مبارک ہو! ڈسٹرکٹ قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں ہزاروں پنجابی غیرت مندوں نے قرآن کریم کی مبینہ بے حرمتی کرنے پر عیسائی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا کر دینِ اسلام کا مخلص ٹھیکیدار ہونے کا ثبوت دیا ہے اور مسیحیوں کو ایک ایسا سبق سکھایا ہے کہ وہ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔
بھٹے میں جلنے والے جوڑے کا اگر خیال تھا کہ پاکستان جیسی عظیم مسلم ریاست میں وہ یہ” گناہِ عظیم” کرنے کے بعد زندہ بچ جائیں گے تو یہ اُن کی بہت بڑی غلط فہمی تھی۔ویسے کیسی خوش قسمتی ہے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ مخلص اور سچے مسلمان آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہی پائے جاتے ہیں
بھٹے میں جلنے والے جوڑے کا اگر خیال تھا کہ پاکستان جیسی عظیم مسلم ریاست میں وہ یہ” گناہِ عظیم” کرنے کے بعد زندہ بچ جائیں گے تو یہ اُن کی بہت بڑی غلط فہمی تھی۔ویسے کیسی خوش قسمتی ہے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ مخلص اور سچے مسلمان آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہی پائے جاتے ہیں
پنجابی گوجرہ فسادات ، جوزف کالونی میں قتلِ عام، سمبڑیال میں چرچ جلانے، فانش مسیح کی حوالات میں ہلاکت، شیخوپورہ کی آسیہ بی بی کی سزائے موت اور وکیل راشد رحمان کے قتل سے اپنا جذبہ ایمانی بارہا ثابت کر چکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بھٹے میں کیفرِ کردار تک پہنچنے والی تین بچوں کی ماں اور شہزاد مسیح کی بیوی شمع حاملہ تھی لیکن غیرت مند پنجابیوں کو اس سے کیا سروکار؟ اگر کوئی خاتون حاملہ ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ مل کر” قرآن کی بے حرمتی "کرے اور اسے صرف اس لیے بخش دیا جائے کہ وہ حاملہ ہے۔
اچھا ہوا کہ شمع کو زندہ جلا دیا گیا،اگر وہ زندہ رہتی تو اُس کی کوکھ سے پیدا ہونے والا بچہ بھی کل کو 295 کی دفعہ کے تحت عوامی انصاف کی بھینٹ چڑھ جاتا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ توہین رسالت کے واقعات کی کی اطلاع متعلقہ تھانے میں دی جائے۔ ایسے حالات میں تو اس علاقے کی مسجد کے مولوی پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ حالات اور موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے مسجد کے میناروں پر آویزاں چندے کے پیسوں سے خریدے گئے لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے اہل علاقہ کے مذہبی جذبات بھڑکائے اور مسلمانوں کو حکم دے کہ توہین کرنے والوں کو اسی طرح کیفرِ کردار تک پہنچائیں جیسےکوٹ رادھا کشن کی مسجد سے مولوی صاحب کے اعلان کے فوراً بعد آس پاس کے ہزاروں مسلمان مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دینِ اسلام کے سچے سپاہی بن گئے ۔ یہ ہجوم یوسف کے بھٹے پر جمع ہوا اور بنا تصدیق کئے عیسائی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں جھونک دیا۔جس بھٹے میں اس جوڑے کو جلایا گیا اب وہاں سے تیار ہونے والی اینٹیں بھی یقیناً جذبہ ایمانی سے مامور ہوں گی، اسی لئے سچے مسلمانوں اور عاشقان دین کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اپنا گھر بناتے وقت یوسف کے بھٹے کی اینٹیں استعمال کرے۔
ویسے غیرت مند پنجابیوں کے کیا ہی کہنے، ان کی غیرت مندی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے سزا یافتہ آسیہ بی بی کے حق میں آواز بلند کی تو پنجاب سے ہی تعلق رکھنے والے ممتاز قادری نے سرکاری بندوق سے ہی سلمان تاثیر کو چھلنی کردیا۔سنا ہے آج کل ممتاز قادری صاحب جیل میں ہی اپنا جذبہ ایمانی باقی مسلمانوں کو منتقل کررہے ہیں۔پنجاب کے اس بہادر سپوت ممتازقادری کے کیا ہی کہنے، اس نے جیل میں رہتے ہوئے جیل کے گارڈ کے ذریعے توہین رسالت کے الزام میں گرفتار برطانوی عمر رسیدہ قیدی پر حملہ کر ایا اور دینِ اسلام کا سچا سپاہی اور علمبردار ہونے کا ثبوت دیا۔ جاتے جاتے مزید ایک خوشخبری بھی سن لیں ایک اور پنجابی غیرت مند پولیس اہلکار فراز نوید نے کلہاڑی کے وار کر کے زیر حراست طفیل حیدر کو مبینہ توہین صحابہ پر موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
پنجابیوں پوری مملکتِ اسلام تمہیں سلام پیش کرتی ہے۔
اچھا ہوا کہ شمع کو زندہ جلا دیا گیا،اگر وہ زندہ رہتی تو اُس کی کوکھ سے پیدا ہونے والا بچہ بھی کل کو 295 کی دفعہ کے تحت عوامی انصاف کی بھینٹ چڑھ جاتا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ توہین رسالت کے واقعات کی کی اطلاع متعلقہ تھانے میں دی جائے۔ ایسے حالات میں تو اس علاقے کی مسجد کے مولوی پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ حالات اور موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے مسجد کے میناروں پر آویزاں چندے کے پیسوں سے خریدے گئے لاؤڈ سپیکرز کے ذریعے اہل علاقہ کے مذہبی جذبات بھڑکائے اور مسلمانوں کو حکم دے کہ توہین کرنے والوں کو اسی طرح کیفرِ کردار تک پہنچائیں جیسےکوٹ رادھا کشن کی مسجد سے مولوی صاحب کے اعلان کے فوراً بعد آس پاس کے ہزاروں مسلمان مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دینِ اسلام کے سچے سپاہی بن گئے ۔ یہ ہجوم یوسف کے بھٹے پر جمع ہوا اور بنا تصدیق کئے عیسائی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں جھونک دیا۔جس بھٹے میں اس جوڑے کو جلایا گیا اب وہاں سے تیار ہونے والی اینٹیں بھی یقیناً جذبہ ایمانی سے مامور ہوں گی، اسی لئے سچے مسلمانوں اور عاشقان دین کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اپنا گھر بناتے وقت یوسف کے بھٹے کی اینٹیں استعمال کرے۔
ویسے غیرت مند پنجابیوں کے کیا ہی کہنے، ان کی غیرت مندی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے سزا یافتہ آسیہ بی بی کے حق میں آواز بلند کی تو پنجاب سے ہی تعلق رکھنے والے ممتاز قادری نے سرکاری بندوق سے ہی سلمان تاثیر کو چھلنی کردیا۔سنا ہے آج کل ممتاز قادری صاحب جیل میں ہی اپنا جذبہ ایمانی باقی مسلمانوں کو منتقل کررہے ہیں۔پنجاب کے اس بہادر سپوت ممتازقادری کے کیا ہی کہنے، اس نے جیل میں رہتے ہوئے جیل کے گارڈ کے ذریعے توہین رسالت کے الزام میں گرفتار برطانوی عمر رسیدہ قیدی پر حملہ کر ایا اور دینِ اسلام کا سچا سپاہی اور علمبردار ہونے کا ثبوت دیا۔ جاتے جاتے مزید ایک خوشخبری بھی سن لیں ایک اور پنجابی غیرت مند پولیس اہلکار فراز نوید نے کلہاڑی کے وار کر کے زیر حراست طفیل حیدر کو مبینہ توہین صحابہ پر موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
پنجابیوں پوری مملکتِ اسلام تمہیں سلام پیش کرتی ہے۔
لکھاری کےاس دردناک واقعے کےحوالے سےمظلومین کےلیےخلوص سےانکار نہیں نا ہی ان تمام واقعات سےانکار ہے جو پنجاب میں ہوئے لیکن اس طرح ایک مخصوص علاقے اور زبان کا نام لےکر اس طرح لتے لینا نا صرف اس حوالے سے نا انصافی ہے کہ ظلم جبر اور زیادتیاں پاکستان کے اور دنیا بھر کے ہر خطے میں کسی نہ کسی صورت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ اگر اس کے جواب میں کسی دوسرے علاقے یا زبان کےبولنے والوں کے عیوب گنوائے گئے تو باہمی الزام تراشیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ فی الوقت جس طرح ہمیں ایک قوم ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے ایسی منافرتوں کو ہوا دینا انتہائی نقصان دہ ہے۔ برائی کی مذمت اوراس کے مرتکبین کو کڑی سزا دینا انتہائی ضروری ہے۔ روشن خیالی کا حصول اور انتہا پسندی کو روکنا اور اس خیا ل کا فروغ کرنا ضروری ہے کہ سب انسان رنگ نسل مذہب زبان سے بالاتر ہو کر بطور انسان لائق احترام ہیں۔
کوٹ رادھا کشن میں جو ظلم اس جوڑے پر ڈھایا گیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے اور اس کے مرتکب سخت سزا کے مرتکب ہیں ۔ لیکن ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ اس تحریر میں محرر کا سارا زور پنجابیوں کو بحیثیت مجموعی مطعون کرنے پر کیوں ہے ؟۔
بخدا اس ساءٹ پر اس سے زیادہ بودی اور غیر متوازن تحریر میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ محرر کے جو اوصاف ان کے تعارف میں لکھے ہیں یہ طرز تحریر اس سے قطعی میل نہیں کھاتا ۔ اور نہ جانے موسوف نے کون سا ایوارڈ کس قسم کی ڈاکو منٹریپر جیتا ہو گا ۔ اللہ رحم کرے ہمارے ملک میں ویسے تو ہر شعبے میں زوال آ چکا ہے لیکن یہ منافرت انگیز طرز تحریر اس زوال سے بھی گرا ہوا ہے ۔
یه بجهتی لالٹین کوئی ایسا آرٹیکل دیکها سکتی هے جس سے اسلام سے محبت یا پاکستان سے محبت کا جذبه ابهرتا هو.یه تو هے که اس کے آج تک کے آرٹیکل زهریلی باتوں سے بهرے هوئے هیں .ایسا کیوں هے اس کا جواب لالٹین والوں کو دینا پڑے گا.