Laaltain

فن کدہ

8 اگست، 2016
وہ تینوں آگے پیچھے چلتے ہوئے جوں ہی آڈیٹوریم میں داخل ہوئے، تو منتظمین میں سب سے زیادہ باتونی شخص نے نعرہ بلند کرتے ہوئے کہا۔

 

“آہاہا ہا۔۔۔۔ ہمارے اصلی چیف گیسٹ آ گئے۔ ان ہی کے دَم سے تو یہ ادارہ ہے۔ یہ لوگ ہماری شان، ہمارا وقار، ہمارابھرم ہیں۔”

 

تینوں نے ایک دوسرے کو مسکراتے ہوے دیکھا۔ انتظامیہ کے ایک اہم کارکن فداصاحب آگے بڑھے اور بوڑھے شاعر منحنی طبلہ نواز اور بیمار مصور کو ایک ساتھ اپنی بانہوں میں بھرتے ہوے بولے۔

 

فن کاروں کی فلاح و بہبود کا عظیم الشان قدم، کے سنہرے الفاظ بیک ڈراپ پرجگمگا رہے تھے۔ اراکینِ مجلس صدارت کی اونچے تاج والی کرسیاں ابھی خالی تھیں۔ پروگرام کو شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔
آپ لوگوں کو گلے لگا کر میری عزت بڑھ جاتی ہے۔ میرا قد اونچا ہو جاتا ہے۔ فدا صاحب نے تینوں کو سب سے آگے نرم صوفوں پر بٹھاتے ہوے مزید کہا، “خدا کی قسم آپ یہاں سب سے آگے میری آنکھوں کے عین سامنے بیٹھیں گے، اورکہیں نہیں جائیں گے، کیوں کہ آج ہم آپ جیسے عظیم فن کاروں کے لیے جو فیصلے کرنے جارہے ہیں، وہ سننے کے لیے آپ کا سامنے ہونا بہت ضروری ہے۔”

 

تینوں معصوم فن کار عاجزی سے خصوصی صوفوں پر بیٹھ گئے۔ انتظامیہ کے ارکان دیگر کاموں میں مصروف ہو گئے۔ فن کاروں کی فلاح و بہبود کا عظیم الشان قدم، کے سنہرے الفاظ بیک ڈراپ پرجگمگا رہے تھے۔ اراکینِ مجلس صدارت کی اونچے تاج والی کرسیاں ابھی خالی تھیں۔ پروگرام کو شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ آڈیٹوریم میں لوگ آہستہ آہستہ داخل ہوتے ہوئے ادھراُدھربیٹھ رہے تھے۔

 

بوڑھے شاعرکو فدا صاحب کے والہانہ پن پرسخت حیرت تھی۔ ان کی گومگوں کی کیفیت کو بھانپتے ہوئے بیمار مصور نے کہا۔
“آپ کچھ پریشان ہیں؟”

 

“یہ شخص آج صبح مجھے اپنے دفترمیں پہچاننے سے انکار کر چکا ہے۔” بوڑھے شاعرنے فدا صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فوراً کہا۔

 

“کوئی مجبوری رہی ہو گی۔ “طبلہ نواز بولے۔

 

“خدا جانے۔”بوڑھے شاعر نے ٹھنڈی سانس لی۔

 

یہ کہہ کر تینوں خاموش ہو گئے۔ کچھ ہی دیر میں تینوں کو اپنے اطراف بے شمار آنکھوں سے ٹپکتی حیرت کی چھبن کا احساس ہونے لگا۔ بے چینی کے باوجود خاموش بیٹھے ہوئے تھے، کہ انتظامی کارکنوں میں سے ایک ان کی طرف بڑھا اور بولا۔

 

اس کے بعد بھی دو قطاریں وی آئی پیز کے لیے ہیں۔ آپ لوگ ایسا کریں کہ آٹھ قطاروں کے بعد کہیں بھی بیٹھ جائیں۔ “وہ شخص بے نیازی سے بولا۔
“یہ نشستیں صوبائی اسمبلی کے خاص ممبران کے لیے ہیں۔ آپ کہیں اوربیٹھ جائیں۔”

 

“مگر ہمیں تو فدا صاحب نے خود بٹھایا ہے۔ شاعرنے حیرت سے کہا۔

 

“ہر بات فدا صاحب کے علم میں تو نہیں ہوتی نا۔”وہ شخص بولا۔

 

“تو پھرہم وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔”مصورنے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تو اس نے جواب دیا۔

 

“وہاں تو ڈی سی او صاحب کی فیملی آئے گی۔”

 

“تو پھر وہاں؟”انہوں نے ایک اورجانب اشارہ کیا۔

 

“وہاں بزنس کمیونٹی کے لوگ بیٹھیں گے۔”

 

“اوراس طرف؟”انہون نے طنزیہ مسکراہٹ سے ایک جگہ کی نشاندہی کی۔

 

“وہ پریس گیلری ہے۔”

 

“پھر وہاں؟”انہوں نے چارقطاروں سے پیچھے اشارہ کیا۔

 

“وہاں شہر کی کچھ نامور سخصیات کے لیے جگہ مختص ہے۔”

 

“اس کے بعد بھی دو قطاریں وی آئی پیز کے لیے ہیں۔ آپ لوگ ایسا کریں کہ آٹھ قطاروں کے بعد کہیں بھی بیٹھ جائیں۔ “وہ شخص بے نیازی سے بولا۔

 

آڈیٹوریم کی ہرپچھلی قطاربے وزن ترازوں کے پلڑے کی طرح اوپراٹھی ہوئی تھی، جو کہ خالی ہونے کی وجہ سے بے وقعت بھی ہوتا ہے۔ بوڑھے شاعر، منحنی طبلہ نواز اوربیمار مصور کے لیے خود کو بے وقعت بنا دینے والا اونچائی کا یہ سفرتھکا دینے والا تھا۔
تینوں فن کاروں نے ایک دوسرے کو بے بسی سے دیکھا اور خاموشی سے اٹھ کر کھڑے ہوئے۔ اب وہ پچھلی نشستوں کی طرف جارہے تھے۔ آٹھ قطاروں کے بعد کی اکا دکا خالی نشستوں پردعوت نامے، اخبار، لفافے، اور رومال اشارہ کر رہے تھے کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی خالی عمارتوں کی طرح مقبوضہ ہیں۔ وہ تینوں اورپیچھے چلے گئے، تاکہ تینوں کو ایک ساتھ جگہ مل سکے۔

 

آڈیٹوریم کی ہرپچھلی قطاربے وزن ترازوں کے پلڑے کی طرح اوپراٹھی ہوئی تھی، جو کہ خالی ہونے کی وجہ سے بے وقعت بھی ہوتا ہے۔ بوڑھے شاعر، منحنی طبلہ نواز اوربیمار مصور کے لیے خود کو بے وقعت بنا دینے والا اونچائی کا یہ سفرتھکا دینے والا تھا۔ بوڑھا شاعر جلد ہی ہانپنے لگا۔ ان کی ناہموار سانسوں نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ تب بیمار مصور بولا۔

 

“تم تو مجھ سے بھی گئے گزرے ہو۔”

 

شاعر نے دوہری کمر، جھکی گردن، دھنسی آنکھوں اورپھیکی مسکراہٹ سے دیکھا اور کہا۔ “تم ٹھیک کہتے ہو۔”

 

آڈیٹوریم دھیرے دھیرے شہر کی اہم اورنمایاں شخصیات سے بھرتا جارہا تھا۔ کچھ ہی دیرمیں تقریب کا آغاز ہو گیا۔ اسٹیج پرمجلس صدور کی تمام نشستوں پرشہرکے چنیدہ اورمشہورلوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ فن کدہ میں فن کاروں کی بہبود کے لیے ہونے والے اس فلاحی پروگرام کی مجلس صدور کے اراکین میں کوئی بھی فن کار نہیں تھا۔

 

تقریب کا آغاز ہو چکا تھا۔ فدا صاحب خطبہ استقبالیہ پیش کرچکے تھے۔ اس دوران انہوں نے فن کاروں کی بہبود کے لیے چند اہم اعلانات بھی کیے، مگرنشستوں کی تلاش و جستجو میں تینوں فنکار ایک بات بھی سن نہ سکے۔

 

“خود کش حملے، بم دھماکے، میڈیا کی چیخ و پکار اوربے حسی کی پھیلتی ہوئی گھٹن میں ہمیں اپنے طبلے کی آواز بھی صحیح طرح سنائی نہیں دیتیی۔ ایسے میں دھیمی تانیں، لگانے کو بڑا دل چاہتا ہے۔
“فدا صاحب کوئی اعلان کرنے والے تھے۔ کیا اعلان کیا انہوں نے؟”طبلہ نواز نے مصور سے پوچھا۔

 

“بھئی آپ کی طرح ہم بھی تو کرسی ڈھونڈھنے میں لگے ہوئے تھے۔”مصورنے جواب دیا۔

 

