طالبان کی جانب سے بچوں کی جان لینے جیسے دردناک عمل کی مذمت کرنے والوں سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ طالبان اور اس واقعہ کے لیے جواز فراہم کرنے والی کی شدت پسند مذہبی فکرکی مذمت کرنے کو بھی تیار ہیں یا نہیں؟آج یہ سوچنا بے حد اہم ہے کہ کیا طالبان کے مارے جانے، ہتھیار ڈالنے یا وقتی طور پر ہمارے علاقوں سے چلے جانے کے بعد ہم ایک سخت گیر سیاسی اسلام سےمحفوظ رہ سکیں گے؟ اس بات کا احساس کیا جاناضروری ہے کہ شریعت کے نفاذ یا خلافت کے قیام کی مسلح تحریکوں کی جگہ پرامن سیاسی اور مذہبی تنظیموں کو کس حیثیت سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ ہزاروں مدارس اورسینکڑوں تبلیغی تنظیموں کی جانب سےمعاشرے میں جن شدت پسند مذہبی افکارکے نفاذ کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان تنظیموں کے پرامن ہونے کے باوجود ان کی نظریاتی اساس طالبان کی فکر جیسی ہی بےلچک، غیر انسانی، قدامت پسند اور سخت گیر ہے۔
جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام اورایسی ہی دیگرسیاسی اورمذہبی جماعتیں جوعرصہ درازسے پاکستان میں اسلام کے نفاذ اورعالمگیراسلامی حکومت (خلافت )کے قیام کے لیے کوشش کررہی ہیں ان کی جانب سےانتخابی سیاست کے ذریعےغلبہ اسلام کی کوشش کو سمجھنا موجودہ حالات کے تناظر میں کہیں زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔ ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ ہزاروں مدارس اورسینکڑوں تبلیغی تنظیموں کی جانب سےمعاشرے میں جن شدت پسند مذہبی افکارکے نفاذ کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان تنظیموں کے پرامن ہونے کے باوجود ان کی نظریاتی اساس طالبان کی فکر جیسی ہی بےلچک، غیر انسانی، قدامت پسند اور سخت گیر ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتیں ، نظریاتی تبلیغی گروہ اورمدارس طالبان کے طریق کار سے اختلاف کرتے ہیں مگر مطالبات اور نظریات کے حامی اور ہمدرد ہیں۔ ان علماء اور ان کے پیروکار مسلمانوں کی اکثریت پوری شدت سے نفاذ اسلام ، قیام خلافت اور نظام شریعت کی حامی ہے۔ ان غیرمسلح طالبان سےعلمی اختلاف کرنے، مذہب اور سیاست کی علیحدگی کی بات کرنے اور انسانی آزادی اورحقوق کی ترقی پسند فکر کی ترویج کی سکڑتی ہوئی گنجائش کے پیش نظر کیا یہ ممکن ہو گا کہ آنے والے برسوں میں شدت پسند مذہبی سیاسی نظام کے قیام کی مخالفت کی جاسکے یا اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔
پاکستان سمیت بیشتر مسلم ممالک میں مذہبی قوانین یا شریعت کے نفاذ کی حمایت میں ہونے والا اضافہ تشویش ناک ہے۔ ایک طرف یہ موجودہ نظام انصاف پرعدم اعتماد کی وجہ سے ہے اور دوسری طرف اس کی ایک اہم وجہ معاشرتی سطح پر قدامت پسند مذہبی نظریات کی کھلی ترویج ہے ۔ قدامت پسنداور فرسودہ مذہبی تشریحات کی تعلیم صرف مدارس تک محدود نہیں بلکہ یہ افکار تبلیغی تنظیموں اور مذہبی پروگراموں کے ذریعے ہرگھر تک پہنچ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مسلم آبادی کی اکثریت پھانسی، ہاتھ کاٹنے، سنگسار کرنے جیسی سزاوں، پردہ، کم عمری کی شادی، مردانہ برتری، مذہبی جبراورشدت پسند جہادی فکرکی حمایت کرتی ہے۔
اگرچہ مذہب پرعمل کرنا اوراس کی ترویج کی کوشش کرنا ہر فرد کا بنیاد ی حق ہے لیکن کیا مذہب کے نفاذ کو ریاست کی ذمہ داری قرار دے کر دیگرمذاہب اورفرقوں کی آزادی کو سلب کرنے یا ایک مخصوص گروہ یا مسلک کےتصور اسلام کو بزورطاقت مسلط کرنے کی آزادی کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انہیں اپنے عقیدے کے مطابق اپنی ذاتی زندگی گزارنے کا حق ضرور حاصل ہے لیکن انہیں اپنےمذہبی افکارکوسیاسی نعرہ بنا کر دوسرے مذاہب کے افراد یا اپنے ہی ہم مذہبوں پر نفاذ کا خدائی فوجدار بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
قدامت پسنداور فرسودہ مذہبی تشریحات کی تعلیم صرف مدارس تک محدود نہیں بلکہ یہ افکار تبلیغی تنظیموں اور مذہبی پروگراموں کے ذریعے ہرگھر تک پہنچ چکے ہیں۔
پاکستان میں مذہب کوریاست کی ذمہ داری قراردےکراس کے نفاذ کو آئینی فریضہ قراردیاگیا ہے، جس کے باعث سخت گیر اسلامی افکارکے نفاذ اورمذہبی جبر کا جواز پیدا ہو چکا ہے۔ ریاست اورسیاست میں مذہب کی شمولیت کے باعث ہرپاکستانی کے خیال میں اسلام پسند قوتوں کی حمایت کرتے ہوئے عام لوگ طالبان اورمولانا عبدلعزیز جیسے افراد سے نہ صرف ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ ان کی کامیابی کے خواہاں بھی ہیں۔ فکری طالبان کا راستہ روکنے کے لیے ریاست اورمذہب کی علیحدگی وہ پہلا ضروری قدم ہے جو اٹھانا ہو گا وگرنہ غیرمسلح طالبان اپنے ہتھیاروں کی بجائے اپنے حامیوں کی مدد سے ریاست پر قبضہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

Leave a Reply