یہ عالم اپنی تنہائی کی ہیبت سے بھرا ہے
ہمیں دیوار و در کا خوف ورثے میں ملا ہے
ہے کوئی زخم شاید اسکی پیشانی کا تعویذ
مرا مرکب ندی میں چلتے چلتے جھانکتا ہے
وہ مدھم روشنی ہے پھر حویلی کے کھنڈر میں
اور اسکی اوٹ سے کوئی پرندہ کوکتا ہے
توانائی ہے ان ہاتھوں میں حرفِ نارسا کی
لہو کی روشنائی سے قلم چلنے لگا ہے
یہ آئینہ چمک اُٹھے گا یکسر چُور ہو کر
اندھیرا جس کے سربستہ تبسم میں کٹا ہے
جو دریا راستہ تبدیل کرنا چاہتا تھا
سمندر ہے کہیں ساحل کے پہلو میں بچھا ہے
سفر ہے نیلگوں پانی میں گہرائی کی جانب
مرے حصے کا ساحل میری مُٹّھی میں دبا ہے
(Published in The Laaltain – Issue 7)