اپنے شوہر کے بیرون ملک جانے کے بعد مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ تحفظ اور دیکھ بھال کے نام پر ہمارے باپ، بھائی اور شوہر ہمارے ساتھ کس قدر ناانصافی کرتے ہیں۔ پاوں چلنے سے لے کر گاڑی چلانے تک مجھے اور ہر عورت کو مرد کا محتاج بنانے کا نامحسوس عمل ہر عورت کی آزادی اور خود مختاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ میں اپنے والد، بھائیوں اور اپنے شوہر کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے زندگی میرے لیے آسان بنائی ہے لیکن اس آسانی اور سہولت نے مجھے کم زور کیا ہے۔ ہو سکتا ہے مجھے اس کم زوری اور بے بسی کا کبھی احساس نہیں ہوتا لیکن اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں روزانہ صبح بچوں کو سکول لانے اور لے جانے کی ذمہ داری آن پڑتے ہی مجھے احساس ہوا کہ سڑک عورت کا احترام نہیں کرتی۔ سڑک پر گاڑی چلاتے وقت ہر اشارہ، ہر موڑ، ہر گاڑی اور ہر فرد مجھے اور ہر عورت کو ایک ناکام ڈرائیور سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ عورتیں گاڑی چلانا چھوڑدیں۔
خود سکول جانے سے لے کر اپنے بچوں کو سکول بھجوانے تک محرم مرد کی محتاجی نے میرے اعتماد اور قوت فیصلہ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور مجھے سڑک پرنادانستہ طور پر ہمیشہ ایک سہارے کا محتاج کر دیا ہے۔ میں37 برس کی ہونے کے باوجود نا چاہتے ہوئے بھی گھر سے نکلنے، اکیلے جانے اور گاڑی چلانے میں خوف محسوس کرتی ہوں۔ یہ خوف پرورش کے دوران ہم عورتوں کی ہڈیوں کے گودے تک بٹھا دیا گیا ہے اور دنیا خاص کر سڑک اور بازار کو ہمارے لیے اس قدر اجنبی کر دیا گیا ہے کہ اب دن کی روشنی میں خالی سڑک پر بھی یہی خوف رہتا ہے کہ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے۔ یقین جانیے کہ میرا آٹھ سالہ بیٹا سڑک پر مجھ سے زیادہ بے خوف اور نڈر ہےاور ٹریفک کی بہتر سوجھ بوجھ رکھتا ہے،اور تشویش اس بات کی ہے کہ میری بیٹی بھی میرا یہ خوف اپنا چکی ہے جو ہم سب عورتوں کا مشترکہ خوف ہے۔یہی وہ خوف ہے جو گھر سے سڑک اور سڑک سے پارلیمان تک ہر عورت کی نسوں میں اتار دیا گیا ہے۔
خود سکول جانے سے لے کر اپنے بچوں کو سکول بھجوانے تک محرم مرد کی محتاجی نے میرے اعتماد اور قوت فیصلہ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور مجھے سڑک پرنادانستہ طور پر ہمیشہ ایک سہارے کا محتاج کر دیا ہے۔ میں37 برس کی ہونے کے باوجود نا چاہتے ہوئے بھی گھر سے نکلنے، اکیلے جانے اور گاڑی چلانے میں خوف محسوس کرتی ہوں۔ یہ خوف پرورش کے دوران ہم عورتوں کی ہڈیوں کے گودے تک بٹھا دیا گیا ہے اور دنیا خاص کر سڑک اور بازار کو ہمارے لیے اس قدر اجنبی کر دیا گیا ہے کہ اب دن کی روشنی میں خالی سڑک پر بھی یہی خوف رہتا ہے کہ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے۔ یقین جانیے کہ میرا آٹھ سالہ بیٹا سڑک پر مجھ سے زیادہ بے خوف اور نڈر ہےاور ٹریفک کی بہتر سوجھ بوجھ رکھتا ہے،اور تشویش اس بات کی ہے کہ میری بیٹی بھی میرا یہ خوف اپنا چکی ہے جو ہم سب عورتوں کا مشترکہ خوف ہے۔یہی وہ خوف ہے جو گھر سے سڑک اور سڑک سے پارلیمان تک ہر عورت کی نسوں میں اتار دیا گیا ہے۔
