Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

faiz ahmed faiz

فکرِ فیض اور نوجوان نسل

اسد فاطمی

اسد فاطمی

17 اپریل, 2024

خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے
فضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
وہ جن کے نور سے شاداب تھے مہ و انجم
جنون عشق کی ہمت جوان تھی جن سے
وہ آرزوئیں کہاں سو گئی ہیں میرے ندیم

فیض جو برصغیر کے ترقی پسند ادب کا سب سے معتبر حوالہ ہیں، فی زمانہ ان کے ساتھ نژاد نو کے فکری اور نظری تعلق کی تجدید آج کے ترقی پسندوں کی نہایت اہم ذمہ داری ہے۔ اگرچہ ہر دور اپنے زمانے کی حجت خود پیدا کرتا ہے، اور محض اسلاف کی باقیات کو “حسبنا الکتاب” کہہ کر سینے سے لگائے رکھنا ترقی پسندی نہیں ہے، لیکن اس حقیقت کا ادراک بھی ناگزیر ہے کہ فیض جیسے نوابغ کے بعد کا خلا پر کرنے کے لیے صدیوں کا انتظار درکار ہے، اور فیض اپنی وفات کے ربع صدی بعد بھی بدستور ترقی پسندوں کے لیے حجت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور آج بھی ہم ترقی پسند ادب کے زمانۂ فیض سے ہی گزر رہے ہیں۔ اسد مفتی کے بقول، “فیض اپنے عہد کی آواز نہیں، بلکہ عہد ان کی آواز بن گیا ہے”۔
ایک خوش مذاق نوجوان کے ذہن کو متاثر کرنے کی جتنی صلاحیت فیض کے کلام میں ہے، رواں اور گزشتہ صدی کے کسی اور شاعر کے کلام میں نہیں ہے۔ وہ اپنے رومانوی اور انقلابی مضامین کے مخصوص امتزاج پردہ در پردہ ایک نوجوان پر وا ہوتے ہیں۔
فیض نے جن زمانوں میں لکھا، یہ خطہ تب ایک انقلابی دور سے گزر رہا تھا۔ اور یقینا فیض کے فن کو نکھارنے میں اس زمانے کے سیاسی و سماجی معروض کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے بزرگ اس عہد کی آخری چند جھلکیوں کے عینی شاہد ہوں گے، جب ہمارے سماج کے ہر طبقے کے پاس استحصال اور انصاف، آزادی اور بربریت اور رجعت اور انقلاب میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ایک واضح موقف تھا۔ بین الاقوامی سطح پر طاقتوں کا توازن موجود تھا، تیسری دنیا میں قومی آزادی کی تحریکیں فیصلہ کن ادوار سے گزر رہی تھیں۔ الغرض وہ کشمکش کے عروج کا زمانہ تھا۔ شعراء اور دانشوروں نے انصاف، آزادی اور انقلاب کا ساتھ دیا۔ فیض اسی قبیلے کے سرخیل تھے۔ اور یونہی سماج کے دوسرے طبقوں کی طرح نوجوان بھی اس مورچے میں آ کر صف آراء ہوئے۔ یہاں سے نوجوانوں پر فیض کی فکری اثراندازی کا آغاز ہوتا ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ ایک خوش مذاق نوجوان کے ذہن کو متاثر کرنے کی جتنی صلاحیت فیض کے کلام میں ہے، رواں اور گزشتہ صدی کے کسی اور شاعر کے کلام میں نہیں ہے۔ وہ اپنے رومانوی اور انقلابی مضامین کے مخصوص امتزاج پردہ در پردہ ایک نوجوان پر وا ہوتے ہیں۔ جمال لب و رخسار اور محبوب کی پیرہن آرائی کی سطحی رنگینی اسے ایک دم اپنی طرف مائل کرتی ہے، اور وہ فیض شناسی کے پہلے زینے پر قدم رکھتا ہے، رفتہ رفتہ وہ ان مفاہیم کی اساس کو جا لیتا ہے اور اپنی روایتی رومانوی حدوں کو پھلانگ کر لیلائے رطن کو اسی رنگ میں چاہنے لگتا ہے جس رنگ میں فیض نے چاہا تھا۔ راقم الحروف خود انہی نوجوانوں میں سے ایک ہے جو رومانوی ادب کے دروازے سے ترقی پسند ادب اور ترقی پسند تحریک تک پہنچے ہیں۔ ایک عمومی نوجوان پر یہ کھلنے میں دیر نہیں لگتی کہ “حسن آفاق” کے نام انتساب اور “نائب اللہ فی الارض دہقاں کے نام” میں فیض کے ہاں کوئی تضاد نہیں۔ بس ذرا بات کا ڈھنگ مختلف ہے۔
