صبح اپنے محلِ روزگار پہنچے تو معلوم ہوا کہ جناب اجمل کمال کے موقر جریدہ "آج” کی کاپیاں منگل کے روز سے ہمارے نام کی ڈاک سے آئی پڑی تھیں۔ یہ بات تو معروف ہے کہ "آج” دو جلدوں میں آتا ہے۔ جیسے ہی پیکنگ کھولی تو ہاتھوں کی انگلیاں اور نظریں ایک جلد کے ایک صفحے پر بس رک سی گئیں۔ ایک نظم پڑھی تو کُھبتے ہی چلے گئے۔ نظروں اور دل کی دعوت کا یہ سامان ابو عمش کی جانب سے عربی شاعرہ غادہ السمّان کے مجموعۂِ شاعری "الابدیہ لحظہ حب” (ابدیت لمحۂِ محبت ہے) سے منتخب نظموں کے تراجم تھے۔ کیا دیکھا، اب آپ کو ساتھ لئے چلتے ہیں۔

ان پر انگریزی ادب کا واضح اثر مختلف نظموں میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ اثر روایت کے اقبال کا بھی ہے اور اپنے ما فی الضمیر اور تخیل کے ابلاغ کے لئے مختلف افسانوی کرداروں سے استعانت لینے کا بھی
غادہ السمّان 1942 میں شام کے شہر دمشق میں شامی یونیورسٹی کے سربراہ احمدالسمّان کے گھرانہ میں پیدا ہوئیں۔ غادہ کو والد کی عربی اور انگریزی ادب میں گہری دلچسپی ورثہ میں ملی۔ ملکِ شام کا گھٹن زدہ ماحول غادہ کو لبنان لے آیا جہاں سے انہوں نے امریکن یونیورسٹی بیروت سے تھیٹر میں ایم اے کیا اور یہیں کی ہو رہیں۔ بعد میں بطورِ صحافی کام شروع کیا تو بحیثیتِ نامہ نگار یورپ کے متعدد ملکوں کا سفر بھی کیا۔ ان کی مختلف کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ان کی آپ بیتی، کہانیوں کے مجموعے، ناول اور نظموں کے مجموعے بھی شامل ہیں۔

ان کی منتخب ترجمہ شدہ نظموں میں یوں تو موضوعات کا تنوع بھی موجود ہے لیکن کچھ منظر و موضوعات باربار آنکھوں کے سامنے جھلکتے ہیں۔ ان پر انگریزی ادب کا واضح اثر مختلف نظموں میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ اثر روایت کے اقبال کا بھی ہے اور اپنے ما فی الضمیر اور تخیل کے ابلاغ کے لئے مختلف افسانوی کرداروں سے استعانت لینے کا بھی۔ وہ بائبل کی روایت میں پیدائش (Genesis) کے موضوع کو دیکھتی ہیں۔ جیسا کہ ان کی نظم "محبت اور سیب” میں وہ پیدائش کے وقت کو اپنے سے انداز میں پیش کرتی ہیں جس میں سے چند سطریں مندرجہ بالا نظم سے ملاحظہ کیجئے:

"ہم سیب کے اولین دانتوں سے بھاگ نکلے ہیں
ہاں، یہ سبز سیب ہی سب سے بڑا دانت ہے
لوگ اسے ‘ندامت’ کہتے ہیں،
کسی شارک کی طرح یہ ہمیں کاٹ نہ لے۔”

شارک کا استعارہ ان کی نظموں میں بار بار سامنے آتا ہے جو ان کے کسی گہرے خوف کا عکاس دکھائی دیتا ہے۔

آزادی ان کے لئے منزل کے ساتھ ساتھ نشانِ منزل کا درجہ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر نظم "عاشقہ جسے آزادی کی طرف جلا وطن کر دیا گیا” کی کچھ سطریں پیشِ نظر رہیں:

"اگر تم خلا نورد ہو
تو پھر میں تمہیں اپنے چاند پر آنے کی دعوت دیتی ہوں

میں تمہیں ایک ایسی عورت کی کہانی سُناؤں گی
جس کے پَروں کو لوگوں نے کاٹ دیا تھا
اور وہ تاریکی میں چُھپی لہولہان ہوتی رہی
اسی روز سے اس عورت نے تمہاری طرح پرواز کرنا سیکھ لیا ہے
اسی روز سے ساری فضا اس کا قید خانہ ہے
اور آزادی اس کی جلا وطنی کا مسکن ۔”

اور اسی طرح آزادی کا تصور، اس کی کیفیت کہ یہ ڈِبوں میں بند کر کے بطور پارسل کسی کو نہیں دی جا سکتی، اور بحیثیت مجموعی اس کی شیئیت پہ سوال قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک بیش قدر سرمایہ کے طور پر نظم "لبنان سے لبنان تک” کی ان سطروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ آزادی پر چھائے فکری مہیب ادارہ جاتی اور شخصی سایوں، اور اپنے طبعی ماحولیاتی شعور کا منظرنامہ بھی پیش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

” میں تجھے اس عید پر کیا تحفہ دوں؟
میں تجھے ایسے جنگل تحفے میں دوں گی جن کے درخت سیمنٹ والے جنگلوں سے نہ تبدیل کئے گئے ہوں۰۰۰

میں تجھے ادیبوں کے قہوہ خانے تحفے میں دوں گی
جہاں دیواروں کے کان نہیں ہوتے۔
مکالماتی محفلیں جن میں "اپنے آپ میں مگن” مرغ نہ ہوں،
جن میں کوئی الہامی فکری سُورما نہ ہو۔

میں تجھے عید پر دولت جہاں کی بجائے راحتِ جاں کا تحفہ دوں گی،
میں تجھے بیک وقت بیداری اور فراموشی کے تحفے دوں گی،
کاش میں تجھے کائنات کا بہترین تحفہ دے سکوں : آزادی۰۰۰آزادی۰۰۰آزادی۰۰۰
لیکن صرف آزادی ہی ہے جو ڈِبوں میں بند ہونے،
ان پر رنگین ریشمی رِبن لپیٹنے
اور پھر خود کو تحفے میں پیش کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔
آزادی دی نہیں جاتی،آزادی پر لازم ہے وہ تیرے ساحلوں، پہاڑوں اور وادیوں میں پُھوٹے۰۰۰
کیا تُو اس کی دیکھ بھال کر سکے گا؟
اب بھلا میری طرح، تُو اپنے عُشّاق کو کیا تحفہ دے گا؟
گولی؟”

وہ آزادی کی طرف پُر اعتماد انداز سے قدم بڑھاتی ہیں۔ سوال قائم کرنے کی خُو اور جرات، اپنی تشکیل شدہ، سماجی و معاشرتی عطا کردہ حیثیت کے سامنے ڈٹ جانے کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ وہ "کیوں” کا محاسباتی سوال قائم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پیشِ خدمت ہیں نظم "بیروت اور عنکبوتِ آرزو” کی یہ چند سطریں:

"کیوں تمہارے حصے میں چار پُھول ہیں، اور میرے حصے میں ان کے کانٹے؟
کیوں تمہارے ہاتھ کے واسطے قوس، کمان اور تیر ہیں، اور میرے واسطے تمہارے لئے صرف تالی بجانا؟
کیوں تمہارے لئے کُھلی فضا ہے اور میرے لئے قفس،
حالانکہ میرے پَر طوفانوں کے اسرار کے سامنے لمبائی اور طاقت میں تمہارے پَروں سے کسی طور کم نہیں؟”

اسی آزادی کے تصور کے ساتھ وہ ‘حُزن’ کو اپنی نظم "لڑکی کی عزیز ترین ملکیت” میں دو اہم ملکیتیں گردانتی ہیں۔
اسی آزادی کے تصور کے ساتھ وہ ‘حُزن’ کو اپنی نظم "لڑکی کی عزیز ترین ملکیت” میں دو اہم ملکیتیں گردانتی ہیں۔ ان ملکیتوں کو وہ جان سے لگا کر رکھنے کا باقاعدہ اعلان کرتی ہیں، حتٰی کہ اپنی وابستگی کی قیمت پر بھی انہیں وہ کسی اور کو سونپنے کو تیار نہیں دِکھتیں۔

"پہاڑ کی چوٹی پر میرا حُزن تنہا دیودار ہے

میرا حُزن میری روح کے غاروں میں موجود میرا پوشیدہ چمن زار ہے،
سو حُزن ہی، آزادی کی مانند، لڑکی کی عزیز ترین ملکیت ہے
لیکن میں تمہیں ان دونوں میں شریک نہیں کروں گی!
میں تمہیں نان اور کوخ میں شریک کر سکتی ہوں،
جہاں تک حُزن اور آزادی کا معاملہ ہے تو موت کی مانند
یہ دونوں صرف اور صرف میرے دل کی ملکیت ہیں۔”

انہیں اپنی طاقت کا بھی ادراک ہے۔ وہ وابستگی چاہتی ہیں، لیکن ایسے انداز سے کہ جس میں وہ ایک مجہول تشخص کی حامل نا ہوں۔ بلکہ وہ شرائط کے تعین کے عمل میں اپنے ایک اپنے لئے ایک متحرک کردار کو ضروری سمجھتی ہیں۔ حوالے کے طور پر ذیل کی دو نظموں "تمہاری آہیں بھرتی ہوں” اور "محبت فراق کا فن ہے” بالترتیب کی ان ذیل کی سطور کو دیکھنا مددگار ہوسکتا ہے:

"تُم صفحۂِ گزشتہ پر موجود آخری سطر کا آخری نقطہ نہیں ہو۔
تُم نئے سفید کاغذ پر موجود نئی سطر کا نادر لفظ ہو۔
مجھے اوڑھ لو،
پھر تُم کبھی خود کو کسی اسطوری بادشاہ کی طرح عُریاں نہ پاؤ گے۔”

"محبت فِراق کا فن ہے” نظم میں سے یہ سطور لائقِ توجہ ہیں:

"تم عبث مجھے روکتے ہو،
مجھے محبت کی پِن کے ساتھ اپنی دیوار سے ٹانک دیتے ہو تاکہ میں ٹھہر جاؤں۰۰۰
میں عنقریب فرار ہو جاؤں گی،
اور تمہاری انگلیوں پہ، کسی بھی دوسرے پروانے کی مانند،
اپنا رنگ دار سنہری غبار چھوڑ جاؤں گی۔
گزرتے برسوں میں میں نے جان لیا ہے،
کس طرح میں ایک عرب عورت سے بدل کر ہواؤں میں ڈھل رہی ہوں،
ایسی ہواؤں میں جنہیں سلاخیں قید نہیں رکھ سکتیں۰۰۰۔”

لکھنا اور اپنے تخیل کو ضبطِ تحریر میں لانا، ان کی جانب سے اپنی ذات کے شعور کا قائم مقام ہے۔ اس سے انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔
لکھنا اور اپنے تخیل کو ضبطِ تحریر میں لانا، ان کی جانب سے اپنی ذات کے شعور کا قائم مقام ہے۔ اس سے انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ تحریر ان کی آزادی کی جنگ کا نعرۂِ بلند آہنگ ہے۔ ان کی جنگ معاشرت میں عورت کے لئے تشکیلی حیثیتوں اور قدروں سے ہے۔ جن کو ماننے سے منکر و کافر ہیں۔ مثال کے طور پر نظم ” مردِ بے شمار سے مکالمہ” میں غادہ واضح کرتی ہیں کہ:

"جب میں غلطی سے اس سیارے پر آ گری،
تو مجھے معلوم ہوا
کہ میرے حقوق کھانے، پینے، بچے پیدا کرنےاور موت سے زیادہ نہیں،
سو میں نے فیصلہ کیا
کہ میں ان حقوق میں اپنے پرواز کرنے کے حق کا اضافہ کروں گی!
میں لکھوں گی۰۰۰”

یہ چند چیدہ چیدہ موضوعات ہیں جن کو اس جگہ عرضِ تحریر میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غادہ السمّان کی شاعری آپ کو جھنجھوڑنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ترجمہ کار کا فن میں لائقِ داد و تحسین ہے۔ مضمون کی مزید طوالت سے بچنے کے لئے ہم یہ کہنا ضروری سمجھ رہے ہیں کہ غادہ السّمان کی شاعری میں نئے عہد کی ایک توانا عورت کا شعور قدم بہ قدم موجود ہے۔ یہ شعور ان کی کمزوری نہیں بنتا بلکہ ان کو دِگر کرتے حالات سے ماوراء ہونے کی طاقت دیتے محسوس ہوتا ہے۔ ان کی نظموں میں ان موضوعات کے علاوہ ان کا شام سے ہجرت کا شعور، لبنان و بیروت کی بعد از ہجرت زندگی، دنیا کے مختلف اہم شہروں میں گزاری ازندگی اور اپنے ترک کردہ وطن کی یادیں بھی توانا حوالوں کے طور پر جا بہ جا موجود ملتی ہیں۔

Leave a Reply