ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے پاکستانی جامعات کو "نظریہ پاکستان کے بنیادی اصولوں "سے متصادم سرگرمیوں کو سختی سے روکنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے، یہ ہدایت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیلی ثقافت کی نمائندگی کے لئے لگائے گئے سٹال پر اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے سامنے آنے والے پرتشدد ردعمل کے بعد جاری کی گئی ہے۔ یہ ہدایت نہ صرف بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہےبلکہ پاکستانی تعلیمی نظام کے فکری جمود کی غماز ہے جس میں دائیں بازو کی مذہبی فکر اورسرکاری بیانیہ سے اختلاف اور تنقید کی گنجائش نہیں۔
ہمارے تعلیمی ادارے ایک ایسا آزاد ماحول پروان چڑھانے میں ناکام رہے ہیں جو فکری ارتقاء کے لئے نظریاتی آزادی، برداشت، تحقیق ، آزادی اظہار اور اختلاف رائے جیسے عناصر کی موجودگی کو یقینی بنا سکے۔
عوامی سطح پر اختلافی نقطہ نظر کے لئے پائے جانے والے عدم برداشت میں اضافہ تشویشناک ہے جس کے باعث تعلیمی اداروں میں فکری جمود اس نہج کو پہنچ چکا ہے کہ مذہب، ثقافت اور ریاستی بیانیہ پر تنقید کا عمل روکنے کے لئے سرکاری اور معاشرتی سطح پر ترقی پسند فکر اور جدت پسند نظریات کی ترویج ممکن نہیں رہی۔ ہمارے تعلیمی ادارے ایک ایسا آزاد ماحول پروان چڑھانے میں ناکام رہے ہیں جو فکری ارتقاء کے لئے نظریاتی آزادی، برداشت، تحقیق ، آزادی اظہار اور اختلاف رائے جیسے عناصر کی موجودگی کو یقینی بنا سکے۔اس کے برعکس تعلیمی اداروں میں سرکاری سرپرستی میں ایسی تمام سرگرمیوں کو روکنے کا اہتمام کیا جاتا ہے جو مروجہ عقائد، نظریات اور ریاستی بیانیہ سے کسی بھی طرح مختلف یا متضاد ہوں۔
گزشتہ چار دہائیوں کے دوران نصاب اور تدریس کا عمل محض دقیانوسی مذہبی تشریحات اور منجمد افکار کی گردان تک محدود ہو چکا ہے۔ سرکاری سطح پرمولانا مودودی کی فکر کے مطابق تیار کئے گئے نصاب اور تدریسی ماحول کے باعث نظریہ پاکستان، مذہب اور پاکستانی ثقافت پر عمومی مکالمہ، مباحثہ، تحقیق اور تنقید کا عمل روکنے کی منظم کوششیں نصاب کی تبدیلی اور طلبہ سرگرمیوں کو محدود کرنے کا بھی باعث بنی ہیں۔ پاکستانی جامعات اور تعلیمی اداروں کے کیمپس نظریاتی گھٹن اور حبس کے باعث ایک ایسی نسل کی افزائش کررہے ہیں جو ذہنی طور پر امام غزالی کی فکر سے آگے سوچنے کی اہل نہیں، جبکہ معاصر دنیا بارہویں صدی عیسوی سے آٹھ صدیاں آگے بڑھ چکی ہے۔
گزشتہ چار دہائیوں کے دوران نصاب اور تدریس کا عمل محض دقیانوسی مذہبی تشریحات اور منجمد افکار کی گردان تک محدود ہو چکا ہے۔ سرکاری سطح پرمولانا مودودی کی فکر کے مطابق تیار کئے گئے نصاب اور تدریسی ماحول کے باعث نظریہ پاکستان، مذہب اور پاکستانی ثقافت پر عمومی مکالمہ، مباحثہ، تحقیق اور تنقید کا عمل روکنے کی منظم کوششیں نصاب کی تبدیلی اور طلبہ سرگرمیوں کو محدود کرنے کا بھی باعث بنی ہیں۔ پاکستانی جامعات اور تعلیمی اداروں کے کیمپس نظریاتی گھٹن اور حبس کے باعث ایک ایسی نسل کی افزائش کررہے ہیں جو ذہنی طور پر امام غزالی کی فکر سے آگے سوچنے کی اہل نہیں، جبکہ معاصر دنیا بارہویں صدی عیسوی سے آٹھ صدیاں آگے بڑھ چکی ہے۔
نصابی متن، امتحانی سوالات، تحقیقی موضوعات اور طلبہ سرگرمیوں کا ایک مختصرجائزہ بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ موجودہ نظام امام غزالی اورمولانا مودودی کی قدامت پرست منجمد فکر کا تشویش ناک تسلسل ہے ۔
پاکستانی نظام تعلیم غزالی،اقبال اور مودودی کی فکر کو پروان چڑھا کر ایک ایسی نسل کی تیاری میں مصروف ہیں جوآزادی فکر، اظہاررائے اور اختلاف رائے کی آزادی سے روشناس ہوئے بغیر آباء کی کتب اور نظریات کے منتخب حصوں کو عالمگیر سچائی ماننے پر مجبور ہیں۔ موجودہ نصاب، تعلیمی ماحول اور تدریسی سرگرمیاں ایک ایسی افرادی قوت تیار کر رہے ہیں جو فکری طور پر بانجھ اور عملی طور پر حددرجہ غیر ہنرمند ہے۔ نصابی متن، امتحانی سوالات، تحقیقی موضوعات اور طلبہ سرگرمیوں کا ایک مختصرجائزہ بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ موجودہ نظام امام غزالی اورمولانا مودودی کی قدامت پرست منجمد فکر کا تشویش ناک تسلسل ہے ۔ نظریہ پاکستان، عقائد اور ثقافت کے نام پر فکری ارتقاء میں رکاوٹ ڈالنے والی آوازوں میں ابن رشد ، فارابی اور ابن سینا کی فکری جدت کے خلاف تکفیر اور فتووں کی گونج باآسانی سنی جا سکتی ہے۔
امام غزالی اور دیگر قدامت پرستوں کی طرف سے ابن رشد اور فلسفیانہ استدلال کے خلاف منظم مہم کے باعث بوعلی سینا کی سقراطی فکرکا زوال اور اسلام کے سنہرہی دور کاخاتمہ محض بارہویں صدی کی ایک داستان نہیں بلکہ پاکستانی قانون سازوں کے لئے ایک ایسی مثال ہے جس سے آج کے تعلیمی نظام کو درست سمت میں گامزن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
امام غزالی اور دیگر قدامت پرستوں کی طرف سے ابن رشد اور فلسفیانہ استدلال کے خلاف منظم مہم کے باعث بوعلی سینا کی سقراطی فکرکا زوال اور اسلام کے سنہرہی دور کاخاتمہ محض بارہویں صدی کی ایک داستان نہیں بلکہ پاکستانی قانون سازوں کے لئے ایک ایسی مثال ہے جس سے آج کے تعلیمی نظام کو درست سمت میں گامزن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
excellent shoaib sahib..
I want to write answer of this artical can you people publish that answer also plz reply me.
Yes Faisal if you have any valid rebuttal please do write and send it to contribute@laaltain.com
What I don’t understand is people who have nothing to do with the process of education make a lot of fuss about the education standard at present in Pakistan. The mess created by one man in education needs to be overhauled and then planning further action in this regard. The man who had no experience of education categorically brought all the Institutes under public domain in one stroke of his pen. No one dared to question his insane act and the dead nation agreed with his idiotic thinking. It is almost 35 years that nature took care of him and no one has the courage to revert the damage done to institutions of Pakistani education.The world has turned into a Global village and we are still busy discussing GHAZALI,SENA and RUSHD. Yes the world is now an open book and all that is needed is select a portion of knowledge by grades from the information pool freely available on the internet and printing world. The information doubles every 4 years and it is becoming hard to catch up for any one. The curricula for each subject is available free and all that calls for is make every institute independent to impart education so that a competitive environment is created. A central authority for testing the performance of each Institution should be tasked to test the level of achievement through STANDARDISED TESTS.It should be like ETS of USA. The National Standardized Tests will determine the level of each and every institution and a competitive atmosphere will ensue in the secondary as well as higher education. Nothing will change through debating about the system unless the action is taken.
I have taught in Pakistan, Germany, England , Canada and USA for 40 years and am well aware of core values of each system and wonder why so much fuss is created over the trite system in Pakistan. It needs sincerity of purpose that is absent in Pakistan.Period:
I would like to hear from Faisal Javid. Can I be informed specifically of his reply?
First of all, I am sorry that I don’t have Urdu keyboard and have to write my comments in English. I hope it is acceptable.
I am surprised that the author is describing, Imam Gazali, Alama Iqbal and Moulana Modoodi as hurdles and "show-stoppers” to the "liberal thinking” which the writer wants to portray and support.
Yes, we want our institutions a place of learning and with "liberal thinking” but we should not be pointing fingers or blaming people who are not with us anymore. This is exactly what author is raising his/her voice and doing the same think. We cannot blame thinker or philosopher of any school of thought, if we are "liberals”.
It appears that the author is missing the point with his borrowed thinking and not analyzing the issue.
Not only our higher educational institutions but all places of learning must teach ethics and character building and basic human values. They should teach, consciousness (Alama Iqbal’s philosophy of "KHUDDI” , fairness, justice and other fundamental human values. Unfortunately these values have evaporated from the society and from our institutions as well.
There is a strong need to go back to basics rather than following the band-wagon and thinking that every thing old is not good and everything new is cool and liberal. For GOD sake.