آج کی دنیا کے دو اہم اور بڑے مسائل جن کا تعلق انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی دونوں سے ہے، وہ ہیں مذہب و سیاست۔ گو کہ ان دونوں کا تعلق بہت گہرا ہے مگر ان کے درمیان تضادات نے ہی دنیا کی تقدیر کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
اگر سیاسی حوالہ سے غور کیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلام کا دنیا کی سیاسی سرگرمیوں میں ایک اہم حصہ ہے۔ عیسائی پاپائیت کے ختم ہونے کے بعد دنیا کے سیاسی نظام پر مسلمان پادریوں نے قبضہ کرنے کے لیے کافی ہاتھ پیر چلائے، مگر اپنی ناقص سیاسی حکمتِ عملی کی وجہ سے وہ ناکام ہوگئے۔ انہوں نے لوگوں کو شعوری ترقی سے روک دیا۔ آج اس کا اثر ہم شدت کے ساتھ مسلمانوں میں محسوس کر رہے ہیں۔
انقلابِ فرانس دنیا کو ایک نئی سمت کی طرف لے گیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب مسلمانوں کی آخری اور سب سے طاقتور سمجھی جانے والی سلطنت “دولت عثمانیہ” اپنے نقطہ عروج کو چھونے کے بعد اب زوال کی جانب رواں تھی
40ہجری میں اسلام کی پہلی مطلق العنان حکومت کی بنیاد پڑی جو بنو امیہ کا دور کہلایا۔ اس دور سے لے کر انقلابِ فرانس (1789ء) تک اسلامی دنیا میں سیاست و مذہب کو الگ چیزوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سیاست کو اجتماعی اور مذہب کو انفرادی معاملے کے طور پہ دیکھتے تھے۔ انقلابِ فرانس دنیا کو ایک نئی سمت کی طرف لے گیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب مسلمانوں کی آخری اور سب سے طاقتور سمجھی جانے والی سلطنت “دولت عثمانیہ” اپنے نقطہ عروج کو چھونے کے بعد اب زوال کی جانب رواں تھی (مغل سلطنت کے تو پہلے ہی پرخچے اڑ چکے تھے) یہی وہ دور تھا جب دولتِ عثمانیہ نے اپنی سلطنت بچانے اور انقلابات کے اثر کو خود سے دور رکھنے کے لیے کئی نئے نعرے ایجاد کیے۔ اس اثنا میں ان کا ساتھ ان کے مذہبی مشیروں نے دیا۔
اس کے اثر کو روکنے کے لیے لوگوں کو جدید تعلیم سے روکا گیا (نامق کمال نامی شخص کو اس وجہ سے جلا وطن کر دیا گیا کہ اس نے چھاپہ خانہ کی بنیاد رکھی) اور ملوکیت کے فوائد یا غلامی کے سبز باغ دکھائے۔ قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی رہی کہ ملوکیت اسلام کا جز ہے یا عین اسلام ہے جو اسلام کی ایک نہایت غلط تعبیر تھی۔ لیکن ان کی یہ کوششیں سرے سے ناکام رہیں اور پہلی عالمی جنگ میں 800 سال تک 3 براعظموں پر حکومت کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔آج وہاں آزاد و خود مختار جمہوری ریاست “ترکی” ہے۔
مصطفی کمال اتاترک جو ترکی کے امیر انقلاب تھے، فوراً یہ بھانپ گئے کہ ترک قوم باقی دنیا سے 50 سال پیچھے ہے اور اس کی وجہ ترکی کے لوگوں کا قدیم و بوسیدہ رسوم و رواج کو اپنائے رکھنا اور جدیدیت کے تصور سے نا آشنائی ہے۔ انہوں نے برسرِ اقتدار آتے ہی پہلا کام جو کیا، وہ نہایت دل چسپ تھا۔انہوں نے ترکی زبان کو عربی رسم الخط سے تبدیل کر کے لاطینی رسم الخط میں ڈھال دیا کیوں کہ تمام جدید علوم کا خزانہ لاطینی زبان میں موجود تھا۔ درس گاہوں کے مضامین دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیے گئے۔ ترکی کے نوجوانوں کو یورپ کی بڑی یونیورسٹیوں کے لیے وظائف دیئے گئے اور عورتوں کو معاشرے میں مردوں کے برابررتبہ دیا گیا۔اس طرح ترکی ایک پسماندہ خطے سے اٹھ کر یورپ کے مدمقابل کھڑا ہوگیا۔ آج اس کی معیشت، سیاسی استحکام و معاشرتی طرز کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
جب ترکی ترقی کی منزل بہ منزل سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، تب باقی اسلامی دنیا خصوصاً بر صغیر کے مسلمان سیاسی رہنماوں کو اپنی سیاسی ابتری میں بہتری سے زیادہ “دولتِ عثمانیہ” کی فکر لاحق تھی۔
جب ترکی ترقی کی منزل بہ منزل سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، تب باقی اسلامی دنیا خصوصاً بر صغیر کے مسلمان سیاسی رہنماوں کو اپنی سیاسی ابتری میں بہتری سے زیادہ “دولتِ عثمانیہ” کی فکر لاحق تھی۔ 1919ءتا 1922ءکے دوران مولانا ظفر علی جوہر کی زیر قیادت چلنے والی “تحریکِ خلافت” اس کی ایک ایک مثال ہے۔ یہ تحریک اپنی موت آپ مر گئی، جب عثمانی سلطنت کا تختہ الٹ گیا۔
عرب خطہ میں سیاسی اتا چڑھاو اور آلِ سعود کی حکمرانی کی ابتدا بھی سلطنتِ عثمانیہ کے سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ ہے۔ لارنس آف عریبیہ کی کاوش نے ہی عرب خطے میں مغرب کی سیاسی جڑیں مستحکم کیں، اور اب وقت و حالات یہ بتاتے ہیں کے سعودیہ عرب کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتے ہوئے مغرب انہیں اپنی عطا کی ہوئی کن کن نعمتوں کا ذکر کرواتا ہے، اور پھر اسلامی دنیا کے مرکز کو اپنے تجارتی و معاشی تعلقات کی غرض سے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال اور پاکستان کے موجودہ حالات کا موازنہ کیا جائے تو دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ کہنے کو پاکستان کو قائم ہوئے 70 سال ہو چکے ہیں، مگر غلامی کے اثرات آج بھی ہمارے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔ ہم شروع سے ہی بیوروکریسی، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور مذہبی ٹھیکیداروں کے غلام رہے ہیں۔ ہم نے ترکی سے کچھ نہیں سیکھا بلکہ ہم آج بھی سعودی عرب کے بادشاہوں کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔ہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بھی “جمہوریت” کو اسلام کا دشمن، سوشلزم کو فتنہ اور جدت کو خطرہ ایمان سمجھتے ہیں۔ ہماری شرح خواندگی سے لے کر ہماری معیشت تک اور ہماری سیاست سے لے کر ہماری معاشرت تک تمام شعبہ ہائے زبدگی زوال پذیر ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ہم محض “اللہ ہو” کے ورد اور “اللہ اکبر” کے نعروں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔
سیاست سے لے کر معاشرت تک تمام شعبہ ہائے زبدگی زوال پذیر ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ہم محض “اللہ ہو” کے ورد اور “اللہ اکبر” کے نعروں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔
اگر ہم بھی سیاسی ناکامیوں کو مذہب کا رنگ دیں گے تو وہ دن دور نہیں جب ایک جماعت “بادِ صبا” کی طرح سب اڑا لے جائے۔ مذہبی ٹھیکیداروں کی غلام قومیں آج جس دہانے پر کھڑی ہیں، اس کا احساس ہم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ہم خواہ خود کو کچھ بھی سمجھیں مگر اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ ہم نسل در نسل ہزار ہا سالوں سے مرضِ غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں ،جن کے طوق سے آزاد گردنیں جھکتی ہیں۔غلامی کے ان سجدوں کے لیے ہماری امامت غلاموں کے ہاتھوں میں ہے اور ان کی اقتداء میں ہم غلامی کی نماز یں پڑھ رہے ہیں۔
One Response
مختلف تاریخی واقعات کو ایک آرٹیکل میں جس طرح بیان کیا گیا وہ قابل ستائش ہے، آخر میں جس طرح پاکستانی معاشرہ کا پوسٹ مارٹم کرکے اس کے حل بتائے گئے وہ واقعی میں وقاص کی تعمیراتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ امید ہے آپ اسی طرح قلم کے ساتھ انصاف کرتے رہیں گے اور ہمارے بنجر ذہنوں کو سراب کرتے رہیں گے۔ آپ کے اگلے آرٹیکل کا بے صبری سے انتظار رہے گا۔