Laaltain

عید وعید

18 جولائی، 2015
Picture of ارشد علی

ارشد علی

ناشتہ میں ایک سہولت جو اس ہوٹل سے مخصوص تھی کہ یہاں ناشتہ کرتے ہر شخص کو صرف پراٹھوں کی ادائیگی کرنا ہوتی اور اس قیمت میں سالن مفت مل جاتا ، سو ہوٹل پر صبح سویرے تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی ۔ رمضان شروع ہوا تو بھی یہی صورت حال تھی۔ پہلے روزے کو جب سحری کرنے ہوٹل پہنچے اور خاصے انتظار کے بعد بیٹھنے کو جگہ ملی تو وقت کی کمی کے باعث فوراً مطلوبہ پراٹھوں کا تقاضہ کیا اور جلدی کی تاکید کی۔اگلے ہی پل پراٹھے تو ہمارے سامنے تھے مگر اب ہم تمام ہی بت بنے سالن کا انتظار کرنے لگے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے کہ بیرے کو بھی آج ہی بھولنا تھا ۔۔ خیر چند منٹ انتظار کے بعد غصے کی شدت کے باوجود احترام رمضان میں انتہائی ادب سے بیرے کی اس جانب توجہ دلائی۔ پر شاید اس سوال سے اکتایا بیٹھا تھا، بھنائے ہوئے انداز میں کہنے لگا، “روٹی کے ساتھ مفت سالن نہیں ملے گا پتہ نہیں رمضان ہے ۔”
رمضان چونکہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور اس ماہ مبارک میں کئی کئی گنا ثواب ملتا ہے تو اگر نیکی کا معاوضہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے تو باقی کسی چیز کے معاوضے میں گرانی سے ہمیں تکلیف کیسی ؟
ایک بار تو ہمیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا مگر اگلے ہی پل سمجھ گئے کہ رمضان چونکہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور اس ماہ مبارک میں کئی کئی گنا ثواب ملتا ہے تو اگر نیکی کا معاوضہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے تو باقی کسی چیز کے معاوضے میں گرانی سے ہمیں تکلیف کیسی ؟ اضافے کا علم تو تبھی ہو گا نہ جب یہ اضافہ مادی و غیرمادی ہر سطح پر اپنے ثبوت فراہم کرے ۔ا س کے بعد تو تمام رمضان ہم برضا ورغبت تین کی قیمت میں ایک سے استفادہ کرتے رہے اور شکر بجالاتے رہے کہ چلو ہماری وجہ سے بھی کوئی برکتیں سمیٹ رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر اعزاز کیا ہوگا ہم جیسے گناہ گار کے لیے کہ سحری میں بھی تین گنا ناشتے کی رقم ادا کرتے ہیں اور افطار میں بھی؟ اورہوٹل ہی کیا اس صورتحال نے زندگی کے ہر ہر شعبے کو متاثر کیے رکھا۔ چھابڑی والے سے لےکر منڈیوں میں موجود آڑھتیوں تک، دو کیاریوں میں سبزیاں لگانے والے سے لےکر بڑے زمین داروں اور کاشت کاروں تک، چوک میں بیٹھ کر جوتیاں گانٹھنے والے سے لےکر بڑے بڑے شاپنگ مالز میں سجی سنوری دکانوں میں جوتیاں بیچنے والوں تک، کسی روڈ کنارے جانگیے بیچنے والوں سے لےکر بڑے بڑے بوتیک کے مالکان تک سب ہی رمضان کی برکتیں سمیٹنے میں ایسے مصروف ہوئے جیسے واقعتاً یہ ان کی زندگی کا آخری رمضان ہے اور شاید قسمت میں آئندہ یہ مبارک گھڑیاں اور ساعتیں نہ ہوں گی۔ برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کے اس عمل میں، میں اور مجھ جیسے کئی صرف وہ کردار ادا کرتے رہے جس کے طفیل ان رحمتوں اور برکتوں کا حصول ممکن ہوا۔ اس پر بھی دن میں رب کا شکر بجا لاتے اور راتوں کو اٹھ کر روتے کرلاتے اور جگراتے کرتے کہ کہیں ہم سے کوئی کمی نہ رہ گئی ہو۔ پر باری تعالیٰ غفور، رحیم اور معاف کرنے والا ہے اس کی رحمت سے کسی صورت مایوس نہیں ہونا چاہیے یہی ڈھارس ہمیں سنبھالے رہی۔
سالن کی پلیٹ کا بغیر آرڈر دئیے ہماری میز پر پہنچنا یہ اعلان کرنے کو کافی تھا کہ رحمتوں اور برکتوں کا یہ ماہ ہم سے رخصت ہورہا ہے۔
آج صبح بھی حسب معمول سحری کرنے ہوٹل پہنچے۔ آملیٹ و پراٹھوں کی بابت آرڈر کرنے کے بعد انتظار کرنے لگے کہ میز پر ہمارے سامنے سالن بھی چن دیا گیا۔ مارے حیرت کے ایک بار پھر ہماری سیٹی گم ہوگئی۔ دل غم کی شدت سے پھٹنے لگا۔ سالن کی پلیٹ کا بغیر آرڈر دئیے ہماری میز پر پہنچنا یہ اعلان کرنے کو کافی تھا کہ رحمتوں اور برکتوں کا یہ ماہ ہم سے رخصت ہورہا ہے۔ ابھی غم کی اس کیفیت میں تھے اور اس سے نکلنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ ایک احساس نے جسم و جاں میں تازگی بھر دی اور سرشاری ہی سرشاری محسوس ہونے لگی۔ وہ احساس تھا ماہ مقدس کے اختتام پر عید کا مبارک تحفہ ملنے کا۔ عید کے تحفے سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ ہم جو سارا سال رونی صورت بنائے الگ تھلگ زندگی کرتے ہیں اور ہم سے کسی کو بھی اچھے بول کی امید و توقع نہیں ہوتی اس موقع پر ہم بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کو مبارک دیں گے ۔
سو میری جانب سے تمام اہلیان (اس میں اہلیان خانہ سے لیکر اہلیان وطن ، اہلیان ایمان ، اہلیان اسلام ، اہلیان امت، اہلیان الم غلم وغیرہ وغیرہ سب شامل ہیں) کو عید کی دلی مبارک باد ۔۔ ۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ان حالات میں یہ میری اور آپ کی آخری عید ہو مگر روایت کہ ہاتھوں مجبور ہیں سو آپ کی قسمت میں ایسی ہزاروں عیدیں ہوں۔ بس اتنی مان لیں اور یہ کوشش کر لیں کہ یہ ہزاروں جتنی بھی عیدیں آپ کو نصیب ہونا ہوں اس والی سے کم بدتر ہوں۔
عید مبارک

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *