سرمد صہبائی اور انجم شہزاد کی فلم "ماہِ میر” ادب کے طالب علموں کو کم از کم ایک بار ضرور دیکھنی چاہیے۔ اپنی تمامتر خامیوں کے باوجود "ماہِ میر” حالیہ دنوں میں‌ ریلیز ہونے والی تمام پاکستانی فلموں سے اچھی ہے۔
سرمد صہبائی نے بطور شاعر، بطور دانشور اور بطور انسان کبھی بھی متاثر نہیں کیا۔ بطور شاعر اُن کی بے رس کتابیں "پل بھر کا بہشت” اور "نیلی کے سو رَنگ” پڑھ کر ہم خوب بے مزہ ہوئے۔ اقبال جیسے شاعر کی جس شاعری کو وہ سیریبرل پوئٹری کہہ کر رد کرتے رہے، موصوف کی اپنی شاعری اُسی سیریبرل ایکٹیویٹی کا ثمر ہے۔ اگرچہ ہمیں اس اصطلاح کے کھوکھلے ہونےمیں رتی برابر شُبہ نہیں، مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ جس خامی کی بُنیاد پر آپ شاعرِ مشرق کو اور اُن کی شاعری کو نجی محفلوں میں گالیاں دیتے ہوں، وہ خامی آپ کی اپنی تخلیقات میں ٹھاٹھیں مار رہی ہو تو آپ کو اپنی تخلیقی سرگرمیوں سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ بطور دانشور بھی اُنہیں ایک خاص حد تک پڑھا لکھا پایا۔ اُن کو مابعد جدیدیت نے ایسا اسیر کیا کہ خدا کی پناہ۔ اردو شاعری میں اُن کو میر کی جمالیات سے آگے کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ ان کی اس بات سے اختلاف نہیں کہ میر احساس کا شاعر ہے۔

البتہ؛ سرمد صہبائی نے بطور فلم "ماہِ میر” کے تخلیق کار اور اسکرین پلے رائٹر ہمیں کسی حد تک متاثر کیا ہے۔

سرمد صہبائی اور انجم شہزاد کی فلم "ماہِ میر” ادب کے طالب علموں کو کم از کم ایک بار ضرور دیکھنی چاہیے۔ اپنی تمامتر خامیوں کے باوجود "ماہِ میر” حالیہ دنوں میں‌ ریلیز ہونے والی تمام پاکستانی فلموں سے اچھی ہے۔

خدائے سُخن میر تقی میر کی وحشت کو پردہِ سیمیں پر دکھانا اور اس انداز سے دکھانا کہ فلم میڈیم کے تقاضے بھی پورے ہوں، ایک مشکل کام تھا، جسے سرمد صہبائی نے کر دکھایا۔ "ماہِ میر” کی کہانی میں اگرچہ تجسس کا پہلو زیادہ حاوی نہیں، پھر بھی اس میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ اور اس کا سبب ہمارے پروٹیگونسٹ "فہد مصطفٰے” ہیں جن کی شاندار اداکاری نے منظر صہبائی جیسے منجھے ہوئے اداکار کو بھی پس منظر میں دھکیل دیا۔ سینما اسکرین پر بھی منظر صہبائی کے اندر سے تھئیٹر نہیں نکلتا۔ یعنی، وہ خود کو اس میڈیم کے مطابق مکمل طور پر ڈھالنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسا ہم نے شعیب منصور کی فلم "بول” میں بھی دیکھا اور ایک تیسرے درجے کی فلم "زندہ بھاگ” میں بھی۔ علاوہ ازیں، منظر صہبائی کی آواز میں جو اشعار فلم "ماہِ میر” میں‌ شامل کیے گئے ہیں، جو تعداد میں کافی زیادہ ہیں، کانوں کو بھلے معلوم نہیں ہوتے۔ جو ملائمت میر کے الفاظ میں ہے، اسے منظر کی آواز کی سختی اور کھردرا پن تباہ کر دیتا ہے۔

ڈائریکشن:

فلم میں چاند کو شعلے کی روشنی کا استعارہ اور میر تقی میر کی وحشت کو پروانے کے طواف اور شعلے میں فنا ہونے کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔
"ماہِ میر” کو انجم شہزاد نے ڈائریکٹ کیا۔ بعض جگہ حیران کُن اور بعض جگہ مایوس کن۔ حیران کُن وہاں جہاں مینیکوئین انسانی روپ میں ڈھل کر شاعر احمد جمال یعنی فہد مصطفٰے سے بات کرتے ہیں۔ اس سین میں علامت کا استعمال اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح ایک جگہ، ایک پروانہ جلتی ہوئی شمع کے شعلے میں گر کر بھسم ہو جاتا ہے اور لِیڈ رول یعنی فہد اس پروانے کو شاعرانہ حیرت کے ساتھ جل مرتا دیکھتا رہتا ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ ایک سین پوری فلم کی جان ہے۔ کہانی میں شعلے کو تخلیق اور پروانے کو تخلیق کار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ فلم میں چاند کو شعلے کی روشنی کا استعارہ اور میر تقی میر کی وحشت کو پروانے کے طواف اور شعلے میں فنا ہونے کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ اس ایک سین کے اثر سے نکلنے میں ناظر کو باقاعدہ تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔

جب احمد جمال کی کتاب شائع ہوتی ہے اور پبلشر اسے پہلی کاپی دینے آتا ہے، تو اس کی بائنڈنگ ایم فل کے کسی تھیسس کی سی ہے۔ اس پر ذہانت سے کام کیا جا سکتا تھا اور جیسے نیناں کی کتابیں واقعی کتابیں ہی محسوس ہوتی تھیں، اس پر بھی کام کیا جا سکتا تھا۔

سیٹ:

فلم کے سیٹ عجیب و غریب تھے۔ نواب کا محل جہاں سودا و میر کو آتا جاتا دکھایا گیا، کسی غریب کا برآمدہ دکھائی دیتا تھا۔ آرٹ ڈائریکشن بھی غیر متاثر کُن تھی۔ بھلا سنجے لیلا بھنسالی سے ہی کچھ سیکھ لیا ہوتا اس ضمن میں۔

کیمرہ کاری:

شاٹ ٹیکنگ بھی کافی جگہوں پر نان پروفیشنل تھی جس کی کوئی کانوٹیشن نہیں بن پائی۔ تاہم کاپٹر شاٹس بعض جگہ عمدہ تھے، اور بعض جگہ غیر ضروری۔
شاٹ ٹیکنگ بھی کافی جگہوں پر نان پروفیشنل تھی جس کی کوئی کانوٹیشن نہیں بن پائی۔ تاہم کاپٹر شاٹس بعض جگہ عمدہ تھے، اور بعض جگہ غیر ضروری بھی۔ فریمز میں غیر مطلوبہ چیزوں کی موجودگی ناظرین کی توجہ فریم کے مرکزی خیال سے ہٹا دیتی تھی۔ یعنی فریم کی کمپوزیشن اچھی نہیں رہی۔ اگرچہ، چاند کو بہت اچھے طریقے سے زُوم بھی کیا گیا اور فور گراؤنڈ کے ساتھ چاند کے کمپلیکس شاٹس بھی لیے گئے۔

کوریوگرافی:

ڈانسز کو گویا بے دلی سے شُوٹ کیا۔ ایمان علی نے خود تو رقص کیا ہی نہیں۔ ایک رقاصہ کو دو بار موقع دیا گیا۔ جس نے بہتر ڈانس کیا مگر اسے عمدہ طریقے سے شُوٹ نہیں کیا گیا۔ رہی سہی کسر beatsپر ایڈیٹنگ کَٹس نہ لگا کر پوری کر دی گئی۔ ایمان علی سے لپ سنکرونائزیشن اچھی نہیں کروائی گئی۔ بہت مکینکل لگیں۔ گویا، کوئی روبوٹ بیگ گراؤنڈ آواز سے آواز ملانے کی کوشش کر رہا ہو۔ کاسٹیوم بھی غیر متاثر کُن تھے۔

