ملک اس وقت سیاسی بحران اور عدم استحکام کاشکار ہے اور ایسے میں حکمران ہوں یا احتجاج کرنے والے محض اپنی ساکھ بچانے کے لیے اپنے موقف اور مطالبات میں ذرا سی بھی لچک دکھانےکو تیار نہیں۔موجودہ سیاسی بحران میں متعدد مواقع ایسے آئے جب عمران خان اور طاہر القادری ملک کے بہتر مستقبل اور سیاسی استحکام کی خاطرلچک دکھا سکتے تھے، لیکن ملک کے حالات بہتر کرنے اور "نیااور بہتر پاکستان” بنانے کا دعوی کرنے والوں نے اپنے مطالبات اور موقف میں نرمی پیدا نہیں کی۔ اسی طرح حکمران جماعت کے پاس بھی ایسےمواقع تھے کہ حکومت ذرا سا جھک کر ذرا سی لچک دکھا کر معاملات سلجھا سکتی تھی لیکن حکمران جماعت کے سست رد عمل اور بسااوقات جلد بازی نے مسائل کو مزید الجھایا ہے۔دونوں طرف کی انا اور خود کو جمہوریت کا ٹھیکیدار سمجھنے کی وجہ سے بھی معاملات ڈیڈ لاک کا شکار رہے ہیں۔
ماضی میں بھی جمہوری حکومتوں میں فوج ثالث کا کردار ادا کرتی رہی ہے، بھلے وہ 1993 میں نواز شریف اور غلام اسحق کے درمیان سیاسی تناو کے دوران جنرل عبدالوحید کاکڑ کاکردار ہو یا گزشتہ دور میں ججز بحالی کے لئے جنرل کیانی کی مداخلت ہو
حزب اختلاف خصوصاً پیپلز پارٹی کی جانب سے مثبت کردار کے باوجود حکومت پر دباو بڑھانے میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ آصف زرداری صاحب اپنے دور اقتدار میں جس عمدگی سے مفاہمتی اور جمہوری پالیسی پر عمل پیرا رہے موجودہ بحران سے قبل بطور اپوزیشن وہ تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو ساتھ لے کرایک موثر حزب اختلاف کا کردار ادا نہیں کر سکے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کے پاس لچک دکھانے یا طاقت استعمال کرنےکے آپشن بے حد کم ہیں اس لئے فوج کو اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دینا پڑی ہے۔ماضی میں بھی جمہوری حکومتوں میں فوج ثالث کا کردار ادا کرتی رہی ہے، بھلے وہ 1993 میں نواز شریف اور غلام اسحق کے درمیان سیاسی تناو کے دوران جنرل عبدالوحید کاکڑ کاکردار ہو یا گزشتہ دور میں ججز بحالی کے لئے جنرل کیانی کی مداخلت ہو،مگر خورشید شاہ کی جذباتی تقریر اورفوج کو کردار ادا کرنے کی درخواست کرنے پر حکومت کی دانستہ غلط بیانی سے یہ صورت حال سلجھنے کی بجائے مزید الجھ چکی ہے۔
جمہوریت کی دعویدار مسلم لیگ ن کے سربراہ کی طرف سےسیاسی معاملات میں فوج کو سہولت کار کے طور پر بلایا جانا بذات خود حکومت کی بے بسی کا مظہر ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کی ٹویٹ کے بعد حکومت کی ساکھ کا جنازہ نکالنا بے حد آسان ہو گیا چنانچہ جمہوریت کے رکھوالے تجزیہ نگار اور مبصرین اس وقت سے حکومت پر سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر تنقید کررہے ہیں۔ فوج کو اس معاملے میں تنقید کا سامنا نہیںکرنا پڑا لیکن آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی دعویدار حکومت کی ساکھ کی دھجیاں اڑ گئیں۔ ہر سمت سے حکومت پر سیاسی معاملات میں فوج کو مداخلت کی دعوت دینے اورسیاسی بحران حل کرانے کے لئے فوج کے سامنے جھکنے پرتنقید کا ایک نہ ختم ہونےوالا سلسلہ شروع ہو گیا جس کا جواب نہ حکومت کے پاس تھا نہ حکومت کے ساتھ کھڑی پارلیمانی جماعتوں کے پاس۔ اس موقع پریہ نقطہ فراموش کردیا گیا کہ فوج کی جانب سے بھی سیاسی ملاقاتوں اور رابطوں کے غیر آئنی اقدام پر تنقید کیا جانا ضروری ہے۔فوج کا سیاسی کردار بحران حل کرنے میں سیاسی قیادت کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
جمہوریت کی دعویدار مسلم لیگ ن کے سربراہ کی طرف سےسیاسی معاملات میں فوج کو سہولت کار کے طور پر بلایا جانا بذات خود حکومت کی بے بسی کا مظہر ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کی ٹویٹ کے بعد حکومت کی ساکھ کا جنازہ نکالنا بے حد آسان ہو گیا چنانچہ جمہوریت کے رکھوالے تجزیہ نگار اور مبصرین اس وقت سے حکومت پر سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر تنقید کررہے ہیں۔ فوج کو اس معاملے میں تنقید کا سامنا نہیںکرنا پڑا لیکن آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی دعویدار حکومت کی ساکھ کی دھجیاں اڑ گئیں۔ ہر سمت سے حکومت پر سیاسی معاملات میں فوج کو مداخلت کی دعوت دینے اورسیاسی بحران حل کرانے کے لئے فوج کے سامنے جھکنے پرتنقید کا ایک نہ ختم ہونےوالا سلسلہ شروع ہو گیا جس کا جواب نہ حکومت کے پاس تھا نہ حکومت کے ساتھ کھڑی پارلیمانی جماعتوں کے پاس۔ اس موقع پریہ نقطہ فراموش کردیا گیا کہ فوج کی جانب سے بھی سیاسی ملاقاتوں اور رابطوں کے غیر آئنی اقدام پر تنقید کیا جانا ضروری ہے۔فوج کا سیاسی کردار بحران حل کرنے میں سیاسی قیادت کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
تحریک انصاف اور طاہرالقادری کی جدوجہد اگرجمہوریت کے استحکام کی جدوجہد ہوتی تو وزیر اعظم کے استعفٰی اور اپنے جمہوری مطالبات کی منظوری کے لی آرمی چیف کو ضامن یا ثالث بنانےسے انکارکرسکتے تھے۔
فوجی سربراہ کی جانب سے فون اور ملاقات کی دعوت اور ثالثی قبول کرنے سے عمران خان اور طاہرالقادری کا انکاربھی سیاستدانوں کو سیاسی مسائل حل کرنے کاموقع فراہم کرسکتا تھا اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کا باعث بن سکتا تھا۔تحریک انصاف اور طاہرالقادری کی جدوجہد اگرجمہوریت کے استحکام کی جدوجہد ہوتی تو وزیر اعظم کے استعفٰی اور اپنے جمہوری مطالبات کی منظوری کے لی آرمی چیف کو ضامن یا ثالث بنانےسے انکارکرسکتے تھے۔عمران خان جمہوریت کومستحکم کر سکتے تھے، خود کو منوا سکتے تھے ۔وہ کہہ سکتے تھے کہ "نواز شریف !ایک سپہ سالار غلیل والا ہمارے معاملات کیسے حل کرا سکتا ہے ، ہم جمہوریت کا استحکام چاہتے ہیں اور جعلی جمہوریت کو اصل جمہوریت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے آرمی چیف کو کیوں ثالث بنائیں ۔”یہ وہ مقام تھا کہ عمران خان اپنا مقام بنا سکتے تھے ، خود پر لگافوج کی پشت پناہی کا الزام جھٹلا سکتے تھے اور اپنا سیاسی قد وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر زرداری سے اونچا کر سکتے تھے، اس گیند پر وہ چھکا لگا سکتے تھے لیکن وہ بھی اپنے سیاسی مستقبل اور مفادات کی خاطرفوج کی ثالثی اور ضمانت پر راضی ہو گئے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتے کے رویہ سے تو لگتا ہے کہ نای پاکستان بنے یا نہ بنے عمران خان شاہراہ دستور سے وزیراعظم بن کر ہی واپس جائیں گے۔
حکومت اگر قومی اسمبلی میں فوج کو سیاسی بحران کے حل میں ملوث کرنے کا اعتراف کر لیتی تو اسے شرمندگی اور دروغ گوئی کے الزامات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کی ٹویٹ کے بعد حکومت اور اس کے اتحادیوں خصوصاً مسلم لیگ نواز کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہو نے سے پارلیمان مزید کم زور ہوا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ اس ملک کے وفادار، خیر خواہ ، ضامن ، محافظ ، حکمران ، سیاستدان ، سب عوام کے نمائندے ہیں لیکن اپنے ذاتی مفادات اور انا کی خاطر جمہوری اداروں اور ملکی سلامتی کو داو پر لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
حکومت اگر قومی اسمبلی میں فوج کو سیاسی بحران کے حل میں ملوث کرنے کا اعتراف کر لیتی تو اسے شرمندگی اور دروغ گوئی کے الزامات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کی ٹویٹ کے بعد حکومت اور اس کے اتحادیوں خصوصاً مسلم لیگ نواز کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہو نے سے پارلیمان مزید کم زور ہوا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ اس ملک کے وفادار، خیر خواہ ، ضامن ، محافظ ، حکمران ، سیاستدان ، سب عوام کے نمائندے ہیں لیکن اپنے ذاتی مفادات اور انا کی خاطر جمہوری اداروں اور ملکی سلامتی کو داو پر لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
Leave a Reply