youth-yell-featured

آج کل پاکستان میں زبان زدِ عام لفظ عوام ہے ، ہر جلسہ اور ہر جلوس میں یہی لفظ سننے کو ملتا ہے۔ایسے لگتا ہےجیسے حکمرانوں اور تمام سیاست دانوں کو عوام سے دیرینہ محبت ہو گئی ہے ؛ کوئی عوام کے بل بوتے پر آزادی مارچ کرنا چاہتا ،کوئی عوام کی قربانیوں اور لاشوں سے گزر کر انقلاب لانا چاہتا ہےتو کوئی عوام کی خاطر جمہوریت کو بچانے کی دہائیاں دے رہا ہے،کوئی لندن سے ٹیلی فون پر عوام کی خاطر حکمرانوں اور انقلابیوںکونصیحتیں کر رہا ہے، کوئی عوام کو مشکلات سے بچانے کے لیے ہر ایک سے ملاقات کر رہا ہے ،کسی کو لگ رہایہی موقع عوام کو دوبارہ سائیکل پر سوار کر کے جھولا دینے کا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اس بار عید قربان سے پہلے ہی قربانی کرنا عوام کے لیے بہتر ہے۔حکومت کے خیال میں سب کی سوچ اور طرزِعمل غلط ہے ،صرف و ہی عوام کے محافظ سرپرست ہیں کیونکہ عوام نےانہیں 2013 کے انتخابات میں چنا ہے واضح منیڈیٹ دیا ہے۔ محترم وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ و ہی عوام کو بحرانون اور اندھیروں سے باہر نکال سکتے ہیں۔ گویا عوام ہر ایک کی سیاسی گاڑٰی کا ایندھن بن چکی ہے اور آج ہر ایک عوام کو استعمال کرتے ہوئےاپنی اپنی سیاست کا سکہ منوانا ہے۔
ایسے لگتا ہےجیسے حکمرانوں اور تمام سیاست دانوں کو عوام سے دیرینہ محبت ہو گئی ہے ؛ کوئی عوام کے بل بوتے پر آزادی مارچ کرنا چاہتا ،کوئی عوام کی قربانیوں اور لاشوں سے گزر کر انقلاب لانا چاہتا ہےتو کوئی عوام کی خاطر جمہوریت کو بچانے کی دہائیاں دے رہا ہے
ہر کوئی یہاں عوام کے لیے ہی کچھ نہ کچھ کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔ خان صاحب عوام کی خاطرالیکشن کمیشن کا نیا ڈھانچہ بنانا چاہتے ہیں اور عوام کے لیے ہی وزیرِاعظم سے استعفیٰ بھی مانگ رہے ہیں تو دوسری جانب قادری صاحب کا کہنا ہے کہ میں عوام کی خاطر انقلاب لاوں گا ایسا انقلاب جس میں ہر ایک کو نوکری ملے گی اس لیے انہوں نے پہلے ہی نوجوانوں کو نوید دے دی ہے کہ اپنی ڈگریاں سنبھال کر رکھیں اور انقلاب لانے میں میرے ساتھ چلیں۔۔ ان شخصیات کو یہ علم ضرور ہونا چاہیے کہ چراغ رگڑنے سے نظام تبدیل نہیں ہو گا اور نہ ہی انقلاب کوئی جن ہے جو بوتل کا ڈھکن کھولتے ہی سر زمینِ پاکستان کےسبھی مسائل حل ہو جائیں گے۔دوسری جانب عوام کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلانے کے لیے حکومت نے اس بار آزادی کی رنگا رنگ تقریبات لاکھوں کروڑں روپوں کو استعمال کرتے ہوئے منعقد کی ہیں اورعوام کو زور و شور سے جشنِ آزادی منانے کی تلقین کی ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام کے غمگسار اور درد بانٹنے کے دعویدار تو بہت ہیں لیکن پھر بھی عوام بد حالی کا شکار ہے۔ سبھی اپنی سیاست چمکانے کے لیے عوام کو اپنے ہی پاوں تلے روند رہا ہے ۔ امن و امان قائم رکھنے کے لئے عوام پر زندگی کے دروازےبند کر دیے گئے ہیں۔ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں تمام اہم راستے بھاری بھرکم کنٹینرز اور خاردار تاریں لگا کر بند کر دیئے گئے ہیں۔ پٹرول کی ترسیل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔راستوں پر کھڑی رکاوٹوں کے باعث تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور دفاتر تک جانا محال ہو گیا ہے۔ عوام کو سستی روٹی ملے نہ ملے البتہ ان کا تحفظ بہت مہنگے داموں کیا جا رہا ہے اس لیے پنجاب حکومت نے عوام کی حفاظت کےلیے پنجاب پولیس کو ۷۰ ملین روپے دئیے ہیں اور اسلام آباد کی لاڈلی عوام کی حفاظت کے لیے دفعہ245 نافذ کر دی گئی ہے۔اسلام آباد میں دفعہ144 نافذکر کے عین آزادی کے دنوں میں ہی عوام کی آزادی ان سے ضبط کر لی گئی ہے۔
اگر عوام سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اس قدر ہی عزیز ہےتو سب خدارا عوام کے لیے سوچئے،انقلاب اور تبدیلی کے لئے سڑکوں کی بجائے ووٹوں کا راستہ اختیار کیجئے۔منتخب حکومت کو عوام کے دیے گئے اختیارات کو احتجاج کا حق غصب کرنے کی بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اپوزیشن تو حکومت کی پالیسیوں پر احتجاج کرتی ہے دھرنے دیتی ہے اور یہی جمہوریت کی خوبصورتی بھی ہے ۔ خود کو جمہوریت کا علم بردار کہنےوالے دھرنوں اور پر تشدد احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے اگلے انتخابات کا انتظار کریں۔

Leave a Reply