مکالمے:

سرمد کھوسٹ کی فلم "منٹو” کے مکالمے کمزور تھے۔ یہ ایک ایسی کمزوری تھی جسے اس لیے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ ایک ادیب کی بائیوپک تھی۔ ادیب کی زندگی پر بنائی گئی فلم کے مکالمے کمزور ہوں، یہ مناسب نہیں۔ تاہم سرمد صہبائی نے اس بات کا خاص خیال رکھا یعنی فلم "ماہِ میر” اگر خدائے سخن پر بنائی جا رہی ہے تو مکالمے بھی جاندار لکھے جائیں۔ اور اس کوشش میں سرمد صہبائی کافی حد تک کامیاب رہے۔

اداکاری:

ہمارے خیال میں بہترین اداکاری کا ایوارڈ فہد کو جاتا ہے۔ منظرصہبائی پس منظر میں چلے گئے۔ ہما نواب تھوڑی سی دیر کے لیے نمودار ہوئیں اور ملی جُلی یعنی اچھی ایکٹنگ اور اوور ایکٹنگ کر کے غائب ہو گئیں۔ ایمان علی بھی زیادہ متاثر کُن نہیں رہیں۔ اُن کے حسن کو سرمد صہبائی اور انجم شہزاد نے بہتیرا بڑھا چڑھا کر دکھانے اور سُنانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ علی خان نے نواب کے روپ میں بہتر اداکاری کی۔

صنم سعید نے شاعرہ نیناں کے کردار کے ساتھ انصاف کیا۔ تاہم، ناصر خان کی "بچانا” میں سادگی اور دو کاسٹیومز کے باوجود حقیقت سے زیادہ حسین لگیں، "ماہِ میر” کے میک اپ آرٹسٹ نے صنم کو حقیقت سے کم حسین دکھایا۔ یاد رہے، کم حسین دکھائی دینا اس رول کی ڈیمانڈ نہیں تھی۔ ہمیں اس معاملے میں صنم کے ساتھ ہمدردی ہے۔

ساؤنڈ:

فلم کا ساؤنڈ اچھا تھا۔ اچھے بیک گراؤنڈ میوزک کی وجہ سے ہی تو یہ ڈرامہ یانرا کی فلم، سینمیٹک پِیس بن سکی۔ ورنہ فریمز کی کمپوزیشن کی تناظر میں اگر بات کی جائے تو "ماہِ میر” ایک ٹی وی ڈرامہ بن کر رہ جاتی۔

جہاں تک تعلق ہے آٹو میٹک ڈائیلاگ ریپلیسمنٹ کا، ڈبنگ کا، تو ہمارے خیال میں اسے خامیوں سے بالکل پاک ہونا چاہئے۔ پاکستانی فلمیں اس شعبے میں کمزور رہی ہیں۔ فاروق مینگل کی تازہ اور اب تک واحد فلم "ہجرت” اس کی بدترین مثال ہے۔ "ماہِ میر” میں بھی یہ خامی نظر آئی۔ ڈبنگ کی خامی۔ اگرچہ بعض جگہ فولی ساؤنڈ حیران کُن حد تک اچھی تھی، مثال کے طور پر نوجوان شاعر احمد جمال یعنی فہد کے گھر کی ٹپکتی چھت سے قطرے گرنے کی آواز۔ اور سگریٹ کے کاغذ سلگنے کی آواز۔

لائٹ:

فلم کی لائٹ عمدہ تھی، مگر میک اپ کو واضح دکھا رہی تھی۔ اس کا مطلب ہوا کہ یا تو میک اپ کے میدان میں‌ زیادہ جان ماری جاتی اور اسے عمدگی سے کیا جاتا، یا پھر اس کمی کو لائٹ کی مدد سے دُور کیا جاتا۔
بعض جگہ کٹرز اور کُوکیز کا استعمال البتہ بہت اچھا تھا۔ بالخصوص، کھڑکی سے اور گلی میں چاند کی چھن چھن کر آتی ہوئی روشنی۔۔۔
کلر سمبلزم بھی بعض جگہ اپنے جوبن پر نظر آیا۔

آخری سوال:

سرمد صہبائی نے اس شاعری اور شاعر بیزار معاشرے میں ایک شاعر پر فلم بنائی ہے یہ عمل بلاشبہ فنکارانہ بہادری ہے۔ اور سرمد صہبائی کو اس فنکارانہ بہادری کا صلہ ضرور ملے گا۔
کیا یہ مین اسٹریم سینما کی فلم تھی؟ اگر نہیں تو کیا یہ فلم فلاپ ہو جائے گی؟
جی ہاں، اسے مین اسٹریم سینما کے لیے ہی بنایا گیا تھا۔ اس کا پروڈکشن ڈیزائین اور ساؤنڈ ڈیزائین، دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔ مگر، افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اسے مین اسٹریم سینما کا فلم بین دیکھنے نہیں آئے گا۔ اسے پیرالل تھیٹر کا ناظر ہی دیکھنے آئے گا جس کا پاکستانی معاشرے میں وُجود ہی نہیں۔ لہٰذا، سہولت سے کہا جا سکتا ہے کہ جی ہاں، یہ فلم فلاپ ہو جائے گی۔ حالانکہ اسے فلاپ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اوسط درجے کے ادبی و تنقیدی مباحث کا نقطہِ آغاز بھی بن سکتی ہے۔ مثلا” شاعری کیا ہے؟ وحشت کا تخلیق بالخصوص شاعری کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ مابعد جدید شاعر کو گھیر گھار کر کلاسک کی طرف لانا اُس کی تخلیقی صلاحیت کو جلا بخشے گا یا تباہ کر دے گا؟ کیا مونا لیزا کی مسکراہٹ کو واقعی ڈی کنسٹرکٹ نہیں کیا جا سکتا؟ کیا ڈی کنسٹرکشن کو "ماہِ میر” میں درست طور پر پیش کیا گیا ہے؟

حرفِ آخر:

"ماہِ میر” اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ایک بہترین فلم ہے۔

سرمد صہبائی نے مین اسٹریم سینما میں پیرالل ایڈیٹنگ، فلیش بیک/موجود واقعات کی فلپ فلاپ فریکوئینسی ایڈیٹنگ، اور عوام کے لیے عسیرالفہم اشعار و اصطلاحات مین اسٹریم سینما کی فلم کے لیےاستعمال کر کے ایک خطرہ مول لیا ہے۔ سرمد صہبائی نے اس شاعری اور شاعر بیزار معاشرے میں ایک شاعر پر فلم بنائی ہے یہ عمل بلاشبہ فنکارانہ بہادری ہے۔ اور سرمد صہبائی کو اس فنکارانہ بہادری کا صلہ ضرور ملے گا۔

فلم ہٹ ہو یا فلاپ، سرمد صہبائی اور ٹیم کو "ماہِ میر”‌ کے حوالے سے تا دیر اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔

چلتے چلتے پاکستانیوں سے ایک چھوٹا سا سوال؛ یارو! منٹو پر فلم بناتے ہو، مِیر پر بناتے ہو؛ ہمارے قومی شاعر حضرتِ اقبال پر کیوں نہیں بناتے؟

3 Responses

  1. Humaira

    سب سے پہلے تو اتنا تفصیلی فلم ریویو لکھنے اور اتنی ساری تکنیکی معلومات دینے کا شکریہ۔ یہ ایسا فلم ریویو ہے جس میں فلم کی کہانی اور پلاٹ سے زیادہ اس کے تکنیکی زاویوں کا ماہرانہ جائزہ دیا گیا ہے، شاید اس سے بہتر اور بےلاگ جائزہ اور کوئی پیش نہ کرسکے تاہم فلم کی ناکامی کی پیشن گوئی کچھ اچھی نہیں لگی،
    رہ گئی بات شاعر مشرق پر فلم بنانے کی تو یہ حقیقتا انتہائی مشکل بلکہ بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے جیسا کام ہے۔ ہمارا اکثریتی طبقہ اقبال کو انسان سے زیادہ علامہ کے روپ میں دیکھنے کا عادی ہے جو ظاہر ہے ان کی شخصیت کا ایک پہلو ہے، اگر محض اسی عظمت کو لے کر فلم بنادی جائے تو وہ ایک ڈاکیومینٹری ہی ہوگی، لیکن اگر ان کی ذاتی زندگی، نفسیاتی الجھنیں، ازدواجی عدم مسرت، جذباتی تشنگی، گھریلو ریشہ دوانیاں اور عام انسانی فیصلوں جو ہمیشہ ہی درست نہیں ہوتے، یا ان کے لرکپن، اس بازار میں آمد و رفت جیسے واقعات کو شامل رکھتے ہوئے فلم بنائی جائے گی تو سنسر اور پابندیوں نیز کچھ طبقات کی جانب سے کڑی تنقید ومخالفت پر مبنی مظاہروں کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ اقبال ہمارے ہاں اب چوم کے بلند مسند پر سجا دینے والے کسی احترام کے علامتی مظہر جیسے ہی بن گئے ہیں۔

    جواب دیں
  2. Khadija Mahmood

    Mujhe to ab tak ye samjh nahi aa raha ke aakher Ahmed Hammad ne Kia likhne ki koshesh ki hai.. Hum ka seegha ya to jama yaani plural ke toar per kiya jaata hai ya pher Raja, Maharaja ya nawabeen apne liye Hum ka seegha istemaal farmaatey hain, ab mai ye samjhne se qaasir hoon ke Ahmed Hammad kis saf mai shaamil hain, jama ke ya nawabeen ke.. Ya teesri aur aakhri haddh ye ho sakti hai ke huzoor aap khud ko kul kaainat samjhtey huay sab kuch apnay ander zam ker ke apne aap ko Hum farma rhay hain. Kher ye aap ka apna demaghi masla hai aur zaati baatain social media per nahi kerni chahyen, wese aapas ki baat hai aap ke is article ko parh ker MAH E MIR ka ek dialogue zehan mai aata hai Jo ke is poori tehreer ka nachoord bhi kaha jaa sakta hai..
    "RASHK O RAQABAT KI BHI KOI HADH HOTI HAI”
    Ek taraf mosoof ka ye daawa ke Sarmad Sehbai sb nijji mehfilon mai shayer e mashriq ko gaaliyan dete hain.. To sarkaar Mera aap se sawaal hai ke aap aisee mehfilon mai shirkat farmaatay hi kuyn hain 😮
    Sarmad nahi Khuda parast.. Jaao wo bey-wafa sahi…
    Tum ko hai deen o dil azeez !!! Us ki GALI mai jaao kuyn???
    Yaani aap khud bhi un hi mahaafil ka hissa hotay hain Jahan is qisam ki guftgu hoti hai 😮
    Wese aapas ki baat hai shayer e mashriq Allama Iqbal ki ek baat mujhe hamesha confuse kerti hai.. Ke raat ko khwaab wo Pakistan ka dekhtey aur subha uth ker ye nazm likhte,
    "Saaray jahaan se acha Hindustan hamara..”
    Kher baat niklay gi to pher door talak jaaye gi.. Baat kerte hain aap ka zareen khayalat ki Jin ki aap ne akkasi ki hai Mah e Mir se mutaaliq.. Itni confusion ka shekar Maine kisi blogger ya columnist ko pehli baar dekha hai Jo ek taraf logon ko daawat e aam de raha hai ke Mah e Mir zaroor dekhain aur doosri jaanib tootay waali faal bhi nekaal rha hai ke film flop ho GI.. Ye baat kuch hazam nahi ho rahi hazrat 😀
    Jahan Jahan Sarmad Sehbai sb ka zikar ker rhay hain to wo un ki zaati khaamiyan Jin ko aap ki deeda e beena ke saamne nazar aanay ka ezaaz haasil hua hai wo aap intehaayee zaati toar per ker rhay hain lagta hai qalam mai roshnai ke saath kuch qatray tezaab ke bhi shaamil kiye gaye hain kuyn ke alfaz ki jalan parhne waalay ko likhne waaley ki kefiyat se khoob aagaah ker rahi hai, lekin mazedaar baat ye hai ke Neeli ke so rang, pal bhar ka bahisht aur Mah e Uryaan se bey ras aur bezaar honay ke baawajood aap Sarmad Sehbai ke makaalmon aur andaaz e bayaan ki daad diye bagher reh bhi nahi paa rahey.. Lagta hai Mah e Mir dekh ker waaqai aap per bhi wohi Wehshat aur junoon asar andaaz ho gaya ke jis ke liye Ghalib ne kaha hai ke..
    Bak rha hoon junoon mai Jo Jo kuch..
    Kuch na samjhe Khuda kare koi..
    Manzar Sehbai bhi aap ki nazar mai intehaayee flop adaakar hain.. Wo adaakar jis ne bol jesi film ker daali aur aaj tak logon ko Bol film ke Hakeem sahb yaad hain… Pher baqol aap ke ek teeserey darjay ki film Zinda Bhag mai bhi kaam kiya, janaab pher to aap ko Naseeruddin Shah per bhi yehi baat kehni chahye ke wo bhi teesray darjay ke adaakar hain.. Kuyn ke lead role to Zinda Bhag mai Shah sb ka tha, manzar Sehbai to bohot thori der ke liye us film mai nazr aaye.. Agar wo itney hi unimpressive actor hain to un ki ye line, ” Hum ye nahi kehtay ke ghalib kehta tha ya meer kehta tha.. Hum to ye kehte hain ke meer kehta hai” aaj itni zbaan zad e aam na hoti.. Iman Ali ke raqs na kerne per aap ke dil ki haalat mai samjh Sakti hoon.. Kaafi dukh pohncha aap ko.. Mazedaar baat ye hai ke aap ko Jamal ki shaayeri ki kitaab ek theses nazr aa gayi.. Lekin aap ko nazar na aa saka to husn ka wo pekar jis ke ek ek moo-e-badan per Mir hazaroon deewan likh sakta tha.. Wo muhabbat Jo purani to ho gayi lekin boseeda na ho Saki.. Wo ishq Jo haasil na ho saka lekin aakhri saans tak bhulaaya bhi na jaa saka…
    Kher qasoor aap ka bhi nahi.. Mercury lights ke doar mai aap ab tak ehd e laaltain mai ji rhay hain to zaahir hai mushkil to ho gi hi.. Ek mukhlisaana mashwara hai ke apni laaltain ki batti ko Zara ooncha kijye aur laaltain mai tail ki zarurat mehsoos ho rahi hai..
    Abhi aap ke baaray mai parha ke aap GCU Lahore mai Dars o tadrees ke faraaiz sar-anjaam detey hain.. Allah Reham karay qoam ke mustaqbil per ke Jin ke ustaad ko khud bhi ye confusion hai ke ek taraf wo Mah e Mir dekhne ka zor bhi de raha hai aur doosri jaanib us ke flop honay ki peshan goi bhi ker raha hai.. Aur dil ki bharaas Sarmad Sehbai per zaati tanqeed ker ke nekaal raha hai.. Aap ki to wo misaal ho gayi ke koi teacher apne students ko kuch sawaal ye keh ker yaad kerwaata jaaye ke ye nehayat eham hain.. Aur aakhir mai jaatay jaatay ye keh ker class se nikal jaaye ke students ye sawal exam mai nahi aaye ga 😀
    Aakhir mai pher yehi kahun gi ke..
    RASHK O RAQABAT KI BHI KOI HADH HOTI HAI

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: