کیونکہ آپ نے ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہوئے مارچ ۱۹۹۲ میں پاکستان کو پہلا (اوراب تک کا آخری) کرکٹ ورلڈ کپ جتوایا؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ آپ نے شوکت خانم اسپتال جیسا بیمار پرور شفاخانہ کھڑا کیا؟ ہر گز نہیں۔کیونکہ آپ دنیا بھر میں ایک کرشماتی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ آپ کو دنیا بھر میں شادی کے لیے ایک سے ایک آفرز موصول ہوئیں؟ اجی نہیں۔ کیونکہ آپ پندرہ فٹ اونچے سٹیج سے گردن کے بل گرے، لیکن گردن میں خم نہیں آیا؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ آپ زمین پر ورکرز کے ہمراہ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر سوکھا باسی کھانا کھاتے ہیں اور وہیں سو جاتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔کیونکہ آپ نے چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، اور یہی مطالبہ چالیس حلقوں۔۔اور پھر۔۔۔؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ آپ نے آزادی مارچ جیسا انقلابی قد م اٹھایا؟ ہرگز نہیں۔کیونکہ آپ نے پنتیس پنکچرز والی بلاک بسٹر ٹیپ ریلیز کی اور ایک بریگیڈئر کا نام عوامی اجتماعات میں بہ بانگ دہل پکارا؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ آپ کی جماعت میں محترمہ شیریں مزاری جیسی قدآور سیاستدان بطور ترجمان پائی جاتی ہیں؟ جی نہیں، ہر گز نہیں۔ کیونکہ آپ کی سیاست کو ٹریفک کے ایک سگنل سے منسوب کیا جاتا ہے؟ بالکل نہیں۔ کیونکہ جہانگیر ترین، خورشید قصوری، عبدالعلیم خان، شاہ محمود قریشی اور لاتعداد کھرانٹ انقلابیے آپ کے دست راست ہیں؟ناں، ہرگز نہیں۔ تو پھر شاید اس لیے کہ آپ کے ہم قدم ان دنوں پنڈی والے شیخ صاحب آپ کے مصاحب ہیں؟ جی نہیں۔ ہر گز نہیں۔ تو پھر آخر ایسی کون سی خوبی باقی رہی جس کی بدولت آپ ہمارے محبوب ترین رہنما ہوئے ہیں۔
لیجیے، ہم بیان کیے دیتے ہیں ۔ تو صاحب ایسا یوں ہوا ہے کیونکہ حکومتی نااہلی اور عوام کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خان صاحب نے ایک قومی لیڈر کا روپ دھارا،کراچی سے خیبر تک اور گوادر سے قراقرم تک تمام ملکی مسائل کے حل کے لیے انتہائی جاں فشانی سے دن رات ایک کیا، نان ایشوز کو چھوا تک نہیں، اور ہمارے حقیقی مسئلوں پر کیا کیا نہ کر دکھایا۔ مثال کے طور پر یہ خان صاحب ہی تھے جنہوں نے گزرے ڈیڑھ برس کا نصف یعنی پورے نو ماہ بلوچستان میں گزارا۔ پارٹی تنظیم سازی تو ثانوی معاملہ رہا، اصل میں اس عرصے کے دوران آپ نے تمام ناراض بلوچ قبائل سے لاتعداد ملاقاتیں کیں۔ یہ آپ ہی کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے کہ آج حکومت اور ناراض بلوچ رہنما ایک میز پر اکٹھے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناصرف وفاقی اور صوبائی حکومت بلکہ پورا بلوچستان آپ کو سفیر امن کے نام سے یاد کرتا ہے۔
لیجیے، ہم بیان کیے دیتے ہیں ۔ تو صاحب ایسا یوں ہوا ہے کیونکہ حکومتی نااہلی اور عوام کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خان صاحب نے ایک قومی لیڈر کا روپ دھارا،کراچی سے خیبر تک اور گوادر سے قراقرم تک تمام ملکی مسائل کے حل کے لیے انتہائی جاں فشانی سے دن رات ایک کیا، نان ایشوز کو چھوا تک نہیں، اور ہمارے حقیقی مسئلوں پر کیا کیا نہ کر دکھایا۔ مثال کے طور پر یہ خان صاحب ہی تھے جنہوں نے گزرے ڈیڑھ برس کا نصف یعنی پورے نو ماہ بلوچستان میں گزارا۔ پارٹی تنظیم سازی تو ثانوی معاملہ رہا، اصل میں اس عرصے کے دوران آپ نے تمام ناراض بلوچ قبائل سے لاتعداد ملاقاتیں کیں۔ یہ آپ ہی کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے کہ آج حکومت اور ناراض بلوچ رہنما ایک میز پر اکٹھے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناصرف وفاقی اور صوبائی حکومت بلکہ پورا بلوچستان آپ کو سفیر امن کے نام سے یاد کرتا ہے۔
ٓآپ کی جماعت نے خیبرپختونخواہ میں صرف نوے روز میں انقلاب برپا کر دکھایا۔ آپریشن ضرب عضب کی بھر پور حمایت کی، متاثرین شمالی وزیرستان کی خدمت کے لیے دن رات ایک کیا۔ملک بھرسے لاکھوں تبدیلی رضاکار اکٹھے کیے اور انہیں آئی ڈی پیز کی خدمت پر مامور کیا۔ صوبے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آپ نے انقلابی اقدامات اٹھائے۔
اندرون سندھ ہو، کراچی کی بد امنی ہو یا جنوبی پنجاب کی دہائیوں سے جاری محرومی ہو۔ خان صاحب نے نہ صرف ان اہم معاملات کی وکالت ایوان میں کی بلکہ ایوان سے باہر بھی آپ کی آواز سب سے موثر ثابت ہوئی۔ ان مدعوں پر تمام سٹیک ہولڈرز کو خان صاحب نے آن بورڈ کیا، اور آپ کی یہی وہ کاوشیں ہیں جنہوں نے آپ کو ملک کا مقبول ترین راہ نما بنا دیا۔
آپ نے ناصرف دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کیا بلکہ جمہوریت کے استحکام کے لیے موجودہ حکومت کو مدت پوری کرنے کا وقت دیتے ہوئے چار سال کا کڑوا کسیلا گھونٹ بھرنے کو ترجیح دی۔ لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل سے نکلا،عوام بلبلا اٹھے۔اور مجبوراً سڑکوں پر آٓگئے، تو حکومتی بے حسی اورنا اہلی کھل کر سامنے آگئی۔ ایسے میں خان صاحب آگے بڑھے، تحریک انصاف کے تھینک ٹینک کے سرکردہ ماہرین کو بلایا۔ ہفتوں سر جوڑے بیٹھے رہے۔اور بالآخر حکومت کو لوڈشیڈنگ سے جلد چھٹکارا اپانے کا تیر بہدف نسخہ عطا کرتے ہوئے ایک اور شرمندگی سے دو چار کیا۔
خدا خوش رکھے، خان صاحب ملکی تاریخ کے وہ واحد اپوزیشن رہنما ہیں جنہوں نے ایوان میں عددی اکثریت کم ہونے کے باوجود انتہائی موثر اندا ز میں ملکی داخلی اور خارجی مسائل پر پالیسی ساز اقدامت تجویز کیے جن کو قبول کرنے کے سوا حکومت کے پاس کوئی اور چارہ نہ رہا۔ میرے محبوب رہنما نے انتخابی اصلاحات اور دھاندلی کے تدارک کے لیے سیاسی اور آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے جامع اور مفصل تجاویز پیش کیں جنہیں ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر حکومت نے یہ اصلاحات من و عن تسلیم کرتے ہوئے انہیں آئین کا حصہ بنا دیا ۔
آپ کی جماعت نے خیبر پختونخواہ میں صرف نوے روز میں انقلاب برپا کر دکھایا۔ آپریشن ضرب عضب کی بھر پور حمایت کی، متاثرین شمالی وزیرستان کی خدمت کے لیے دن رات ایک کیا۔ملک بھرسے لاکھوں تبدیلی رضاکار اکٹھے کیے اور انہیں آئی ڈی پیز کی خدمت پر مامور کیا۔ صوبے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آپ نے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ دو چار نہیں بلکہ تین سو پچاس ڈیمز بنا ڈالے۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کے کسی بزنس مین سے یہ پوچھا جائے کہ صاحب، آپ کیا کاروبار کرتے ہیں؟ تو وہ عجز و انکساری سے شرماتے ہوئے یہ جواب دیتا ہے؛ "کچھ خاص نہیں جی، بس ایک چھوٹا سا ڈیم ہے”
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عجیب پاگل لکھاری ہے۔بھئی، یہ سب کام تو حکومت کے کرنے کے تھے۔ یہ سب بھلا خان صاحب کے گلے کیوں ڈالے گئے۔تو صاحب، گزارش فقط اتنی سی ہے کہ جب حکومت ہی نا اہل ہو تو پھر ملکی سیاسی منظرنامے میں خان صاحب کے کردار کو بھلا کیونکر جھٹلایا جا سکتا ہے؟ اور حکومت اپنی ساکھ ویسے ہی مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ عوام الناس عام انتخابات کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ پذیرائی کا عالم یہ ہے کہ اب تو وولف بلٹزر اور کرسٹینا آمنپور کو بھی خان صاحب کا انٹرویو لینے کے لیے چھ ماہ کی ایڈوانس بکنگ کروانا پڑتی ہے، رہی بات ملکی میڈیا کی تو ابھی چند روز پہلے آپ نے ملک کے دو جیدصحافیوں جناب طلعت حسین صاحب اور محترمہ نسیم زہر ہ صاحبہ کو انٹرویوز کے دوران ا انتہائی تحمل اور مدلل گفتگوسے لاجواب کر دیا۔اور پھر پورے پاکستان نے دیکھا کہ کیسے یہ صحافی لاجواب ہو کر رہ گئے۔ ہیں جی!
صاحب، اندر کی اطلاع یہ ہے کہ بے پناہ عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اب محترمہ شیریں مزاری اور دیگر سینئر رہنما رات دن ایک ہی مدعے پر دماغ کھپا رہے ہیں۔ اور وہ مدعا یہ ہے کہ کس طرح پاکستان کی وزارت عظمی تاحیات خان صاحب کے نام کر دی جائے۔امید ہے کہ اس گھمبیر سمَسیا کا حل جلد تلاش کر لیا جاوے گا۔
آپ کے کرشماتی حسن پر مولانا حسرت موہانی کا وہ شعر ہی پیش کر سکتا ہوں؛
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
آپ نے ناصرف دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کیا بلکہ جمہوریت کے استحکام کے لیے موجودہ حکومت کو مدت پوری کرنے کا وقت دیتے ہوئے چار سال کا کڑوا کسیلا گھونٹ بھرنے کو ترجیح دی۔ لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل سے نکلا،عوام بلبلا اٹھے۔اور مجبوراً سڑکوں پر آٓگئے، تو حکومتی بے حسی اورنا اہلی کھل کر سامنے آگئی۔ ایسے میں خان صاحب آگے بڑھے، تحریک انصاف کے تھینک ٹینک کے سرکردہ ماہرین کو بلایا۔ ہفتوں سر جوڑے بیٹھے رہے۔اور بالآخر حکومت کو لوڈشیڈنگ سے جلد چھٹکارا اپانے کا تیر بہدف نسخہ عطا کرتے ہوئے ایک اور شرمندگی سے دو چار کیا۔
خدا خوش رکھے، خان صاحب ملکی تاریخ کے وہ واحد اپوزیشن رہنما ہیں جنہوں نے ایوان میں عددی اکثریت کم ہونے کے باوجود انتہائی موثر اندا ز میں ملکی داخلی اور خارجی مسائل پر پالیسی ساز اقدامت تجویز کیے جن کو قبول کرنے کے سوا حکومت کے پاس کوئی اور چارہ نہ رہا۔ میرے محبوب رہنما نے انتخابی اصلاحات اور دھاندلی کے تدارک کے لیے سیاسی اور آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے جامع اور مفصل تجاویز پیش کیں جنہیں ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر حکومت نے یہ اصلاحات من و عن تسلیم کرتے ہوئے انہیں آئین کا حصہ بنا دیا ۔
