[vc_row][vc_column width=”1/6″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
بلیو فلموں کی افسوس ناک
گیلی روشنیوں میں
حقیقتوں کے سوا سب کچھ کھل گیا تھا
اس غیر صوفیانہ مجلس میں بھی
ایک خدا کیمرے کے پیچھے
اور ایک آگے کھڑا تھا
آدمی اصل میں اداکارہ تھی
سب سے مہنگی گھٹیا
وقت، کچھ نہ ہو تو سکڑا رہے
اور کچھ ہوجاۓ تو لمبا اور بڑا ہے
اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے
روشنی گیلی ہو کر
میرے آنکھوں میں جم سکتی ہے
میری آنکھیں نکال کر پھینک دو
کتے کے بچوں کو
میں ان کا شکر گزار ہوں
دھڑ دھڑ دھڑام ہوں
دو کلک کا غلام ہوں
اور جب سب کچھ ہو چکا ہے
تو میں پوچھنا چاہتا ہوں
غزل کہاں تھی؟
غزل تو وینٹیلیٹر پر لگی ہوئی تھی
گیلی روشنیوں میں
حقیقتوں کے سوا سب کچھ کھل گیا تھا
اس غیر صوفیانہ مجلس میں بھی
ایک خدا کیمرے کے پیچھے
اور ایک آگے کھڑا تھا
آدمی اصل میں اداکارہ تھی
سب سے مہنگی گھٹیا
وقت، کچھ نہ ہو تو سکڑا رہے
اور کچھ ہوجاۓ تو لمبا اور بڑا ہے
اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے
روشنی گیلی ہو کر
میرے آنکھوں میں جم سکتی ہے
میری آنکھیں نکال کر پھینک دو
کتے کے بچوں کو
میں ان کا شکر گزار ہوں
دھڑ دھڑ دھڑام ہوں
دو کلک کا غلام ہوں
اور جب سب کچھ ہو چکا ہے
تو میں پوچھنا چاہتا ہوں
غزل کہاں تھی؟
غزل تو وینٹیلیٹر پر لگی ہوئی تھی
میں اپنی مورتی چوم کر
اپنی تسبیح کر رہا ہوں
بھگوان کے لیے
میرے خدا کو چھوڑ دو میرے اندر
ورنہ خدا کے لیے
میں تمہاری دو روپے کی ایک
نروانی آنکھیں نوچ لوں گا
میں نوچنے والا درندہ ہوں
تم نے میری آنکھیں نہیں دیکھیں؟
میں نے اپنی بینائی کے ہاتھ کاٹ دیے
سالی، چور نکلی تھی بلاخر
ہاں تم بھی پھرو مصلوب بازاروں میں
سستے آلو ڈھونڈو
سبزی والا اصول معیشت کی
نماز پڑھ کر، منہ پر نور مل کر
نحوس نظروں سے
اپنے نادر خدا کی ہڈیاں بیچ رہا ہے
بیکری میں کچھ غلامیاں سجی ہوئی ہیں
اپنے موسیٰ کے انتظار میں
گھر میں ٹی وی میں بھی
کچھ غلامیاں ناچ رہی تھیں
میں ٹی وی کے آگے بے ڈھنگا تھرک کر
ٹی وی کو سجدہ ٹھونک کر سو جاتا ہوں
وہ دیکھو سڑک پر ہر جگہ مائیں
دھوپ میں سڑی کالی جعلی
اپنے بچوں کو خود سے ادھیڑ کر
معاشرے کے کوڑے دان میں ڈال رہی ہیں
میں ان کے پیر چومتا ہوں
اسی منہ سے جس سے
صبح اپنی مورتی چومتا ہوں
میں ہر ایک چیز میں اسکا مطلوب خدا
پھونک سکتا ہوں
میں کتنے ہی عیسیٰ
ڈکار بیٹھا ہوں
مگر سوال یہ ہے کہ سارا دن
غزل کہاں تھی؟
غزل تو وینٹیلیٹر پر لگی ہوئی ہے
اپنی تسبیح کر رہا ہوں
بھگوان کے لیے
میرے خدا کو چھوڑ دو میرے اندر
ورنہ خدا کے لیے
میں تمہاری دو روپے کی ایک
نروانی آنکھیں نوچ لوں گا
میں نوچنے والا درندہ ہوں
تم نے میری آنکھیں نہیں دیکھیں؟
میں نے اپنی بینائی کے ہاتھ کاٹ دیے
سالی، چور نکلی تھی بلاخر
ہاں تم بھی پھرو مصلوب بازاروں میں
سستے آلو ڈھونڈو
سبزی والا اصول معیشت کی
نماز پڑھ کر، منہ پر نور مل کر
نحوس نظروں سے
اپنے نادر خدا کی ہڈیاں بیچ رہا ہے
بیکری میں کچھ غلامیاں سجی ہوئی ہیں
اپنے موسیٰ کے انتظار میں
گھر میں ٹی وی میں بھی
کچھ غلامیاں ناچ رہی تھیں
میں ٹی وی کے آگے بے ڈھنگا تھرک کر
ٹی وی کو سجدہ ٹھونک کر سو جاتا ہوں
وہ دیکھو سڑک پر ہر جگہ مائیں
دھوپ میں سڑی کالی جعلی
اپنے بچوں کو خود سے ادھیڑ کر
معاشرے کے کوڑے دان میں ڈال رہی ہیں
میں ان کے پیر چومتا ہوں
اسی منہ سے جس سے
صبح اپنی مورتی چومتا ہوں
میں ہر ایک چیز میں اسکا مطلوب خدا
پھونک سکتا ہوں
میں کتنے ہی عیسیٰ
ڈکار بیٹھا ہوں
مگر سوال یہ ہے کہ سارا دن
غزل کہاں تھی؟
غزل تو وینٹیلیٹر پر لگی ہوئی ہے
میں اپنا مرا ہوا باپ
اور اس کا زندہ جسم
انتیس سال تک گھسیٹ کر لایا ہوں
آگے بھی لےجاؤں گا
خبردار میری مدد نہ کرنا
اس کو بیچ کر منافع ملے گا مجھے
میں اپنے باپ کی لاش بانٹ نہیں سکتا
تمہیں اپنے بچپن میں جا کر
اپنا باپ مارنا پڑے گا
یا دیکھو میرے باپ کی قیمتی لاش
جسے کھا کھا کر میں بڑا ہوا ہوں
اسی کو پہن کر میں سردیوں میں
جم کر کئی دفعہ
مر چکا ہوں
وہ تو بھلا ہو میرے سینے کا
جو مریم بن گیا
دھڑ دھڑ دھڑام
عیسیٰ اوپر عیسیٰ جن گیا
ورنہ میرے باپ نے مر کر
مجھے یک بعد دیگرے
مارنے میں کسر تو نہیں چھوڑی تھی
مگر تم پیٹو تالیاں
اور میں ان تالیوں سے پوچھتا ہوں
غزل کہاں تھی؟
غزل جھوٹ بول رہی تھی
جمالیاتی جھوٹ
اور اس کا زندہ جسم
انتیس سال تک گھسیٹ کر لایا ہوں
آگے بھی لےجاؤں گا
خبردار میری مدد نہ کرنا
اس کو بیچ کر منافع ملے گا مجھے
میں اپنے باپ کی لاش بانٹ نہیں سکتا
تمہیں اپنے بچپن میں جا کر
اپنا باپ مارنا پڑے گا
یا دیکھو میرے باپ کی قیمتی لاش
جسے کھا کھا کر میں بڑا ہوا ہوں
اسی کو پہن کر میں سردیوں میں
جم کر کئی دفعہ
مر چکا ہوں
وہ تو بھلا ہو میرے سینے کا
جو مریم بن گیا
دھڑ دھڑ دھڑام
عیسیٰ اوپر عیسیٰ جن گیا
ورنہ میرے باپ نے مر کر
مجھے یک بعد دیگرے
مارنے میں کسر تو نہیں چھوڑی تھی
مگر تم پیٹو تالیاں
اور میں ان تالیوں سے پوچھتا ہوں
غزل کہاں تھی؟
غزل جھوٹ بول رہی تھی
جمالیاتی جھوٹ
یہ جو لکھ رہے ہیں نا آج کل غزلیں
یہ سچ چھپانے میں لگے ہوئے ہیں
غزل کا پاؤں پھسل گیا تھا
وہ مردہ دماغ زندہ دل
وینٹیلیٹر پر لگی ہوئی ہے
اس کا شاعر موضوعات کو پھینٹ کر
مرہم لگا رہا ہے
جھوٹ بول رہا
غزل مر گئی ہے
میرے خداؤں کی طرح
میرے باپ کی طرح
غزل مر گئی ہے
یہ سچ چھپانے میں لگے ہوئے ہیں
غزل کا پاؤں پھسل گیا تھا
وہ مردہ دماغ زندہ دل
وینٹیلیٹر پر لگی ہوئی ہے
اس کا شاعر موضوعات کو پھینٹ کر
مرہم لگا رہا ہے
جھوٹ بول رہا
غزل مر گئی ہے
میرے خداؤں کی طرح
میرے باپ کی طرح
غزل مر گئی ہے
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/6″]
[/vc_column][/vc_row]