فیض کے بعد کا زمانہ پے بہ پے غیر متوقع تبدیلیوں کا دور تھا۔ سن 84ء میں ان کا انتقال ہوا، اور بقول عارف
ایک درویش خوش اقبال کے جانے کی تھی دیر
پھر تو وہ دھوپ کا بوجھ آیا کہ دیوار گری
فیض جیسے نوابغ کے بعد کا خلا پر کرنے کے لیے صدیوں کا انتظار درکار ہے، اور فیض اپنی وفات کے ربع صدی بعد بھی بدستور ترقی پسندوں کے لیے حجت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور آج بھی ہم ترقی پسند ادب کے زمانۂ فیض سے ہی گزر رہے ہیں۔ اسد مفتی کے بقول، “فیض اپنے عہد کی آواز نہیں، بلکہ عہد ان کی آواز بن گیا ہے”۔
ضیا کی ظلمت کا بدترین دور، سوویت روس کی تحلیل اور اغیار کے بقول تاریخ کا اختتام، رجعت پسندوں کا سنبھلنا، ترقی پسندوں کا زوال، نو گیارہ کا واقعہ اور پھر واقعات کا ایک پورا باب۔ ہماری پود اس نئے منظرنامے میں پیدا اور جوان ہوئی ہے۔ رجعت پسندی، سماجی شکست و ریخت اور نئی طبقاتی شیرازہ بندیوں کی اس سنگ باری میں کہا جا سکتا ہے کہ ہماری پود بالعموم فکری بانجھ پن اور نظریاتی بیماریوں کے بدترین تجربے سے گزر رہی ہے۔ آج کا جوان اگر کسی نصابی مجبوری کی بنا پر “نسخہ ہائے وفا” کی ورق گردانی کر بیٹھتا ہے تو اس کی تفہیم، پیراہن اور زلف لہرانے کے استعاروں کی سطحی رنگ و بو سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔
یہاں آغاز مضمون میں کہی گئی بات کو دہراؤں گا کہ اب فیض کے ساتھ نئی نسل کے فکری تعلق کی تجدید ناگزیر ہے۔ اس نسل کو اپنی فرد عمل سنبھالنے کی دعوت دینے کے لیے اب پھر اسی دبنگ آواز کی ضرورت پڑ رہی ہے جو انہیں کوئے یار سے مقام دار کے فاصلے انگلی تھما کر طے کروائے۔
جہاں تک ترقی پسند نوجوانوں اور بالخصوص ترقی پسند طلباء کا تعلق ہے، اس روایت کے بیس سال کے تعطل اور خلا کے بعد اب ہمارا کام پھر صفر سے شروع ہونا ہے۔ اس بابت ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ نسخہ ہائے وفا جیسی باقیات صالحات ہمارے لیے نظریاتی خام مال کا درجہ رکھتی ہیں اور اپنی مٹھی بھر افرادی قوت پر ہمیں اعتماد ہے۔
آخر میں فیض کی ایک غزل کے چند اشعار اپنے ہم کار اور ہم نژاد ترقی پسند طلباء کے لیے؛
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں
ان میں لہو ہمارا جلے کہ خون دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
ہے دشت اب بھی دشت، مگر خون پا سے فیض
سیراب چند خار مغیلاں ہوئے تو ہیں
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]

(یہ مضمون انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیراہتمام فیض احمد فیض کی پچیسویں برسی پر ترقی پسند طلبہ کی نمائندگی کرتے ہوئے پڑھا گیا)