
(مسولینی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اٹلی کے فسطائی دور میں ۱۹۲۲ سے ۱۹۴۵تک مسولینی اٹلی کا مطلق العنان رہنما رہا۔ دئیے گئے اقتباسات اس کے مقالے “فسطائیت کا نظریہ” سے لئے گئے ہیں جو کہ اطالوی انسائیکلوپیڈیا کے لئے ۱۹۳۲میں لکھا گیا تھا۔ فسطائیت جنگ عظیم اول اور دوم کے درمیان یورپ پر مسلط رہنے والا ایسا سیاسی نظریہ ہے جس کی پرورش نفرت اور پروپیگنڈے سے ہوئی اور جس نے آخر کار پوری دنیا کو جنگ عظیم دوم میں دھکیل دیا۔ امید ہے کہ پاکستان میں مذہبی، نسلی و قومی سیاست کے تناظر میں فسطائیت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر یہ مضمون فکری صراحت میں مددگار ثابت ہو گا۔)
ریاست کا کوئی ایسا تصورموجود نہیں جو اپنی بنیاد میں نظریہ حیات نہ ہو۔ ریاست سے متعلق ہر تصور کم از کم مجازی معنوں میں دنیا کے بارے میں فطری تصور بھی ہوتا ہے؛ خواہ اس کا ارتقاءوجدانی ہو یا منطقی، اور اس کی تشکیل استدلال سے ہوئی ہو یا تصورات اورعقیدہ کی صورت میں کی گئی ہو۔
یوں ہم فسطائیت کو تب تک ایک سیاسی پارٹی، ایک نظام تعلیم اور ایک ضابطے کے طور پر نہیں سمجھ سکتے، جب تک اس کو زندگی کے روحانی ادراک کی روشنی میں نہ دیکھا جائے۔ دنیا کو فسطائیت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ مادی دنیا کا ایک سطحی نظارہ پیش نہیں کرتی جہاں انسان باقی سب سے الگ تھلگ ایک فرد ہوتا ہے جو صرف اپنے ساتھ کھڑا ہے، اور جہاں وہ چند قوانین فطرت کے تابع جبلی طور پر وقتی مسرت کی خود غرضانہ تلاش میں رہتا ہے۔ فسطائی مرد اپنی ذات میں ایک قوم اور ایک وطن ہوتا ہے، وہ آپ اپنا ضابطۂ اخلاق ہے، جو کہ دیگر افراد اور نسلوں کو، کچھ روایات اور منازل کے تعین سے باہم مربوط رکھتا ہے؛ جو اپنی جبلت کے تابع مسرتوں کے محدود حلقے کو زندگی بھر کے لئے دباتا ہے تاکہ فرد کی عارضی زندگی کی معمولی حدوں سے کہیں بڑا فریضہ سر انجام دے، جو کہ زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہو۔ یہ ایک ایسی زندگی ہے، جس میں فرد اپنی ذات کی نفی کرکے اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دے کر، حتی کہ زندگی کی قیمت پر بطور انسان اپنی مکمل روحانی حیثیت کا ادراک حاصل کرتا ہے۔
اس لئے یہ ایک روحانی تصور ہے جو کہ بذات خود انیسویں صدی کی بڑھتی ہوئی اثباتی مادہ پرستی کے خلاف نئے زمانے کا ردعمل ہے۔ یہ “اثباتیت” کا رد ہے لیکن مثبت ہے، یہ متذبذب ہے نہ متشکک، اس میں قنوطیت ہے نہ غیر فعال رجائیت ہے۔ مختصرا یہ ایسے تمام منفی نظریات کا مجموعہ ہے جن کے مطابق زندگی کا محور فرد کی ذات سے باہر ہے۔ اور فرد کو اپنے آزاد ارادہ سے اپنی دنیا آپ تخلیق کرنا ہو گی۔
فسطائیت ایک ایسے فرد کی متقاضی ہے جو فعال ہو، ایسا شخص جو اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ عمل پیرا ہو، جو عمل کی کٹھنائیوں سے خبردار اور ان کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو۔ یہ زندگی کو ایک جہد مسلسل کے طور پر دیکھتی ہےاور فرد کو اپنے شایان شان زندگی کے حصول کے لئے ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ فرد پر لازم ہے کہ ایسی زندگی کے حصول کے لیے سب سے پہلے اپنے اندر مادی، اخلاقی اور علمی صلاحیت پیدا کرے۔ فرد کے ساتھ یہی بات اقوام اور کل انسانیت پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر ثقافت کی جملہ شکلوں یعنی مذہب، فن اور سائنس کی اعلی اقدار اور تعلیم کی اہمیت کا تعین ہوتا ہے۔ اسی طرح جہد کی بنیادی اہمیت طے پاتی ہے جس سے انسان فطرت کی تسخیر اور انسانی دنیا )اور اس کے اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اورعلمی پہلووں( کی تخلیق کرتا ہے۔
زندگی کا یہ مثبت ادراک اپنی اصل میں قطعی طور پر ایک اخلاقی نقطہ نظر ہے۔ یہ حقیقت کا کلی احاطہ کرتا ہے نہ کہ صرف اس پر حاوی انسانی سرگرمی کا۔ کوئی عمل بھی اخلاقی محاسبے سے مستثنی نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کو اس سے متعلقہ اخلاقی مقاصد سے جدا کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فسطائی کے نزدیک زندگی سنجیدہ، سخت کوش اورمذہبی ہے۔ یہ سب کچھ ایسی دنیا میں ہی تشکیل پا سکتا ہے جو انسانی جذبے سے جڑی اخلاقی اور ذمہ دارانہ قوتوں پر استوار ہو۔ فسطائی”پر سکون” زندگی سے نفرت کرتا ہے۔
فسطائیت ایک مذہبی انداز فکر کا نام ہے جس میں انسان کو ایک برتر قانون اور رضائے ایزدی کے ساتھ اس کے سرگرم تعلق کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ایسا تعلق فرد کو اس کی حیثیت سے ماورا کر کے اسے ایک روحانی معاشرے کا رکن بنا دیتا ہے۔ جس کسی نے فسطائیت کی مذہبی سیاست میں متوقع موقع پرستی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا، وہ یہ نہیں سمجھ پایا کہ فسطائیت ایک نظام حکومت ہونے کے ساتھ ایک طرز فکر بھی ہے۔
فسطائیت ایک تاریخی نقطہ نظر ہے جس میں ہرفرد کی حیثیت کا تعین معاشرے میں موجود کسی روحانی عمل میں اس فرد کی شمولیت سے کیا جاتا ہے۔ یہ عمل خاندان، معاشرتی گروہ، قوم اوربین الاقوامی اشتراک سے بننے والے تاریخی عمل کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہیں سے تاریخ ،زبان و بیان، رسوم اور معاشرتی زندگی کے معیارات میں عظیم روایات واقدارکی بنیاد پڑتی ہے۔ تاریخ سے باہر انسان کا کوئی وجود نہیں۔ نتیجتا فسطائیت اٹھارہویں صدی کے مادی نظریات جیسی مادہ پرستانہ انفرادی تجریدیت کے خلاف ہے۔ یہ سیاسی جغادریوں کے مثالی نظریات اور اختراعات کے خلاف ہے۔ یہ اس امر کی قائل نہیں کہ خوشی اور مسرت اس دنیا میں ملنی ممکن ہے جیسا کہ اٹھارہویں صدی کے اقتصادی ادب میں ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ ان مقصدی نظریات کی مخالف ہے جن کے مطابق ایک مخصوص عرصہ تاریخ میں انسان کے حالات سدھرسکتے ہیں۔ ایسے نظریات کا واضح تاثر یہ ہے کہ خود کو تاریخ اور زندگی سے نکال دیا جائے جوکہ مسلسل تغیرات کا مجموعہ ہیں۔
سیاسی طور پر فسطائیت حقیقت پسندی کی قائل ہے۔ یہ فقط ان مسائل کے حل پر اکساتی ہے جو کہ تاریخی طور پر از خود سر اٹھاتے ہیں اور خود اپنے حل تجویز کرتے ہیں۔ فطرت کی طرح انسانوں میں رہنے کے لئے بھی حقیقت کے دھارے میں شامل ہونا اور پہلے سے عامل قوتوں پر ملکہ حاصل کرنا ضروری ہے۔
انفرادیت کے برخلاف فسطائیت کی طرفداری ریاست کے لیے ہے۔ یہ فرد کے لئے اسی حد تک ہے جہاں تک وہ ریاست کے تابع رہے؛ ریاست جو کہ فرد کے ضمیر اور انسان کے تاریخی وجود کے آفاقی عزم کا نام ہے۔ یہ کلاسیکی آزادی کے تصور کے خلاف ہے جو مطلق العنانیت کے خلاف ردعمل کی ضرورت کے تحت اختیار کیا گیا تھا اور جس کا مقصد ریاست کے عوام کی خواہش اور سوجھ کے مطابق ڈھلنے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ آزاد خیالی (liberalism) نے فرد کے مفادات کے لئے ریاست کو پابند کر دیا لیکن فسطائیت نے ریاست کو فرد کی سچی حقیقت کے طور پر دوبارہ زندگی دی ہے۔ اگرآزادی ایک حقیقی مرد کا وصف ہے نہ کہ انفرادی آزادی کے تصور کے تحت وجود میں آنے والے تجریدی پُتلے کا، تو فسطائیت آزادی کے حق میں ہے۔ ایسی آزادی جو حقیقی وجود رکھتی ہے یعنی ریاست کی آزادی اور ریاست کے دائرے کے اندررہتے ہوئے فرد کی آزادی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فسطائی کے نزدیک ریاست ہی سب کچھ ہے اور اس کے بیرون کسی انسان یا روحانی اقدار کی اہمیت تو دور، وہ وجود ہی نہیں رکھتیں۔ اس لحاظ سے فسطائیت مطلق العنان ہے اور فسطائی ریاست تمام اقدار کی ہم آہنگی اور اتحاد کا نام ہے جو اپنے لوگوں کی زندگی کے تمام پہلووں کی ترجمانی کرتی ہے، اسے ترقی دیتی ہے اور اسے قوت عطا کرتی ہے۔
ریاست سے باہر کوئی فرد ہو سکتا ہے نہ ہی کوئی گروہ، )خواہ سیاسی جماعتیں ہوں، ادارے، گروہ یا طبقات(۔ اس لئے فسطائیت اشتراکیت کے خلاف ہے جو کہ تاریخی ارتقا کو طبقاتی کشمکش تک محدود کر لیتی ہے اور ریاست کی شکل میں تمام طبقات کے اخلاقی اور اقتصادی اتحاد کی حقیقت کو نظر انداز کردیتی ہے۔
یہ درست ہے کہ افراد مشترکہ مفادات اور ان مفادات کی بنیاد پرمتغیر معاشی سرگرمیوں کے مطابق طبقات اور گروہوں کا انتخاب کرتے ہیں مگر وہ سب سے پہلے ریاست تشکیل دیتے ہیں جسے محض افراد کے عددی کل کے برابر ہرگز نہ سمجھا جائے۔ نتیجتا فسطائیت جمہوریت کی متضاد ہے۔ جمہوریت قوم کو محض اس کی اکثریت کے برابر کر دیتی ہے۔ لیکن اگرقوم کو مقدار کی بجائے معیار پر پرکھا جائے اور ایسا ہونا بھی چاہئے تو ہی جمہوریت کی خالص ترین شکل ابھرتی ہے۔ ایسے میں قوم کو ایک عظیم ترین خیال کی صورت تصور کیا جائے )یعنی اخلاقی، حقیقی اور منطقی معنوں میں عظیم ترین(۔ ایسا خیال جو چاہے ایک ذہن یا چند اذہان کی عقلِ سلیم اور خواہشات کی پیداوار ہو مگرپوری قوم کے ضمیر کی آواز بن سکے، اور جو تاریخی، نسلی اور فطری وجوہ کی بنا پر تشکیل پانے والی قوم کے ہر فرد کا ترجمان ہو۔ ایسے افراد جوایک جیسی روحانی تشکیل کے ساتھ ترقی کی ایک ہی منزل کی طرف جارہے ہوں۔ ایک ایسی قوم جو محض نسل یا علاقہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاشرتی صورت میں خود کوتاریخی طور پر بقا اور طاقت کے عزم کے تصور کے تحت آگے بڑھتا دیکھتی ہو؛ خود شناسی اور شخصیت کے عرفان کی صورت میں۔۔۔
یہ برتر اور اجتماعی شخصیت درحقیقت اسی حد تک قوم کہلائے گی جس حد تک یہ بطور ریاست قائم رہے گی۔ یہ وہ قوم نہیں جس سے ریاست جنم لیتی ہے جیسا کہ انیسویں صدی میں قومی ریاستوں کی تشکیل کے لیے قدیم فطرت پرستانہ تصورات کی بنیاد پر بنائے گئے سیاسی نظریات میں کہا جاتا رہا۔ بلکہ ریاست ہی قوم کی تشکیل کرتی ہے۔ ریاست عوام کو اپنے اخلاقی استحکام کا شعور، عزم اور نتیجتا ایک موثر شعور بخشتی ہے۔ ایک قوم کا حقِ آزادی کسی کتابی یا مثالی فہم و دانش سے ماخوذ نہیں اور نہ ہی کسی قسم کے غیر شعوری اور جامد حقائق کے مرہون منت ہے، بلکہ ایک فعال شعور کی پیداوار ہے۔ یہ ایک فعال سیاسی ارادے کی پیداوار ہے جو اپنے آپ کو منوا سکے۔ دوسرے لفظوں میں ایک وجود پذیر ریاست ہی اس حق کا ماخذ ہے۔ ریاست ہی دراصل ایک عالم گیر اخلاقی ارادے کی حیثیت سے حقوق کی خالق ہے۔
قوم، بطورِ ریاست ایک ایسی اخلاقی حقیقت ہے جو ارتقاء کے نتیجے میں ہی موجود اور زندہ رہتی ہے۔ اس کے ارتقاء کو روکنا اس کے قتل کے مترادف ہے۔ لہذا ریاست ہی وہ واحد مقتدر ادارہ ہے جو فرد کی خواہشات کو قانون اور روحانی اقدار کی شکل میں متعین کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی طاقت بھی ہے جو دوسرےممالک پر اپنے ارادے کا اظہار کر کے اپنے ہونے کا احساس دلاتی اور احترام پاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ترقی کی ہر مطلوبہ سمت میں یہ اپنی اقدار کی آفاقیت کا اظہار کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست، کم از کم مجازی معنوں میں، ایک تنظیم اوراستعمارکا نام ہے۔ اس طرح اسے انسانی قوتِ ارادی سے مربوط کیا جاسکتا ہے جو ترقی کی خواہش میں لا محدود ہے اور اپنی لامحدودیت کو پرکھنے کی کوشش میں ہی اپنا ادراک کرسکتی ہے۔
فسطائی ریاست شخصیت کی ایک برتر اور طاقتور ترین شکل ہونے کےناطے دراصل ایک ایسی روحانی قوت ہے جو انسانی زندگی کے تمام اخلاقی اورعقلی پہلووں پر غالب ہے۔ اسی لئے ریاست کو آزاد خیالوں (liberals) کی خواہش کے مطابق صرف امن قائم کرنے اور سرپرستی کرنے کی حد تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فقط فرد کی مفروضہ آزادیوں کے دائرے کو محدود کرنے والا بندوبست نہیں ہے۔ یہ ایک وجود ہے، یہ فرد کے اندرونی معیارات اور نظم وضبط کا ضامن نظام ہے، اور یہ قوت ارادی اور ذہانت کی تشفی بھی کرتا ہے۔ یہ اصول، شہری زندگی میں بسنے والی انسانی شخصیت کے لیے بنیادی تحریک ہے۔ یہ یکساں طور پر ایک کارکن اور دانشور، فنکار اور سائنس دان کے دل میں گھر کرنے والا خیال ہے۔ یہ روح رواں اصول ہے۔
مختصر الفاظ میں فسطائیت صرف قانون فراہم کرنے اور اداروں کی بنیاد ڈالنے والا تصورہی نہیں بلکہ معلم اور روحانی زندگی کا سرپرست نظریہ ہے۔ فسطائیت انسانی زندگی کی مختلف اشکال کی ہی نہیں بلکہ اس کے مندرجات؛ انسان، کردار اور ایمان کی تشکیلِ نو کرتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ایسے نظم وضبط اور اقتتدار کی ضرورت ہے جو انسان کی روح میں داخل ہو کر وہاں بغیر کسی مزاحمت کے اس پرحکومت کرے۔ اسی لئے اس کا نشان “لیکٹر”٭ کی چھڑی ہے جو اتحاد، استحکام اور انصاف کی علامت ہے۔
—–
٭لیکٹر سلطنتِ روم میں ایک ایسا سرکاری اہل کار ہوتا تھا جس کا کام مجسٹریٹ کی حفاظت اور اس کے احکام بجا لانا ہوتا تھا۔
(مترجم: ذکی نقوی)