ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے ملک بھر میں قائم غیر قانونی یونیورسٹیوں کے خلاف ایف آئی کے ذریعہ کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایچ ای سی ذرائع کے مطابق اس کاروائی کے دوران منظور شدہ یونیورسٹیوں کے غیر قانونی کیمپسز اور غیر منظور شدہ یونیورسٹیوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق منظور شدہ یونیورسٹیوں کے زیادہ تر غیر قانونی کیمپس کراچی، لاہور، گجرات،جھنگ، گجرانوالہ، ملتان، راولپنڈی،پشاور، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان میں قائم ہیں جبکہ زیادہ تر غیر قانونی یونیورسٹیاں سندھ اور کراچی میں موجود ہیں۔
ایچ ای سی سے منظور شدہ یونیورسٹیوں کے علاوہ اس وقت پاکستان میں 185 کے قریب غیر قانونی یونیورسٹیاں موجود ہیں جن کی ڈگریاں منظور شدہ نہ ہونے کے باعث طلبہ کے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔
ایچ ای سی سے منظور شدہ یونیورسٹیوں کے علاوہ اس وقت پاکستان میں 185 کے قریب غیر قانونی یونیورسٹیاں موجود ہیں جن کی ڈگریاں منظور شدہ نہ ہونے کے باعث طلبہ کے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ غیر قانونی طور پر قائم یونیورسٹیوں کے خلاف کاروائی کے پہلے مرحلے میں ان جامعات کی فہرست جاری کی جائے گی جس کے بعد ایف آئی اے کے ذریعہ کاروائی کرتے ہوئے انہیں بند کردیا جائے گا۔ تاہم ایچ ای سی نے ان یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلبہ کے حوالے سے کسی منصوبہ کا اعلان نہیں کیا۔
ماہرین تعلیم کے مطابق غیر قانونی یونیورسٹیوں کے خلاف کاروائی طلبہ کے داخلہ لینے سے پہلے کی جانی چاہئے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے جعلی اداروں کے خلاف کاروائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہے ۔ اس وقت پاکستان میں 160 کے قریب منظور شدہ سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جو پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ناکافی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں غیر قانونی طور پر قائم یونیورسٹیوں کے طالب ملک اور ملک سے باہر ملازمتیں اور اعلی تعلیمی پروگراموں کے داخلے سے محروم رہتے ہیں۔ طلبہ حلقوں نے ایچ ای سی اس اقدام کو سراہا ہے اور متاثرہ طلبہ کی بحالی کے پروگرام کا اعلان کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ماہرین تعلیم کے مطابق غیر قانونی یونیورسٹیوں کے خلاف کاروائی طلبہ کے داخلہ لینے سے پہلے کی جانی چاہئے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے جعلی اداروں کے خلاف کاروائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہے ۔ اس وقت پاکستان میں 160 کے قریب منظور شدہ سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جو پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ناکافی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں غیر قانونی طور پر قائم یونیورسٹیوں کے طالب ملک اور ملک سے باہر ملازمتیں اور اعلی تعلیمی پروگراموں کے داخلے سے محروم رہتے ہیں۔ طلبہ حلقوں نے ایچ ای سی اس اقدام کو سراہا ہے اور متاثرہ طلبہ کی بحالی کے پروگرام کا اعلان کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
Leave a Reply