتھ ساتھ عصری مسائل اور نظریاتی ارتقاء سے واقفیت کا موقع بھی ملا۔ انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ کے عہدیداران سے بھی ملاقات ہوئی جو معروف گلوکار جواد احمد کی سرکردگی میں طبقاتی تقسیم کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہیں۔ان انقلابی دوستوں سے ملاقات کے دوران انقلابی تحاریک کی کامیابی کے لیے ذرائع ابلاغ کے استعمال کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔
خودی فیسٹول آف آئیڈیاز کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ فکری نشستوں کے دوران آڈیٹوریم کے اندر ہی نہیں آڈیٹوریم کے باہر بھی تبادلہ خیال اور مکالمہ کے مواقع ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ مختلف زبانوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کے میل جول سے شرکاء کے مابین یگانگت اور ہم آہنگی کی ایسی فضا قائم ہوتی ہے جو اس مملکت کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔

Leave a Reply