آپ کی جماعت نے خیبر پختونخواہ میں صرف نوے روز میں انقلاب برپا کر دکھایا۔ آپریشن ضرب عضب کی بھر پور حمایت کی، متاثرین شمالی وزیرستان کی خدمت کے لیے دن رات ایک کیا۔ملک بھرسے لاکھوں تبدیلی رضاکار اکٹھے کیے اور انہیں آئی ڈی پیز کی خدمت پر مامور کیا۔ صوبے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آپ نے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ دو چار نہیں بلکہ تین سو پچاس ڈیمز بنا ڈالے۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کے کسی بزنس مین سے یہ پوچھا جائے کہ صاحب، آپ کیا کاروبار کرتے ہیں؟ تو وہ عجز و انکساری سے شرماتے ہوئے یہ جواب دیتا ہے؛ "کچھ خاص نہیں جی، بس ایک چھوٹا سا ڈیم ہے”
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عجیب پاگل لکھاری ہے۔بھئی، یہ سب کام تو حکومت کے کرنے کے تھے۔ یہ سب بھلا خان صاحب کے گلے کیوں ڈالے گئے۔تو صاحب، گزارش فقط اتنی سی ہے کہ جب حکومت ہی نا اہل ہو تو پھر ملکی سیاسی منظرنامے میں خان صاحب کے کردار کو بھلا کیونکر جھٹلایا جا سکتا ہے؟ اور حکومت اپنی ساکھ ویسے ہی مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ عوام الناس عام انتخابات کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ پذیرائی کا عالم یہ ہے کہ اب تو وولف بلٹزر اور کرسٹینا آمنپور کو بھی خان صاحب کا انٹرویو لینے کے لیے چھ ماہ کی ایڈوانس بکنگ کروانا پڑتی ہے، رہی بات ملکی میڈیا کی تو ابھی چند روز پہلے آپ نے ملک کے دو جیدصحافیوں جناب طلعت حسین صاحب اور محترمہ نسیم زہر ہ صاحبہ کو انٹرویوز کے دوران ا انتہائی تحمل اور مدلل گفتگوسے لاجواب کر دیا۔اور پھر پورے پاکستان نے دیکھا کہ کیسے یہ صحافی لاجواب ہو کر رہ گئے۔ ہیں جی!
صاحب، اندر کی اطلاع یہ ہے کہ بے پناہ عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اب محترمہ شیریں مزاری اور دیگر سینئر رہنما رات دن ایک ہی مدعے پر دماغ کھپا رہے ہیں۔ اور وہ مدعا یہ ہے کہ کس طرح پاکستان کی وزارت عظمی تاحیات خان صاحب کے نام کر دی جائے۔امید ہے کہ اس گھمبیر سمَسیا کا حل جلد تلاش کر لیا جاوے گا۔
آپ کے کرشماتی حسن پر مولانا حسرت موہانی کا وہ شعر ہی پیش کر سکتا ہوں؛
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
نوٹ:( قارئین کے بے پناہ اصرار کے باوجود ناچیز مرشد پاک، اعلیٰ حضرت قبلہ شیخ السلام پروفیسر ڈاکٹر حضرت علامہ طاہرالقادری مدظلہ العالی المعروف عالم رویا والے کے جملہ اوصاف پر مزید روشنی ڈالنے سے قاصر ہے۔کیونکہ اس حقیر نے بالآخر قبلہ کی مریدی کا فیصلہ کر لیا ہے۔وجوہات کا ذکر پھر سہی)
Merey bhia. Mazhiya writer banney ka khial apney dil sey nikal dou. pata hai kis ka style copy kiya hai. get a life.
Sahib jalnay say guraiz karen, ap key sehat k liye acha nhi :p Her wakt dosron per tanqeed kerna hamara quomi wateera ban chuka hai. Jami nay buhat khoob likha hai.
Yahi sab baatein, kaash Imran Khan ko samaj aa jaein. Sab salahiyatein rakhnein ke bawajood bhi, unn ki zid unn ko ley doobti hoi nazar aa rahi hai.
Mulk ka tu waise hee behrha gharak ho chuka hai.
Behtereen likha hai Jami.
Dear Jami hats off a strong committed point of view
Cha gia hai yaar, You have mentioned the concerns so nicely, something that i could not deliver to my friends easily. Maza a gia 😀
Thank you Dr, Aima and all others for your kind words.
jaami sb u r great
I liked it except the last two paragraphs (minus note) since these seems to be both personal and sentimental.