جنوری کے پہلے ہفتے میں یورپ کے دل اور فرانس کے تاریخی شہر پیرس میں ایک ہفت روزہ اخبار کے دفتر میں دو دہشتگردوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار اور اخبار کے عملے سمیت سترہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے فوراََبعد فرانسیسی حکومت حرکت میں آئی ،کابینہ کا اجلاس طلب کیا اورحملے کو بربریت قرار دے کر اسکی بھر پور مذمت کی ۔ اس واقعے کے بعد سے عوام ،حکومت اور سول سوسائٹی سراپا احتجاج ہے ، گیارہ جنوری کو پورے ملک میں اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لئے ریلیوں کا انعقاد ہواجس میں فرانسیسی حکمرانوں سمیت دنیا بھر کے سربراہاں مملکت بھی شامل ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس ریلی میں بیس لاکھ سے زائدافراد شریک ہوئے۔ اگرچہ ان ریلیوں سے مرنے والے کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن ان احتجاجی مظاہروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لواحقین سمیت عوام کو احساس ہوا کہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
پشاور سانحے کے بعد اگرچہ ذرائع ابلاغ پرتبصروں اور تجزیوں میں اس واقعے کی مذمت تو کی گئی لیکن دہشت گردی کے خلاف جو جذبہ فرانس میں دیکھنے کو ملا وہ پشاور سانحے کے بعد ملک میں کہیں نظر نہیں آیا۔
11دسمبر2014ء کو خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارلحکومت پشاو رکے آرمی پبلک سکول پر طالبان دہشتگردوں نے حملہ کر کے ڈیڑھ سو کے قریب طلبہ اور اساتذہ کو شہید کر دیا۔ طالبان کے اس تباہ کن حملے نے ہلاکوخان کی ہلاکت خیزی اور غزنوی کی تباہ کاری کی یاد تازہ کر دی۔پاکستان میں بھی اس تباہ کن حادثے کے شہداءکے خاندانوں سے اظہارِ یک جہتی اور طالبان کے خلاف احتجاج ہوا لیکن احتجاج کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ پشاور سانحے کے بعد اگرچہ ذرائع ابلاغ پرتبصروں اور تجزیوں میں اس واقعے کی مذمت تو کی گئی لیکن دہشت گردی کے خلاف جو جذبہ فرانس میں دیکھنے کو ملا وہ پشاور سانحے کے بعد ملک میں کہیں نظر نہیں آیا۔ اس حملے کے بعد بھی اسلام آبادکی سرکاری مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے ایک نجی ٹی وی پر آکر اس حملے کی مذمت کے بجائے نپے تلے الفاظ میں اس کی حمایت کر دی ۔ سول سوسائٹی کے ارکان نےلال مسجد میں اے پی ایس کے شہدا کے لئے غائبانہ نماز جنازہ اداکرنے کی کوشش کی تو نہ صرف انہیں روکا گیا بلکہ خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ سول سوسائٹی کا احتجا ج کم ہوتے ہوتے آخر کار ختم ہوگیا اور یوں کسی اگلےناخوش گوار واقعے کی انتظار میں ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ حکومت کی جانب سے آل پارٹی کانفرنس کا ڈھونگ رچایا گیا جو طویل بحث مباحثے کے بعد بالآخر دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری پر اختتام پزیر ہوئی۔ حکمرانوں کی قابلیت کا معیار یہ ہے کہ برسوں کے اس ناسور کا علاج فوجی عدالتوں میں ڈھونڈا گیاہے۔ واقعے کے بعد زندگی پہلے ہی کی طرح رواں دواں ہے ،بیس روزہ تعطیلات کے بعد تعلیمی ادارے دوبارہ کھل چکے ہیں جبکہ وزیرستان اور خیبر( ون) آپریشن سے متعلق افسانوی داستانیں تراش کر عوام کے دل بہلانے کا بندوبست کیا گیا ہے۔
پیرس حملے کے بعد نہ توفرانسیسی حکومت، حزب اختلاف اور دانشور کسی تذبذ ب میں مبتلا نظر آئے اور نہ ہی انہوں نے دہشتگردی کے اس واقعے کے لیے یہ جواز پیش کیاکہ چونکہ اخبارنے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺکے نازیبا کارٹون شائع کرکے مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی لہذا حملہ جائز ہے۔ پاکستان میں طالبان اور دہشت گرد مذہبی تنظیموں کے ہمدردوں کے برعکس فرانس کے عوام اور حکومت نے یک زبان ہو کر اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا ،سب ایک ہی صفحے پر نظر آئے ،حملے کو فرانس کے خلاف اعلان جنگ قراردے کر دہشتگردوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران ،نام نہاد دانشور اور عوام 60 ہزار انسانوں کے قتل کے بعد بھی اس مغالطے کا شکار ہیں کہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ ہماری نہیں بلکہ ہم امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ نہ کسی کو کھل کرطالبان کی مذمت کی توفیق ہوئی اور نہ اس ناسور سے نمٹنے کے لئے کوئی واضح حکومتی حکمت عملی سامنے آئی ہے۔حکومت کی ترجیحا ت کا مرکز میٹروبس یا پھر انڈر پاسز کی تعمیر ہے، موجودہ حکومت کے لیے چین سے گوادر تک برق رفتار ٹرین سروس شروع کرنا ہی اصل ترقی اور حکمرانوں کی دانشمندی کا آخری معیار ہے۔ آج بھی ہمارے حکمران اس مخمصے کا شکار ہیں کہ اچھے طالبان کون ہیں برے کون۔ ایک جانب مغربی ممالک ہیں جو دہشت گردی کے لئے کسی قسم کی جواز پیش کرنے کی بجائے دوٹوک الفاظ میں دہشتگردوں سے نمٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم اور ہمارے حکمران ہیں جو سازشی مفروضوں کے ذریعے خودکو مغالطے میں ڈالے رکھنا چاہتے ہیں۔
سانحہ پشاور کی خونریزی کے بعد سے اب تک طالبان اور مذہبی دہشت گردوں کے ہاتھوں کراچی ،لاہور، راولپنڈی اور اورکزئی ایجنسی میں درجنوں بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، نہ ان کی صد ا میڈیا میں کہیں سنائی دی اور نہ کسی کو احتجاج کرنے کی توفیق ہوئی۔ حکومت کی جانب سے ا ن حملوں کی روک تھام کے لیے موثراقدامات نظر نہیں آرہے ۔پیرس حملے کے بعد جس قسم کا ردعمل فرانسیسی حکومت اور عوام نے ظاہر کیا اس سے کہیں زیادہ شدید ردعمل پشاور کے خونریز سانحے کے بعد پاکستانی حکومت اور عوام کو دکھانے کی ضرورت تھی لیکن افسوس کامقام یہ ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والے لوگوں کا معیار اورترجیحات کچھ اور ہوتے ہیں۔ عوامی سطح پر دہشت گردوں کی مزہبی فکر کی حمایت ختم کیے بغیر اس ناسور کو ختم کرنا ممکن نہیں۔
پیرس حملے کے بعد نہ توفرانسیسی حکومت، حزب اختلاف اور دانشور کسی تذبذ ب میں مبتلا نظر آئے اور نہ ہی انہوں نے دہشتگردی کے اس واقعے کے لیے یہ جواز پیش کیاکہ چونکہ اخبارنے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺکے نازیبا کارٹون شائع کرکے مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی لہذا حملہ جائز ہے۔ پاکستان میں طالبان اور دہشت گرد مذہبی تنظیموں کے ہمدردوں کے برعکس فرانس کے عوام اور حکومت نے یک زبان ہو کر اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا ،سب ایک ہی صفحے پر نظر آئے ،حملے کو فرانس کے خلاف اعلان جنگ قراردے کر دہشتگردوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران ،نام نہاد دانشور اور عوام 60 ہزار انسانوں کے قتل کے بعد بھی اس مغالطے کا شکار ہیں کہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ ہماری نہیں بلکہ ہم امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں۔ نہ کسی کو کھل کرطالبان کی مذمت کی توفیق ہوئی اور نہ اس ناسور سے نمٹنے کے لئے کوئی واضح حکومتی حکمت عملی سامنے آئی ہے۔حکومت کی ترجیحا ت کا مرکز میٹروبس یا پھر انڈر پاسز کی تعمیر ہے، موجودہ حکومت کے لیے چین سے گوادر تک برق رفتار ٹرین سروس شروع کرنا ہی اصل ترقی اور حکمرانوں کی دانشمندی کا آخری معیار ہے۔ آج بھی ہمارے حکمران اس مخمصے کا شکار ہیں کہ اچھے طالبان کون ہیں برے کون۔ ایک جانب مغربی ممالک ہیں جو دہشت گردی کے لئے کسی قسم کی جواز پیش کرنے کی بجائے دوٹوک الفاظ میں دہشتگردوں سے نمٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم اور ہمارے حکمران ہیں جو سازشی مفروضوں کے ذریعے خودکو مغالطے میں ڈالے رکھنا چاہتے ہیں۔
سانحہ پشاور کی خونریزی کے بعد سے اب تک طالبان اور مذہبی دہشت گردوں کے ہاتھوں کراچی ،لاہور، راولپنڈی اور اورکزئی ایجنسی میں درجنوں بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، نہ ان کی صد ا میڈیا میں کہیں سنائی دی اور نہ کسی کو احتجاج کرنے کی توفیق ہوئی۔ حکومت کی جانب سے ا ن حملوں کی روک تھام کے لیے موثراقدامات نظر نہیں آرہے ۔پیرس حملے کے بعد جس قسم کا ردعمل فرانسیسی حکومت اور عوام نے ظاہر کیا اس سے کہیں زیادہ شدید ردعمل پشاور کے خونریز سانحے کے بعد پاکستانی حکومت اور عوام کو دکھانے کی ضرورت تھی لیکن افسوس کامقام یہ ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والے لوگوں کا معیار اورترجیحات کچھ اور ہوتے ہیں۔ عوامی سطح پر دہشت گردوں کی مزہبی فکر کی حمایت ختم کیے بغیر اس ناسور کو ختم کرنا ممکن نہیں۔
ایک جانب مغربی ممالک ہیں جو دہشت گردی کے لئے کسی قسم کی جواز پیش کرنے کی بجائے دوٹوک الفاظ میں دہشتگردوں سے نمٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم اور ہمارے حکمران ہیں جو سازشی مفروضوں کے ذریعے خودکو مغالطے میں ڈالے رکھنا چاہتے ہیں۔
9ستمبر 2001ء کو واشنگٹن اور نیویارک پرہونے والے حملوں کے بعدامریکی عوام اور حکومت نے اپنے دشمن کو پہچان لیا اور ان سے بدلہ لیا جس کے بعد سے امریکہ میں دہشت گردی کاکوئی دوسرا بڑا واقعہ رونمانہیں ہوا ۔7 جولائی 2005 کو لندن کی زیر زمین ریلوے سہولت کو دھماکوں سے اڑایا گیا ،برطانوی حکومت نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی ،کمزوریوں کو دور کیا اور اب تک اس قسم کاکوئی دوسرا حملہ نہیں ہوا۔چند سال پہلے تک سری لنکا جل رہا تھا، تامل ٹائیگرز طالبان سے زیادہ طاقتور اور زیادہ خونریز حملے کر رہے تھے سری لنکن حکومت دہشت گردی کے خلاف ہر محاذ پر لڑی اور چوبیس سالوں کی خون ریزی کے بعد اب وہان امن کا قیام ممکن ہوا ہے۔پڑوسی ملک بھارت میں غربت کی شرح پاکستان سے بھی زیادہ ہے ،2008 میں بھارت کے تاریخی شہر ممبئی کے تاج محل ہوٹل پر خوفنا ک حملے کے بعد بھارت نے اپنی ناکامیوں پر غور کیا اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ اجمل قصاب کے لئے بھارت میں کہیں بھی جواز پیش نہیں کیا گیا ،اسے سولی چڑھا یا گیا جس کے بعد سے اب تک وہاں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا یہی زندہ قوموں کا معیار ہوتا ہے قوموں سے خطائیں ہوتی ہیں لیکن ان خطاؤں کو دہرانے کے بجائے ان سے سبق سیکھ کر آئندہ کے لیے ان کی روک تھا م ہی قوموں کو دنیا میں ممتا ز مقام دلاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم آج بھی اپنی ترجیحات کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام ہیں جسکا خمیازہ خونریزی و بربادی کی صورت میں ہمیں بھگتنا پڑرہاہے ۔اگر ہم دہشت گردوں کے خلاف مخمصے کے عالم سے باہر نہ نکلے تو پھر شائد مکمل تباہی ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی ۔
Leave a Reply