“ایسی کیا بے چینی ہے خاں صاحب۔ پتا چل ہی جائے گا۔”بوڑھے شاعرنے بے دلی سے کہا تو طبلہ نواز بولے۔

 

“خود کش حملے، بم دھماکے، میڈیا کی چیخ و پکار اوربے حسی کی پھیلتی ہوئی گھٹن میں ہمیں اپنے طبلے کی آواز بھی صحیح طرح سنائی نہیں دیتیی۔ ایسے میں دھیمی تانیں، لگانے کو بڑا دل چاہتا ہے۔ اوریوں بھی کوئی اچھی خبر سنے ہوئے بہت عرصہ بیت گیا۔”

 

سماج کے بے حس نوکیلے کانٹوں کے ہاتھوں زخم خوردہ اوردرد میں ڈوبی آواز سن کرمصور اور شاعردونوں نے اپنے ہونٹوں کو بھینچ لیا، کیوں کہ وہ خود بھی ایسی ہی ہولناک صورت حال کے اسیر تھے۔ کاغذ پرلکھی ادھوری نظموں، رنگوں کے خالی ڈبوں اورآڑی ترچھی لکیروں والے ادھورے کینوس کے ڈراﺅنے خواب ان کی بھی زندگی کا حصہ تھے۔

 

آڈیٹوریم میں تالیوں کی گونج اورتعریفی کلمات کا شور مسلسل سنائی دے رہا تھا۔ ہال کی تمام نشستیں پُر ہو چکی تھیں، مگر لوگوں کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری تھا۔ لوگ خالی نشستوں کی تلاش میں ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ اسی اثناءمیں وہی کارکن جس نے تینوں کو پیچھے بھیجا تھا، ان کے پاس آیا اوربڑی لگاوٹ سے بولا۔

 

“خاں صاحب! ہماری معزز مہمان خواتین کھڑی ہیں، اور ہم میزبان جو کہ فن کدہ کے مالک ہیں، بیٹھے رہیں۔۔۔ اچھا نہیں لگتا۔ یہ سارا میلہ آپ ہی نے تو لگایا ہے۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔ ہم سب مل کراس میلے کو کامیاب بنائیں گے۔”

 

تینوں نے ایک ساتھ فیصلہ کیا اورقدم آگے بڑھا دیئے، مگرکوششوں کے باوجود، راہ داری میں کھڑے معززین شہر کی بڑی تعداد نے، بوڑھے شاعر، منحنی طبلہ نواز اوربیمار مصورکو آگے بڑھنے کا راستہ ہی نہی دیا۔
بوڑھے شاعر، منحنی طبلہ نوازاوربیمارمصور نے ایک دوسرے کو دیکھا اورخاموشی سے نشستوں کو چھوڑ دیا۔

 

اسٹیج پرتقاریر جاری تھیں۔ تالیوں کی آوازبھی مسلسل آ رہی تھی۔ لیکن داد تحسین کے اس شور میں کیا کہا جا رہا تھا، کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ یا پھر وہ آوازیں ان تینوں فن کاروں تک نہیں پہنچ پا رہی تھیں۔ تینوں بوڑھے فن کاروں میں

 

تا دیرکھڑے رہنے کی سکت نہیں تھی۔ کارکن انہیں بے نشیں کر کے غائب ہو چکا تھا۔ انہوں نے بیٹھنے کے لیے اِدھر اُدھرنگاہ دوڑائی مگر آڈیٹوریم میں کوئی نشست خالی دکھائی نہیں دی۔ اچانک ان کی نگاہ اسٹیج پرمجلس صدورکی اونچی تاج والی کرسیوں کی طرف گئی۔ وہاں تین صدور اپنی اپنی تقاریر کر کے اپنی دیگرمصروفیات کی وجہ سے شہرکے کسی اورمرکز کی طرف جا چکے تھے۔

 

یکایک تینوں کو ایک ہی خیال سوجھا، کہ فن کدہ کی وہ تشستیں اپنے قبضے میں کر لیں، جن پربیٹھنے کا بنیادی حق صرف ان ہی کا ہے۔ تینوں نے ایک ساتھ فیصلہ کیا اورقدم آگے بڑھا دیئے، مگرکوششوں کے باوجود، راہ داری میں کھڑے معززین شہر کی بڑی تعداد نے، بوڑھے شاعر، منحنی طبلہ نواز اوربیمار مصورکو آگے بڑھنے کا راستہ ہی نہی دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *