جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد 1988ء میں بینظیر بھٹو جب پہلی مرتبہ وزیراعظم بنی تو تھوڑے ہی عرصہ بعد ضیاء دور کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بینظیر بھٹو کے شوہرآصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب دیا۔ آصف زرداری کی اُس وقت کی مالی بدعنوانیاں جو لاکھوں اور کروڑوں میں تھیں کو روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہوئی۔ 1990ء میں اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر حکومت کو برطرف کردیا۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری کے خلاف کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے تحت نو ریفرنس عدالتوں میں دائر کیے گئے۔ لیکن پھر 1993ء میں اسی صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو برطرف کرنے کےلیے اُسی بدعنوان آصف زرداری سے بطور وزیر ایوان صدر میں حلف لیا، کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے نو ریفرنس بھلادیے گئے کیونکہ مفاد پرست سیاست کی ضرورت تھی، احتساب کا معاملہ ٹھپ ہو گیا۔
آفتاب شیرپاؤ 1993ء کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن بنے اورصوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلی منتخب ہوئے اور نومبر 1997ء تک بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد نواز شریف دور میں نیب کی جانب سے ان پر بدعنوانی کے کئی مقدمات قائم کیے گئے۔ ان مقدمات کی وجہ سے وہ ملک سے باہر چلے گئے ۔2002ء میں ایک خفیہ ڈیل کے تحت واپس آئے اور پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہوکر پیپلز پارٹی شیرپاؤ گروپ کے نام سے ایک نئی جماعت بنائی بعد میں اُس کا نام قومی وطن پارٹی رکھ دیا گیا۔ قومی وطن پارٹی نے صوبہ خیبر پختونخوا میں کئی قومی اور صوبائی نشستیں حاصل کیں۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ق) کی حکومت کی حمایت اور اس دوران وزیرداخلہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ کئی خودکش حملوں میں بال بال بچے۔ 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ جنوری 2009ء میں مائع گیس کے منافع بخش کاروبار میں مال بنانے والوں کی فہرست جاری ہوئی جس میں آفتاب شیرپاؤ کا نام بھی شامل تھا۔ اب اُن کے صابزادئے سکندر شیرپاؤ بھی سیاست میں بھرپور حصہ لیتے ہیں اور بہت مصروف سیاستدان ہیں ، اُ ن پر بھی خود کش حملے ہوچکے ہیں۔
آفتاب شیرپاؤ 1993ء کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن بنے اورصوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلی منتخب ہوئے اور نومبر 1997ء تک بے نظیر بھٹو کی حکومت کی معزولی تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد نواز شریف دور میں نیب کی جانب سے ان پر بدعنوانی کے کئی مقدمات قائم کیے گئے۔ ان مقدمات کی وجہ سے وہ ملک سے باہر چلے گئے ۔2002ء میں ایک خفیہ ڈیل کے تحت واپس آئے اور پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہوکر پیپلز پارٹی شیرپاؤ گروپ کے نام سے ایک نئی جماعت بنائی بعد میں اُس کا نام قومی وطن پارٹی رکھ دیا گیا۔ قومی وطن پارٹی نے صوبہ خیبر پختونخوا میں کئی قومی اور صوبائی نشستیں حاصل کیں۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ق) کی حکومت کی حمایت اور اس دوران وزیرداخلہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ کئی خودکش حملوں میں بال بال بچے۔ 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ جنوری 2009ء میں مائع گیس کے منافع بخش کاروبار میں مال بنانے والوں کی فہرست جاری ہوئی جس میں آفتاب شیرپاؤ کا نام بھی شامل تھا۔ اب اُن کے صابزادئے سکندر شیرپاؤ بھی سیاست میں بھرپور حصہ لیتے ہیں اور بہت مصروف سیاستدان ہیں ، اُ ن پر بھی خود کش حملے ہوچکے ہیں۔
گیارہ مئی2013ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے صوبہ خیبر پختونخوا میں جب اپنی حکومت بنانے کی کوششیں شروع کیں تو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کی بھرپورکوشش کی۔
گیارہ مئی2013ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے صوبہ خیبر پختونخوا میں جب اپنی حکومت بنانے کی کوششیں شروع کیں تو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کی بھرپورکوشش کی۔ اُس وقت طاقت کا توازن قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کے ہاتھ میں تھا اور دونوں نے ہی اپنا اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے اس کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا۔ تینوں جماعتوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ صوبے میں کرپشن کے خاتمے، قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی بالا دستی کے لئے بھر پور کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ تینوں جماعتوں نے اس عزم کو بھی دوہرایا تھا کہ یہ اتحاد پانچ سال تک برقرار رہے گا مگر صرف چھ ماہ کے مختصر عرصے کے دوران ہی کئی معاملات پر اختلاف رائے اور متضاد پالیسیاں سامنے آنے کے بعدآخر کار تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے مبینہ بدعنوانیوں کے الزام میں قومی وطن پارٹی کے دو صوبائی وزراء بخت بیدار خان اور ابرار حسین کو برطرف کردیا، جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قومی وطن پارٹی سے اتحاد کے خاتمے کا بھی اعلان کیا۔
قومی وطن پارٹی کے رہنما اورسینئر وزیر سکندر خان شیرپاؤ نے اپنی پارٹی کے دو صوبائی وزرا کو فارغ کیے جانے پرخود بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی پارٹی اب صوبائی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ تحریک انصاف پختون مخالف پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور وہ پختون قوم کو تباہی کے دہانے پر لے جانا چاہتی ہے۔ سابق سینر وزیر نے کہا کہ ٹھوس وجوہات کے بغیر قومی وطن پارٹی کے دو وزرا کو برطرف کرنا غیر اخلاقی عمل ہے اور ہماری پارٹی کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر وزرا کے معاملے پر قومی وطن پارٹی کو اعتماد میں لیاجاتا تو وہ دونوں وزرا کے خلاف سخت کارروائی کرتے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی کا اتحاد جلد ہی ماضی کا ایک قصہ بنگیا اور عام لوگ اس بات کو بھول گئے کہ تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی کبھی حکومتی اتحادی تھے۔ لیکن 30 مئی 2015ء کو بلدیاتی الیکشن کے موقعہ پرقومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان دوبارہ قربتیں پیدا ہوہیں، چند اضلاع میں دونوں کے درمیان پس پردہ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہوئی/ بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی اور بدنظمی کے خلاف سہ فریقی اتحاد کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کے بائیکاٹ کے باوجود قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ اور ان کے رہنماؤں نے اے پی سی میں شرکت کی تھی جس کی وجہ سے حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کامیابی ملی تھی اور ہڑتال و شٹرڈاؤن ناکام ہوا تھا۔ پشاورمیں ایک پریس کانفرنس کے دوران قومی وطن کے پارٹی کے چئیرمین آفتاب شیرپاؤ نے کہا تھا کہ سیاست میں دروازے کبھی بند نہیں ہونے چاہئیں اور ایسا ہی ہوا، تازہ اطلاع کے مطابق قومی وطن پارٹٰی کی دوبارہ صوبائی حکومت میں شمولیت کا معاہدہ ہوگیا ہے۔
قومی وطن پارٹی کے رہنما اورسینئر وزیر سکندر خان شیرپاؤ نے اپنی پارٹی کے دو صوبائی وزرا کو فارغ کیے جانے پرخود بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی پارٹی اب صوبائی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ تحریک انصاف پختون مخالف پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور وہ پختون قوم کو تباہی کے دہانے پر لے جانا چاہتی ہے۔ سابق سینر وزیر نے کہا کہ ٹھوس وجوہات کے بغیر قومی وطن پارٹی کے دو وزرا کو برطرف کرنا غیر اخلاقی عمل ہے اور ہماری پارٹی کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر وزرا کے معاملے پر قومی وطن پارٹی کو اعتماد میں لیاجاتا تو وہ دونوں وزرا کے خلاف سخت کارروائی کرتے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی کا اتحاد جلد ہی ماضی کا ایک قصہ بنگیا اور عام لوگ اس بات کو بھول گئے کہ تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی کبھی حکومتی اتحادی تھے۔ لیکن 30 مئی 2015ء کو بلدیاتی الیکشن کے موقعہ پرقومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان دوبارہ قربتیں پیدا ہوہیں، چند اضلاع میں دونوں کے درمیان پس پردہ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہوئی/ بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی اور بدنظمی کے خلاف سہ فریقی اتحاد کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کے بائیکاٹ کے باوجود قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ اور ان کے رہنماؤں نے اے پی سی میں شرکت کی تھی جس کی وجہ سے حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کامیابی ملی تھی اور ہڑتال و شٹرڈاؤن ناکام ہوا تھا۔ پشاورمیں ایک پریس کانفرنس کے دوران قومی وطن کے پارٹی کے چئیرمین آفتاب شیرپاؤ نے کہا تھا کہ سیاست میں دروازے کبھی بند نہیں ہونے چاہئیں اور ایسا ہی ہوا، تازہ اطلاع کے مطابق قومی وطن پارٹٰی کی دوبارہ صوبائی حکومت میں شمولیت کا معاہدہ ہوگیا ہے۔
عمران خان 126 دن کے لاحاصل دھرنے اور سول نافرمانی کی ناکام اپیل سے عوام کی بہتری کے لیے کوئی تبدیلی نہیں لاسکے لیکن شاید دھرنے کے دوران اُنہیں یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ملک کی ساری سیاسی جماعتوں کی طرح اُنہیں بھی اسی مفاد پرست سیاست کا حصہ بننا پڑے گا
سب جانتے ہیں کہ عمران خان 126 دن کے لاحاصل دھرنے اور سول نافرمانی کی ناکام اپیل سے عوام کی بہتری کےلیے کوئی تبدیلی نہیں لاسکے لیکن شاید دھرنے کے دوران اُنہیں یہ بات سمجھ میں آگئی ہےکہ ملک کی ساری سیاسی جماعتوں کی طرح اُنہیں بھی اسی مفاد پرست سیاست کا حصہ بننا پڑے گا جہاں نہ کوئی اصول ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی انصاف، صرف اور صرف لوٹ کھسوٹ کا بدعنوان نظام ہوتا ہے۔ اسی مفاد پرست سیاست کی وجہ سے ہی غلام اسحاق خان نے بدعنوان آصف زرداری سے وزیر کاحلف لیا تھا، پرویز مشرف اور چوہدری شجات ایک ہی حکومت کا حصہ بنے تھے، پرویز مشرف نےبینظیراور دوسرے بدعنوانوں کےلیے این آر او بنایا تھا ۔اسی مفاد پرست سیاست کے طفیل آصف زرداری نے پانچ سال پورے ملک کو لوٹا اور نواز شریف دوستانہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے رہے اور آج اسی مفاد پرست سیاست کی وجہ سے نواز شریف کےگرد لوٹے جمع ہیں۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے جس قومی وطن پارٹی کے بدعنوان وزرا کی مبینہ بدعنوانیوں کی وجہ سے اُس کے دو صوبائی وزراء کو برطرف کردیاتھا اور اُن سے اپنا اتحاد ختم کرلیا تھا اسی مفاد پرست سیاست کی وجہ سے دوبارہ اتحاد کرلیا ہے۔ عمران خان کو اس نئے یو ٹرن پرمبارکباد تو نہیں دی جاسکتی لیکن عام لوگوں کو یہ ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے خود تبدیل ہوکراُسی بدعنوان نظام کا حصہ بن گئے ہیں جو گزشتہ انہتر سال سے پاکستان میں رائج ہے۔ دوستو پاکستان میں تبدیلی تو کیا آتی لیکن آپ کہہ سکتے ہیں عمران خان اور تحریک انصاف میں تبدیلی آچکی ہے۔ آخر میں ایک سوال قومی وطن پارٹی کے رہنما سکندر خان شیرپاؤ سے کہ تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی کے وقت آپ نے تحریک انصاف پر الزام لگایا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت پختون مخالف پالیسیوں پرعمل پیراہے۔ کیا آپ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب تحریک انصاف کی حکومت نے پختون مخالف پالیسیوں پرعمل پیراہوناچھوڑ دیا ہے یا پھریہ مفاد پرست سیاست کا کمال ہے کہ تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی دوبارہ حکومتی اتحادی بن گئے ہیں۔ آغا شورش کاشمیری نے شاید اسی مفاد پرست سیاست کو سامنے رکھ کر کہا تھا؛
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے جس قومی وطن پارٹی کے بدعنوان وزرا کی مبینہ بدعنوانیوں کی وجہ سے اُس کے دو صوبائی وزراء کو برطرف کردیاتھا اور اُن سے اپنا اتحاد ختم کرلیا تھا اسی مفاد پرست سیاست کی وجہ سے دوبارہ اتحاد کرلیا ہے۔ عمران خان کو اس نئے یو ٹرن پرمبارکباد تو نہیں دی جاسکتی لیکن عام لوگوں کو یہ ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے خود تبدیل ہوکراُسی بدعنوان نظام کا حصہ بن گئے ہیں جو گزشتہ انہتر سال سے پاکستان میں رائج ہے۔ دوستو پاکستان میں تبدیلی تو کیا آتی لیکن آپ کہہ سکتے ہیں عمران خان اور تحریک انصاف میں تبدیلی آچکی ہے۔ آخر میں ایک سوال قومی وطن پارٹی کے رہنما سکندر خان شیرپاؤ سے کہ تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی کے وقت آپ نے تحریک انصاف پر الزام لگایا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت پختون مخالف پالیسیوں پرعمل پیراہے۔ کیا آپ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب تحریک انصاف کی حکومت نے پختون مخالف پالیسیوں پرعمل پیراہوناچھوڑ دیا ہے یا پھریہ مفاد پرست سیاست کا کمال ہے کہ تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی دوبارہ حکومتی اتحادی بن گئے ہیں۔ آغا شورش کاشمیری نے شاید اسی مفاد پرست سیاست کو سامنے رکھ کر کہا تھا؛
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں