مدیرِ محترم
پاکستانی نظام تعلیم اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے لئے کس قدر تنگ نظر اور ناقابل برداشت ہے ،اس کا اندازہ رواں برس پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے بی –اے سالانہ امتحانات میں لیا جانے والا اخلاقیات کا پرچہ دیکھ کر بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ میں لالٹین کے توسط سے اربابِ اختیار کی توجہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کی طرف سے سالانہ امتحان 2014 کے دوران ،11اپریل کو لئے جانے والے اخلاقیات کے پرچہ کے سوالات کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ پرچے میں پوچھے گئے سوالات میں سے بعض سوالات ایسے تھے جن کا غیر مسلم طلبہ سے پوچھا جانا سراسر ناانصافی ہے۔ پرچے میں ایک سوال کا تعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سے ہے جب کہ ایک دوسرے سوال میں اقلیتوں سے متعلق اسلامی تعلیمات سے متعلق پوچھا گیا ہے۔ پرچہ ترتیب دیتے ہوئے یقیناً اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ غیر مسلم طلبہ کو اسلامی عقائد سے متعلق پوچھے گئے سوالات پر کیا تحفظات ہو سکتے ہیں۔ اخلاقیات کے پرچہ میں متنازعہ سوالات کی موجودگی اقلیتی حقوق کی اس ضمانت کی نفی ہے جو اسلام اور آئین پاکستان تمام اقلیتوں کو فراہم کرتا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کا 2014 میں لیا گیا اخلاقیات کا پرچہ
اخلاقیات کے پرچہ میں متنازعہ سوالات کی موجودگی اقلیتی حقوق کی اس ضمانت کی نفی ہے جو اسلام اور آئین پاکستان تمام اقلیتوں کو فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے لئے اسلامیات کے لازمی مضمون کی جگہ اخلاقیات کا مضمون موجود ہے، لیکن امتحانات میں ایسے سوالات جن کا تعلق اسلامی عقائد سے ہے نہ صرف نامناسب ہے بلکہ اشتعال کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ اخلاقیات کے مضمون کا مقصد چوں کہ غیر مسلم طلبہ کی شناخت اور مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہوئے انہیں ان کے اپنے مذاہب کی اخلاقی تعلیمات سے آگاہ کرنا ہے اس لئےاس پرچے میں اسلامی عقائد سے متعلق سوالات پوچھاجانا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔اخلاقیات کے مضمون میں صرف کسی ایک مذہب سے متعلق سوال پوچھا جانا مناسب نہیں چاہے اس مذہب کے ماننے والے اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں۔ جیسے 2014کے پرچے میں ہندو مت کے اخلاقی تصورات سے متعلق سوال پوچھتے ہوئے ہندو مت کے علاوہ دیگر مذاہب کے طلبہ کے احساسات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو ان سوالات کے جواب دینے کے دوران غیر مسلم طلبہ کی جانب سے کسی بھی غیر ارادی غلطی یا کوتاہی پر مسلمانوں کی ممکنہ دل آزاری بھی ہے۔ غیر مسلم طلبہ چوں کہ اسلام سے واقف نہیں ہوتے اس لئے جواب دیتے ہوئے غلطی کا امکان موجود ہے۔
لازمی کتب جیسے مطالعہ پاکستان اور میٹرک کی سطح تک اردو اور انگریزی سمیت اختیاری کتب میں بھی اسلامی عقائد سے متعلق مواد بے حد زیادہ ہے ۔ اسلام اور مسلم عقائد و شخصیات سے عقیدت اور ان کا احترام اپنی جگہ لیکن نصاب اور امتحانات کا نظام تمام پاکستانی شہریوں کے لئے یکساں طور پر قابل قبول اور مذہبی، مسلکی اور صوبائی تعصبات سے پاک ہونا چاہئے۔
اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو ان سوالات کے جواب دینے کے دوران غیر مسلم طلبہ کی جانب سے کسی بھی غیر ارادی غلطی یا کوتاہی پر مسلمانوں کی ممکنہ دل آزاری بھی ہے۔ غیر مسلم طلبہ چوں کہ اسلام سے واقف نہیں ہوتے اس لئے جواب دیتے ہوئے غلطی کا امکان موجود ہے۔
لازمی کتب جیسے مطالعہ پاکستان اور میٹرک کی سطح تک اردو اور انگریزی سمیت اختیاری کتب میں بھی اسلامی عقائد سے متعلق مواد بے حد زیادہ ہے ۔ اسلام اور مسلم عقائد و شخصیات سے عقیدت اور ان کا احترام اپنی جگہ لیکن نصاب اور امتحانات کا نظام تمام پاکستانی شہریوں کے لئے یکساں طور پر قابل قبول اور مذہبی، مسلکی اور صوبائی تعصبات سے پاک ہونا چاہئے۔
اسلام اور مسلم عقائد و شخصیات سے عقیدت اور ان کا احترام اپنی جگہ لیکن نصاب اور امتحانات کا نظام تمام پاکستانی شہریوں کے لئے یکساں طور پر قابل قبول اور مذہبی، مسلکی اور صوبائی تعصبات سے پاک ہونا چاہئے۔
مسلم عقائداور شخصیات کا تذکرہ بلا شبہ نیک نیتی اور مختلف عقائڈ کے حامل افراد کے درمیان ہم آہنگی کے لئے کیا جاتا ہے لیکن ایسی صورت میں نصاب تعلیم میں پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں اور مختلف مسالک کی نمائندگی نہ ہونا سراسر بد نیتی اور ناانصافی ہے۔ میں لالٹین کے توسط سے پاکستانی نظام تعلیم میں موجود مذہبی اسباق پر نظرِثانی کی تجویز بھی حکام تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں مذہبی شخصیات اور مذہبی عقائد کا تذکرہ کسی بھی تنازعہ یا اشتعال انگیزی کا باعث بن سکتا ہے اور کسی ایک مذہبی فکر کے پروان چڑھانے یا اسے نظام تعلیم کا حصہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ریاستی سطے پر Diversity اور تکثیریت کی نفی کرتا ہے جو کسی بھی طرح سے نہ اسلام کا پیغام ہے اور نہ مقدس ہستیوں کا۔
امید ہے حکام اس سلسلے میں اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
امید ہے حکام اس سلسلے میں اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
Arun Arther u have raised serious points of deep concern… can u provide me with a copy of this paper??? Can contact me at qaslaw@gmail.com
عجب تر اعتراض ہے جس کی منطق سمجھ میں آۓ نہیں آتی۔ پرچے میں تین سوال کرنا لازمی ہے اور چھ میں سے چار سوال ” غیر اسلامی ” ہیں۔ پھر مسئلہ کہاں رہ جاتا ہے ؟
ہاں شاید مسئلہ اس ذہنیت کا ہے جو یہ سوچنا بھی جرم جانتی ہے کہ اسلام کے اخلاقی پہلو کے متعلق سوچا جاۓ۔ میں ایک غیر مسلم طالب علم کی جذبات سمجھتے ہوۓ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ کیا یہ بہتر تر نہیں کہ اسے اس قوم کے اخلاقی اصولوں کا بھی علم ہو جو اس کے گرد اکثریت میں پائی جاتی ہے تاکہ اگر اس کے ساتھ کوئی مسلم غیر اخلاقی رویہ اپناۓ تو وہ اس مسلم کو خود اس کی مذہبی تعلیمات سے یہ بتا دے کہ وہ درست نہیں کر رہا۔ ایک اور پہلو اس مسئلے کا یہ بھی ہے کہ اسلام کا فکری نظام بطور یک بابِ دانشِ انسانی سب کے پڑھنے کی چیز ہے۔ اور اسے پڑھنے یا اس پر مبنی سوال جواب دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ( اور وہ سوال لازمی بھی نہیں کیونکہ دیگر تمام سوالات چوائس سمیت موجود ہیں ) ۔
ethics me different religions k ethical views ka chapter hota hai..k konsa religion ethics k barey me kia kehta hai.all questions are correctly asked……article likhne wale ne kahan ki bat kahan maar di hai……im surprised that we got too much fools in our nation
Merey bhai koi non-muslim agar Hazoor ki sayings likhney main ghalti kar gaya tou woh tou bechara bey mout mara gaya na,,,,