یہ صرف سعودی عرب نہیں جہاں عورت کا گاڑی چلانا ممنوع ہے بلکہ دنیا کے ہر معاشرے میں عورت کی ڈرائیونگ کے حوالے سے لطائف، ٹیبوز، مردانہ شرافت کے معیارات (Male Chivalry) اور پدرسری روایات کی صورت میں غیر رسمی پابندیاں اور رکاوٹیں موجود ہیں۔
میں اپنے خاندان کی اس نسل کی نمائندہ ہوں جنہوں نے پہلی بار ڈگری حاصل کی، شناختی کارڈ بنوائے، نکاح نامے پر انگوٹھا لگانے کی بجائے دستخط کیے اور ڈرائیونگ لائسنس بنوایا لیکن میں اپنے خاندان کی پہلی خود مختار اور پراعتماد عورت بننے میں ناکام رہی ہوں۔ میں اپنے سرپرست مردوں کے باعث ایک مکمل عورت اور ایک خود مختار انسان بننے میں ناکام رہی ہوں۔ یہ صرف سعودی عرب نہیں جہاں عورت کا گاڑی چلانا ممنوع ہے بلکہ دنیا کے ہر معاشرے میں عورت کی ڈرائیونگ کے حوالے سے لطائف، ٹیبوز، مردانہ شرافت کے معیارات (Male Chivalry) اور پدرسری روایات کی صورت میں غیر رسمی پابندیاں اور رکاوٹیں موجود ہیں۔ ایک خاتون ڈرائیور کو جس قدر دباو اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مرد ڈرائیور کبھی نہ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی برداشت کرسکتے ہیں۔
سڑک پر حادثہ ہو یا ٹریفک جام ہر مردڈرائیور اور رہگیر ہمارے خوف میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جب بھی کہیں کوئی خاتون ڈرائیور نظر آئے تو شیشوں سے جھانکنا، غیر ضروری ہارن بجانا، غلط اشارہ(Indicator) دینا، آنکھوں میں تیز روشنی ڈالنا، آوازے کسنا، تمسخر کرنا اور بد حواس کرنا شاید بیشتر مرد ڈرائیوروں کی عادت ہے جو عورت کی آزادانہ نقل و حرکت اور پراعتماد ڈرائیونگ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جنید جمشید اور طارق جمیل ہی کی طرح یہ مرد حضرات جو سڑک پر عورت کو ناکام ثابت کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کرتے ہیں عورت کے ازلی خوف اور بے بسی کے ذمہ دار ہیں۔ایک عورت کی بری ڈرائیونگ کے پیچھے اس کا عورت ہونا نہیں بلکہ پیدائش سے موت تک اس کی نقل و حرکت پر عائد وہ پابندیاں ہیں جو اسے اکیلے آنے جانے، میل جول رکھنے اور فیصلے کرنے سے روکتی ہیں۔ عورت کے "ناقص ڈرائیور” ہونے کی وجہ اس کا مردوں کے کہے کے مطابق "ناقص العقل” ہونا نہیں بلکہ وہ روایات ہیں جو عورت کی خّد مختاری کی نفی کرتی ہیں اور دنیا خصوصاً سڑک کو اس کے لیے غیر محفوظ بناتی ہیں۔ آپ ایک ایسی عورت سے جسے زندگی بھر اکیلے آنےجانے، تنہا گھومنے پھرنے اور سائیکل، موٹر سائیکل چلانے یا سڑک پار کرنے کا موقع نہیں ملا ، سے پہلے ہی روز سٹیئرنگ سبھالتے ہی ایک ایسے مرد جیسا اچھا ڈرائیور ہونے کا تقاضا نہیں کرسکتے جسے ہوش سنبھالتے ہی نقل و حرکت کی مکمل آزادی ملی ہو۔ عورت ناکام ڈرائیور نہیں وہ پدر سری روایات ناکام ڈرائیور ہیں جو عورت کو نقل و حرکت کے لیے مرد کا محتاج بناتی ہیں اور اس کے اکیلے اپنے طور پرآنے جانے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔
سڑک پر حادثہ ہو یا ٹریفک جام ہر مردڈرائیور اور رہگیر ہمارے خوف میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جب بھی کہیں کوئی خاتون ڈرائیور نظر آئے تو شیشوں سے جھانکنا، غیر ضروری ہارن بجانا، غلط اشارہ(Indicator) دینا، آنکھوں میں تیز روشنی ڈالنا، آوازے کسنا، تمسخر کرنا اور بد حواس کرنا شاید بیشتر مرد ڈرائیوروں کی عادت ہے جو عورت کی آزادانہ نقل و حرکت اور پراعتماد ڈرائیونگ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جنید جمشید اور طارق جمیل ہی کی طرح یہ مرد حضرات جو سڑک پر عورت کو ناکام ثابت کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کرتے ہیں عورت کے ازلی خوف اور بے بسی کے ذمہ دار ہیں۔ایک عورت کی بری ڈرائیونگ کے پیچھے اس کا عورت ہونا نہیں بلکہ پیدائش سے موت تک اس کی نقل و حرکت پر عائد وہ پابندیاں ہیں جو اسے اکیلے آنے جانے، میل جول رکھنے اور فیصلے کرنے سے روکتی ہیں۔ عورت کے "ناقص ڈرائیور” ہونے کی وجہ اس کا مردوں کے کہے کے مطابق "ناقص العقل” ہونا نہیں بلکہ وہ روایات ہیں جو عورت کی خّد مختاری کی نفی کرتی ہیں اور دنیا خصوصاً سڑک کو اس کے لیے غیر محفوظ بناتی ہیں۔ آپ ایک ایسی عورت سے جسے زندگی بھر اکیلے آنےجانے، تنہا گھومنے پھرنے اور سائیکل، موٹر سائیکل چلانے یا سڑک پار کرنے کا موقع نہیں ملا ، سے پہلے ہی روز سٹیئرنگ سبھالتے ہی ایک ایسے مرد جیسا اچھا ڈرائیور ہونے کا تقاضا نہیں کرسکتے جسے ہوش سنبھالتے ہی نقل و حرکت کی مکمل آزادی ملی ہو۔ عورت ناکام ڈرائیور نہیں وہ پدر سری روایات ناکام ڈرائیور ہیں جو عورت کو نقل و حرکت کے لیے مرد کا محتاج بناتی ہیں اور اس کے اکیلے اپنے طور پرآنے جانے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔
ایک عورت کی بری ڈرائیونگ کے پیچھے اس کا عورت ہونا نہیں بلکہ پیدائش سے موت تک اس کی نقل و حرکت پر عائد وہ پابندیاں ہیں جو اسے اکیلے آنے جانے، میل جول رکھنے اور فیصلے کرنے سے روکتی ہیں۔
پاکستان جیسے قدامت پسند معاشروں میں جہاں عورت کو سائیکل اور موٹر سائیکل چلانے کی آزادی نہیں وہاں عورت کو گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا کر یہ سمجھنا کہ وہ ہر سماجی دباو، معاشرتی پابندی اور مردانہ رویہ سے بے نیاز ہو کر گاڑی چلانا شروع کردے ایک خام خیالی ہے۔ ہمیں بچپن سے عورت کی نقل و حرکت پر عائد پابندیاں ختم کرتے ہوئے اپنی بیٹیوں کی بھی اپنے بیٹوں کی طرح حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ ہمیں گاڑی کے علاوہ، رکشہ، ٹیکسی، موٹر سائیکل، سائیکل، بس، ٹرک حتیٰ کہ ہوائی جہاز چلانے والی خواتین کی عادت ڈالنی ہے اور اس کے لیے اپنی بیٹیوں کو سائیکل دلانے اور پھر سڑک پر تنہا اسے چلانے کی حوصلہ افزائی بھی کرنا ہوگی۔
شمائلہ وقار کی بات درست ہے کہ ہمیں اپنی بچیوں کو سڑک کے خوف سے تنہائی کے خوف اور مذاق اڑائے جانے کے خوف سے نجات دلانا ہوگی۔ لیکن اس کے لیے ہمیں خود بھی بہادر بننا ہوگا۔ پہلی اینٹ ہمیں ہی رکھنی ہے اس خوف کو پرے دھکیلنے کے لیے۔ پہلی بات تو یہ کہ صنفی اور جنس کی بنا پر کیے جانے والے امتیاز کو ہمیں خود رد کرنا ہوگا۔ میں نے ڈرائیونگ سیکھنے اور باقاعدہ ڈرائیو کرنے کے ساتھ گاڑی کی ضروری مینٹیننس بھی سیکھی اور سڑک پہ بیٹھ کے ٹائر بدلنے یا پلگ وغیرہ کا کچرا صاف کرنا گاڑی کو دھکا لگا کے اسٹارٹ کرنے جیسے کام میں نے خود سیکھے اور کیے۔ بھلے ہی یہ معاشرہ مردمار عورت یا مردانی کا خطاب دے ہمیں خود کو عورت کے ٹھپے کے ساتھ پیچھے نہیں رہنے دینا ہے۔ جب ڈرائیونگ شروع کی ایک مرتبہ ایئرپورٹ کی طرف مڑتے ہوئے ماڈل ٹاؤن موڑ پر مجھے یو ٹرن لینا تھا میں نے انڈیکیٹر دیا اور گاڑی سائیڈ میں لے جانی شروع کی لیکن وہی کہ ایک صاحب نے خاتون ڈرائیور کو دیکھ کر اشارے بازی شروع کی اور سائیڈ مارکر اوور ٹیکنگ کی کوشش شروع کی لیکن میں نے ان کا دماغ درست کر دیا اور ان کے سے جارحانہ انداز مین ہی ان کو یہ جتایا کہ آنکھیں کھول کر انڈیکیٹر دیکھیں اور انسانوں کی طرح ڈرائیو کریں۔ مجھے آج تک ان کا بدحواس چہرہ اور حیرت سے کھلی آنکھیں یاد ہیں۔ وہ یہ توقع کر ہی نہیں سکتے تھے کہ کوئی عورت ان کو بنا ڈرے یہ جتا بھی سکتی ہے کہ وہ غلط ڈرائیو کر رہے ہیں اور ان کا رویہ غیر مناسب ہے۔ ہم درست ڈرائیو کر رہے ہیں اور تمام اسولوں کی پیروی کر رہے ہیں تو ہمیں کسی سے خوفزدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
True …. aik dm true
باقی سب تو سمجھ آتا ہے لیکن یہ یکایک طارق جمیل اور جنید جمشید کہاں سے آ گئے درمیان میں؟ موضوع اور مصنفہ کی راۓ سے اتفاق یا اختلاف ایک طرف لیکن دونوں اول اذکر افراد پر کس بات کا غصہ ہے مصنفہ کو؟ معاف کیجیے گا یہ حب علی سے زیادہ بغض معاویہ والا معاملہ لگتا ہے
میرے خیال میں مصنفہ کا اشارہ طارق جمیل اور جنید جمشید کی جانب سے عورت کی آزادانہ نقل و حمل کی جانب ہے جو عورت کی ڈرائیونگ اور اس کے آزادانہ آنے جانے کے خلاف ہیں۔ مصنفہ کا اشارہ مذکورہ اصحاب جو اعلانیہ عورت کے گاڑی اور دیگر سواریاں چلانے کے مخالف ہیں سمیت ان اصحاب کی جانب ہے جو اعلانیہ عورت کے اکیلے آنے جانے کی مخالفت تو نہیں کرتے مگر ان کا طرزعمل عورت کے لیے مشکلات کا باعث ضرور بنتا ہے۔