وہ تم تھے
جو زمان و مکاں کی حدیں توڑ کر
دینہ سے مِلنے آئے تھے
میں تو یونہی وہاں جا پہنچا تھا
ڈھلتی سہ پہر کے سرمئی سایوں کی طرح
ایک سے دوسری جگہ
دن گزاری کے لیے
کہ اچانک وقت میری گرفت میں آ گیا
ریلوے اسٹیشن سے باہر
ایک سفید سائے سے گلے مِلتے ہوئے
یوں لگا جیسے
دھوپ اور بارش کو ایک ساتھ چھو لیا ہو
جیسے دن کے تیسرے پہر کے مٹیالے پَن میں
چاندنی اوڑھ لی ہو
پتا نہیں تمہارے ہاتھ میں ٹائم مشین تھی یا کیا تھا
زمانے پیچھے کی طرف چل پڑے تھے
تم ننھے سے جیوڑے
ریل کی فولادی پٹڑی کے پاس
کوکتی، چھینکتی، ہانپتی، سانسوں کی دبیز بھاپ نکالتی
ریل گاڑی کو دیکھ رہے تھے
اور میں بستہ لیے
ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر
پرانے چوبی بینچ پہ بیٹھا
مال گاڑی کے ڈبے گن رہا تھا
کھاریاں اور دینہ ایک ہی محور پر گھوم رہے تھے
اور کسی کو خبر نہیں تھی
کہ وقت سے بھاگے ہوئے
ہم دونوں اُس وقت کہاں تھے
ہماری فینطاسیہ ایک، عینیت ایک تھی
لیکن زمانے اور قصبے الگ الگ
اور اب تو ملک بھی الگ الگ ہیں
اور دنیائیں بھی
تم شہرت کے بوجھ تلے دبے ہوئے
اور میں گمنامی کا مارا ہُوا
لیکن ہماری مونچھوں اور ہنسی کا رنگ ایک جیسا ہے
روشن سفید ۔۔۔۔۔۔۔
ماضی کی ایک تنگ گلی میں کھڑے
چم چم اور گلاب جامن کھاتے ہوئے
تم لوگوں سے یوں مِل رہے تھے
جیسے سب تمھارے ہم جوار و ہم جولی ہوں
اور گلی جیسے تمہارے ہی گھر کا حصہ ہو
بچپن کے گھر میں داخل ہونے کے لیے
جیسے تم میرے ہی منتظر تھے
اور جب میرا بازو پکڑے ہوئے
تم دروازے سے گزر رہے تھے
تو تمہارے پاؤں جیسے سدِ صوت کو پار کر رہے تھے
تمہاری خاموشی کی آواز گمبھیر ہو گئی تھی
اور نیم تاریک صحن میں
کسی بڑی عمر کی لڑکی کو نہ پا کر
جیسے تمہارے خوابوں کی گولک ٹوٹ گئی تھی
اور عمروں کی جمع ریزگاری
وہیں پڑی رہنے کے لیے بکھر گئی تھی
اور تمہاری آنکھوں میں
جہلم کا کوئی سیلابی ریلا امنڈ آیا تھا
فلمی لوگوں کو
یہی تو سہولت ہے
کہ جب چیزیں حد سے
اور جذبات بس سے باہر ہو جائیں
تو فوراً سین “کٹ” کر کے
اپنی مرضی کے مطابق دوبارہ شوٹ کر لیتے ہیں
دیکھتے ہی دیکھتے
تم نے اسکول میں داخلہ لیا
حاضری لگوائی
سبق یاد کیا
اور یک دم فلیش بیک سے نکل کر
اپنے نام سے منسوب کالرہ بلاک کے سامنے آ کھڑے ہوئے
دوسری ہجرت کے لیے
فلم بنتی رہی
فوٹو سیشن ہوتے رہے
اور میں فوکس سے باہر واحد تماشائی
منظر کے ایک سرے پر بیٹھا
تمھیں اساتذہ کے جھرمٹ میں
بچوں کی طرح
تاریخ اور جغرافیے کا رٹا لگاتے دیکھتا رہا
جانے کب تک زمانوں کا آموختہ آمیخت ہوتا رہا
جانے کب تک پنسل اور ربر سے
لکیریں بنتی اور مٹتی رہیں
یہاں تک کہ ایک بار پھر سین کٹ ہوا
اور تم گولی کی سی تیزی سے سرحد کی طرف چل پڑے ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پہلی بار تمھیں جلدی میں دیکھا
ورنہ تم تو جہاں رکتے تھے
وہیں کے ہو جاتے تھے
جیسے ہر دل تمھارے آبائی وطن کا احاطہ ہو
وہ کیا تھا جو مجھے معلوم ہوتے ہوئے بھی معلوم نہیں تھا
جو تم جانتے ہوئے بھی بتانا نہیں چاہتے تھے
آنے میں اتنا ٹھہراؤ
کہ بار بار گلے ملتے تھے
اور گال سے گال مَس کرتے تھے
اور جانے میں اِتی عجلت
کہ سین او کے ہوئے بغیر پیک اپ کر دیا
ساگ اور مکئی کی روٹی
جس کی اشتہا
تمھاری غزلوں، نظموں اور تمھارے گیتوں سے ٹپکتی تھی
اور گڑ کی بھیلی
جسے چکھنے کے لیے
تم نے جنم جگ انتظار کیا
کھانے کی میز پر دھری رہ گئی
ناگاہ موبائل کی گھنٹی بجی
اور کہیں آدھے رستے کی دوری سے
کوئی الوداعی آواز سنائی دی
“ناصر صاحب، ناصر صاحب”
پتا نہیں وہ تم تھے
جو تھوڑی دیر پہلے پاکستان کے دینہ کے باسی تھے
یا ہندوستان کے شہری بالی وڈ کے گلزار ۔۔۔۔۔۔۔ !
(گلزار کے لیے)