Laaltain

غلطی ہوجائے پر بریکنگ نہ جائے

13 جولائی، 2016
Picture of سدرہ ڈار

سدرہ ڈار

میڈیا کو ریاست کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں براڈکاسٹ چینلز کی بھرمار چاہے کتنی ہی ہو لیکن ان کی عمر ابھی اتنی نہیں۔ آج سے پندرہ سولہ سال قبل لوگ سرکاری ٹیلی وژن ہی دیکھا کرتے تھے، رات نو بجے کا خبر نامہ دیکھنے کے بعد لوگوں کو یہ گمان ہوتا تھا کہ وہ ملکی و غیر ملکی خبروں سے لاعلم نہیں رہے، جو بتایا جاتا من و عن اس پر یقین کر لیا جاتا۔ لیکن نہ کسی کو ذہنی تناو کا مسئلہ تھا نہ ہی کسی کو خوف کی بیماری۔ کم سے کم اتنی نہیں جتنی آج ہے۔۔۔

 

کئی ایسے چینل بھی ہیں جہاں اچھی شکل و صورت ہی رپورٹنگ کی ضمانت ہے بھلے آپ کو خبر کی اہمیت سے آشنائی ہو یا نہ ہو۔۔۔ اگر آپ صحافتی اخلاقیات سے بے بہرہ ہیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں بس چینل کی اسکرین پر روشن چہرے دمکتے رہنا کافی ہے
نجی چینلز جب وارد ہوئے تو لوگ خبروں کی دنیا میں جینے لگے، مخصوص انداز کے سرکاری خبر نامے کی بجائے جدت سے بھرپور، بریکنگ کے ساتھ اور بھرپور تبصروں اور چٹپٹے انداز والے بلیٹن لوگوں کے گھروں کا حصہ بن گئے۔ صبح ہو یا رات، دوپہر ہو یا شام ہر وقت ہی ہر گھر میں خبریں چلتی ہیں اور لوگ یہ سمجھتے کہ اگر کوئی خبر ان کو نہیں ملی تو اس کا مطلب ہے کہ آج کوئی نیوز بلیٹن دیکھنے سے رہ گیا۔ چاہے کوئی زلزلہ آئے یا طوفان، دھماکہ ہو یا سیاسی دھمال میڈیا نے کبھی لاشیں دکھائیں تو کسی کا زوال کوئی خبر رکی نہیں کسی کی نظر سے بچی نہیں۔ لیکن ہوا کیا؟ خبر دینے کا انداز بدلا، جید صحافیوں نے تبصرے کی کمان سنبھالی، ٹاک شوز شروع ہوئے جن میں مہمانوں کے درمیان جب تک تو تو میں میں نہ ہو شو کی ریٹنگ نہیں ہوتی۔ یہ سلسلہ کامیاب ہوا تو میڈیا ہاوسز کے مالکان اور بڑے عہدیداران نے سوچا کہ ٹی وی ہے یہاں سب چلتا ہے سب بکتا ہے خبرنامہ پڑھنے والا اگر خوبرو ہے تورپورٹ کرنے والا بھی ایسا ہی ہونا چائیے تاکہ اسکرین کو چار چاند لگ جائیں۔ یہ چار چاند لگانے والا فارمولہ کہیں کہیں تو کامیاب ہوا کئی ایسے چینل بھی ہیں جہاں اچھی شکل و صورت ہی رپورٹنگ کی ضمانت ہے بھلے آپ کو خبر کی اہمیت سے آشنائی ہو یا نہ ہو۔۔۔ اگر آپ صحافتی اخلاقیات سے بے بہرہ ہیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں بس چینل کی اسکرین پر روشن چہرے دمکتے رہنا کافی ہے۔ لیکن اب چار چاند لگنے سے چاند چڑھنے کے معاملات شدت اختیار کر گئے ہیں۔

 

مجھے صحافت کے شعبے میں آئے کچھ بہت طویل عرصہ نہیں گزرا لیکن جب جب غلطی کی سینئرز نے اس کی اصلاح کی۔ یہاں تک کہ وائس اوور میں اگر کوئی لفظ غلط ادا ہوجاتا تو کاپی ایڈیٹر سمیت پروڈیوسر تک اس کی تصیح کراتے تاکہ وہ غلطی آن ائیر نہ ہوجائے۔ لائیو رپورٹنگ میں الفاظ کا چناو کیا ہو، اس کے لئے اردو کے اخبارات روزانہ پڑھنے کی عادت ڈالی تاکہ الفاظ کا بہترین ذخیرہ موجود ہو پھر بھی کہیں نہ کہیں غلطی سرزد ہو ہی جاتی تھی لیکن میں مطمئن ہوں کہ وہ غلطی سنگین نہیں تھی۔ لیکن صرف دو برسوں میں بہت کچھ اتنی تیزی سے تبدیل ہوا کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں نے جو کچھ سیکھا تھا وہ شاید پچھلی صدی کی بات ہے۔ میں جب رپورٹنگ میں آئی تو مجھے سینئر رپورٹرز کے ساتھ بھیجا جاتا تا کہ میں کام دیکھوں، سمجھوں، جب پہلی بار رپورٹنگ کی تو موضوع بہت ہلکا پھلکا دیا گیا تاکہ غلطیوں کی اصلاح ہوسکے۔

 

ٹریننگ پر لئے جانے والے نوجوان جن کی ابھی ڈگری بھی مکمل نہیں ہوئی انہیں وہ موضوعات دے کر مائیک تھما کر فیلڈ کے سمندر میں اتارا جا رہا ہے جہاں ان کا تیرنا بھی مشکل ہے۔
یہ سلسلہ دو ماہ جاری رہا اور پھر ہر موقع پر چاہے وہ سیاسی جلسہ ہو یا تصادم، حادثہ ہو یا دھماکہ۔۔۔ اسپتال میں آنے والی لاشیں ہوں یا کوئی پریس کانفرنس مجھے نہ صرف بھیجا گیا بلکہ لائیو بیپرز بھی لئے گئے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن اب حالات مختلف ہیں، گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک بہت بڑے چینل کی ٹرینی رپورٹر کی کچھ فوٹیجز لیک ہوئیں جس پر ایک بحث کا آغاز ہو گیا۔ یہ واقعہ ننھے عبداللہ کا تھا جس کی والدہ حلیمہ اب دنیا میں نہیں ہے اور اس معصوم کو ایدھی ہوم چھوڑ دیا گیا ہے۔ رپورٹر اس بچے کے پاس گئی اور اسے بہلانے کی کوششوں میں لگی رہی کبھی فون اس کے کان سے لگاتی کہ تمہاری امی کا فون ہے ان سے بات کرو۔۔۔ وہ بچہ بلکتا، روتا تو وہ اس کے پیچھے پیچھے جاتی اور پھر اس ننھے معصوم کی آنکھوں سے رواں ہونے والے آنسووں پر اس رپورٹر نے اسٹوری کا اختتام کیا۔ اس رپورٹ کی خام فوٹیجز (ایڈٹ ہونے سے قبل) کے مناظر کسی نے لیک کئے جس کو دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ وہ اس بچے کو محض اپنی رپورٹ بہتر بنانے کے لئے نہ صرف رلا رہی ہے بلکہ زچ کر رہی ہے۔ اس معاملے پر دو رائے سامنے آئیں کسی نے کہا کہ سارا قصور رپورٹر کا ہے تو کسی کا کہنا تھا کہ رپورٹر کی غلطی نہیں یہ معاملہ تب کاہے جب بچے کی ماں کے قتل کی اطلاح نہیں تھی اس لئے نتیجہ اخذ نہ کیا جائے۔ یہ رائے درست ہے لیکن جن لوگوں نے یہ فوٹیجز جاری کیں ان کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی داد دینی چائیے۔

 

Geo Reporter Abusing a Child Whose Mother is Dead by sm_raza1

دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ جس ادارے نے اس رپورٹر کو بھیجا ان کو یہ سوچنا چائیے تھا کہ یہ کوئی ہلکی پھلکی سٹوری نہیں تھی اس کے لئے کسی منجھے ہوئے سینئر رپورٹر کو بھیجنا چاہیئے تھا۔ ٹریننگ پر لئے جانے والے نوجوان جن کی ابھی ڈگری بھی مکمل نہیں ہوئی انہیں وہ موضوعات دے کر مائیک تھما کر فیلڈ کے سمندر میں اتارا جا رہا ہے جہاں ان کا تیرنا بھی مشکل ہے۔ ان کی کوئی بھی غلطی مستقبل میں شروع ہونے والے کیرئیر کو پہلے ہی ختم کر سکتی ہے۔ یہ سوچنا ان نوارد رپورٹر کا نہیں انتطامیہ کا کام ہے، یہ نوجوان تو اسی پر خوش ہیں کہ انہیں مائیک دے دیا گیا اب انہیں بہترین کر کے لانا ہے خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔

 

ٹی وی چینلوں کی انتظامیہ نوجوانوں رپورٹروں کو ہر حد عبور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ جملے کہ “جیسے بھی ہو کر کے دو” جونئیرز ہی نہیں سینئر ز کو بھی سننے پڑتے ہیں۔
ٹی وی چینلوں کی انتظامیہ نوجوانوں رپورٹروں کو ہر حد عبور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ جملے کہ “جیسے بھی ہو کر کے دو” جونئیرز ہی نہیں سینئر ز کو بھی سننے پڑتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں خادم انسانیت عبدالستار ایدھی کے رحلت پر ایک بڑے نیوز چینل کے رپورٹر نے ایدھی صاحب کی قبر میں اتر کر بلکہ لیٹ کر رپورٹنگ کی۔ چند منٹوں میں ہی یہ تصویر سوشل میڈیا پر پہنچی اور لعن طعن کا ایسا آغاز ہوا جو ابھی بھی جاری ہے۔ اس کا پرچار بھارت میں بھی ہوا اور کہا گیا کہ پاکستان میں رپورٹنگ کا معیار اس قدر گر چکا ہے کہ رپورٹر قبر تک نہیں چھوڑ رہے جبکہ بھارت میں آج سے چند برس قبل سیلاب کے دوران ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر کو اس بات پر فارغ کیا گیا تھا کہ اس نے اس سیلاب سے متاثر ایک شخص کے کندھے پر بیٹھ کر رپورٹنگ کی تاکہ اس کا کیمرامین اسے اور سیلاب کی شدت کو دکھا سکے۔

 

RIP Pakistani Media !! See How Express News… by aman57

بھارت میں رپورٹنگ کا کیا معیار ہے یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن پاکستان میں رپورٹرز کو یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ بریکنگ اور ایکسکلوزو کے نام پر جو کر سکو کرو تاکہ ہمارا چینل ریٹنگ لے سکے۔ بہت سے ایسے رپورٹرز جو نہ صرف صحافت پڑھ کر آئے ہیں بلکہ اسے سمجھتے بھی ہیں وہ ایسی فضول فرمائشوں پر صاف انکار بھی کر دیتے ہیں لیکن میڈیا ہاوسز ان سینئرز کو جب استعمال نہیں کر پاتے تو وہ کئی ایسے نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہیں جو اپنا کیرئیر اور اس میں نام بنانے کے لئے صرف یس سر کرتے جاتے ہیں۔ آج انہی یس سر کرنے والے نوارد صحافیوں کا ایک مجمع آپ کو ہر چینل پر نظر آتا ہے۔ یہ کچھ بھی بولیں، کریں، خبر غلط دیں یا کسی کی بھی پگڑی اچھالیں بریکنگ اور ایکسکلوزو چینل کو مل جائے تو ان کی کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایدھی صاحب کی قبر میں لیٹ کر رپورٹنگ اور ایکسکلوزو دینے والا رپورٹر سینئر ہے۔ میں حیران ہو کہ یہ خیال اس کا اپنا تھا؟ یا ادارے نے اسے یہ بےہودہ تجویز دی؟ رپورٹرز سے روز غلطیاں ہوتی ہیں لیکن ادارے کا کام ہے کہ وہ اس کی اصلاح کرے بلکہ ایسی غلطیوں کو آن ائیر جانے سے قبل روکے، رپورٹر اگر کچھ کرنے جارہا ہے تو ڈیسک کو علم ہو اگر دونوں طرف سے غلطی ہوئی ہے تو بلیٹن کے پروڈیوسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر نظر ثانی کرے پھر بھی اگر تمام راستوں سے ہوتے ہوئے یہ سب بلیٹن میں آن ائیر ہوجائے تو اس کا ذمہ دار اکیلا رپورٹر نہیں پورا ادارہ ہے۔

 

لوگ خبریں دیکھتے ضرور ہیں لیکن جب کسی صحافی سے ملتے ہیں تو ان کی رائے یہی ہوتی ہے کہ آپ تو رائی کا پہاڑ بنانے والے لوگ ہیں،
جس طرح سیکھنے کا عمل کبھی تمام نہیں ہوسکتا اسی طرح ہر روز غلطیوں سے سبق سیکھنے میں کوئی حرج نہیں، صرف بریکنگ اور ایکسکلوزو کے چکر میں نئے نویلے برساتی رپورٹرز سے کچھ بھی کروا لینا کوئی بہتر عمل نہیں۔ یہ فیلڈ آج اسی لئے بدنام ہورہی ہے کہ لوگ خبریں دیکھتے ضرور ہیں لیکن جب کسی صحافی سے ملتے ہیں تو ان کی رائے یہی ہوتی ہے کہ آپ تو رائی کا پہاڑ بنانے والے لوگ ہیں، آپ تو درست خبر بھی پلٹ دیتے ہیں یہ سب آج نیم حکیم خطرہ جان رپورٹرز کی وجہ سے ہورہا ہے جن کو سکھائے بنا اور بغیر تربیت کے صحافت کے سمندر میں اتار دیا گیا۔ خصوصااداروں کی سب سے اہم ذمہ داری ہے کہ ناظرین کو ہر وقت باخبر رکھنے کے لئے خبر کو کسی معتبر اور خبر کی اہمیت کو سمجھنے والے صحافی کے ذریعے لوگوں تک پہنچائیں تاکہ ان کا نہ صرف صحافت پر اعتماد بحال ہوسکے بلکہ رپورٹر کی دی ہوئی خبر پر بھی وہ بھروسہ کر سکیں۔ ایک وقت تھا جب لوگ ذخیرہ الفاظ میں اضافے اور تلفظ کی درستی کے لئے ریڈیو اور ٹی وی سے مستفید ہوتے تھے لیکن آج ہماری خبروں میں یہ تک لکھا جانے لگا ہے کہ “فلاں شخص نے وزیر اعلی کو ماموں بنا ڈالا، چاند رات پر مردوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے خواتین کے جتن، اے ٹی ایم نہیں چلے تو بیگمات شوہروں سے روٹھ گئیں۔۔۔” یہ چند مثالیں ہیں اب ہر روز ہر وقت ایسی خبریں ایسی بریکنگ نہ صرف چینلز دیتے ہیں بلکہ رپورٹرز اس پر رپورٹ کر تے وقت ان الفاظ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔۔۔ اگر یہی روش جاری رہی تو آج ملک میں صحافت بدنام ہے کل یہ پیشہ ایک گالی بھی بن جائے گا، اس لئے بغیر تربیت کے رپورٹرز کو فیلڈ پر بھیجنے والے ادارے پیسہ کمانے کے ساتھ تھوڑا وقت ان کی تربیت پر بھی لگائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *